کیا روزانہ نہانا ضروری ہے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 25, 2024

Getty Images

کچھ برسوں قبل میں نے چند وجوہات کی بنا پر روزانہ نہانا چھوڑ دیا تھا۔ کورونا وائرس کے سبب گھر سے کام، ایک ایسا پارٹنر جو مجھ سے کم نہاتا تھا اور سُستی و کاہلی کے سبب میں نے تقریباً تین دہائیوں پُرانی عادت چھوڑ دی۔

اب اگر میں ورزش نہ کروں تو ہفتے میں صرف تین مرتبہ ہی نہاتا ہوں۔ میرے کچھ ایسے دوست بھی ہیں جو سردیوں میں صرف ہفتے میں ایک مرتبہ نہاتے ہیں کیونکہ یا تو انھیں جلد کے مسائل ہیں یا پھر انھیں اپنے بالوں کو گیلا کرنا پسند نہیں۔

لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہم سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’میں جب تک نہا نہ لوں میری تو صبح ہی نہیں ہوتی۔ ہر دن کا آغاز نہانے اور ایک چائے کے کپ سے ہونا چاہیے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ میں لندن کی سڑکوں پر گھومنے کے بعد بنا نہائے بیڈ میں گُھس جاؤں۔‘

ہم لوگ جو ذرا کم نہاتے ہیں انھیں شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ گذشتہ ہفتے برطانوی ٹی وی میزبان جوناتھن راس اس وقت خبروں کا حصہ بن گئے تھے جب انھوں نے کہا تھا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک بار نہاتے ہیں۔

اس طرح 2023 میں اداکارہ امیریکا فریرا نے اپنے ساتھیوں کو یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ وہ اکثر نہاتی ہی نہیں۔

یہ معاملات اتنی سنگینی اختیار کر گئے کہ ’دی راک‘ اور جیسن موموا جیسے اداکاروں کو بھی کہنا پڑا کہ وہ بہت زیادہ نہاتے ہیں۔

ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ہاتھوں کو بار بار دھونے سے جراثیم کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ضرور ملتی ہے لیکن روز نہانے سے انسانی جسم کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ روز نہانا آپ کی صحت کے لیے مضر ہو سکتا ہے کیونکہ آپ جسم کو خشک کرتے ہیں جس سے آپ کی قوتِ مدافعت پر منفی اثر پڑتا ہے۔

اس کے باوجود تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی اور برطانوی شہریوں کی آدھی سے زیادہ تعداد روز نہاتی ہے۔ کیا اس عادت کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے؟

کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنا جو یہ اقرار کر سکے کہ وہ ذرا کم نہاتا ہے کوئی آسان کام نہیں۔ سنہ 2015 میں کیمسٹ ڈیوڈ وِٹلاک کا ایک بیان خبروں کی زینت بن گیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ گذشتہ 12 برسوں میں نہائے ہی نہیں۔ اس کے اگلے برس ہی فزیشن جیمز ہمبلن نے بھی ایک مضمون میں لکھا کہ وہ نہاتے ہی نہیں ہیں۔

سنہ 2020 میں انھوں نے اپنی کتاب ’کلین: دا نیو سائنس آف سکِن اینڈ دا بیوٹی آف ڈوئنگ لیس‘ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد جیمز ہمبلن نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’میرے جسم کی ایک بو ہے اور میری اہلیہ کہتی ہیں کہ میں اس سے پہچانا جاتا ہوں، وہ اسے پسند ہے۔ دیگر لوگ بھی کہتے ہیں ایک یہ بو اتنی بُری بھی نہیں۔‘

ماہرِ ماحولیات ڈوناچڈھ میککارتھی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’میں وہ واحد شخص نہیں جو روز نہیں نہاتا، بس میں وہ تنہا شخص ہوں جو بہادری سے اس پر موضوع پر بات کرنے کو تیار ہے۔‘

تقریباً آٹھ برس قبل انھوں نے برطانوی اخبار ’دا گارڈین‘ میں لکھا تھا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک بار ہی نہاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ منظرِ عام پر آ کر اس بات کا اقرار کرنا کافی ڈراؤنا لگتا ہے کیونکہ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مذاق اُڑایا جائے گا اور آپ کو بُرا بھلا کہا جائے گا۔

لیکن جب آٹھ برس قبل میککارتھی کا مضمون چھپا تو بہت سارے لوگوں نے ان کے کان میں سرگوشی کی کہ وہ خود بھی روز نہانے کے عادی نہیں۔

ایک حادثے میں زخمی ہونے سے قبل میککارتھی ایک پیشہ ور ڈانسر تھے۔ انھوں نے دو ہفتے ایمازون کے جنگلات میں ینومامی قبیلے کے ساتھ گزارے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اب وہ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے بعد انھوں نے بارش کا پانی جمع کرنا شروع کردیا اور اپنے پانی کے استعمال کا حساب بھی رکھنا شروع کردیا۔ آنے والے سالوں میں انھوں نے نہانا مزید کم کردیا۔

آج کل وہ صرف مہینے میں ایک بار نہاتے ہیں، لیکن وہ ایک گیلے کپڑے سے اپنے جسم کو روز صاف کرتے ہیں اور داڑھی بنانے کے لیے بھی صرف ایک پیالی پانی کا استعمال کرتے ہیں۔

کوئی نہیں کہتا کہ میککارتھی کے پاس سے بدبو آتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کسی پُرانی عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں خواب گاہوں میں آپ کو لکڑی کی خوبصورت میزیں نظر آتی ہیں اور ان میں پیالے نصب ہوتے ہیں۔‘

’لوگ ان پیالوں میں پانی رکھا کرتے تھے اور کے پاس چہرہ اور جسم صاف کرنے کے لیے کپڑا ہوا کرتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے گھر کے نلکوں میں پانی آنا ایک مثبت تبدیلی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پانی کا استعمال زیادہ کر رہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیےکیا ٹھنڈے پانی سے نہانا آپ کے جسم و دماغ کو بدل دیتا ہے؟سردیوں کے موسم میں ٹھنڈے پانی میں غوطہ خوری کے فوائد اور نقصانات’پرفارمیٹو شاورنگ‘

سنہ 2005 میں لوگوں کے نہانے کے رویے پر ایک تحقیقی رپورٹ لکھی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے لکھاری اور یونیورسٹی آف برسٹل کے پروفیسر ڈیل ساؤتھرٹن لکھتے ہیں کہ ’ہم ماضی کے مقابلے میں اپنے جسموں کو آج کل زیادہ دھویا کرتے ہیں۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ تبدیلی تقریباً پچھلے 100 برسوں میں آئی ہے اور یہ کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب حادثاتی طور پر ہوا ہے۔‘

روایتی طور پر لوگ اپنے آپ کو صاف رکھنے کے لیے نہایا کرتے تھے۔ نہانے کا تعلق کسی بیماری سے شفایاب ہونے کے لیے ہوا کرتا تھا، مگر اب یہ بھی جدت اختیار کر گیا ہے اور بڑے بڑے سپا کُھل گئے ہیں جہاں آپ شراب یا چائے کی پیالی سے محظوظ ہوسکتے ہیں اور نہاتے وقت کتاب بھی پڑھ سکتے ہیں۔

پروفیسر ڈیل کہتے ہیں کہ 1950 کی دہائی میں برطانوی شہریوں کو باتھ روم میں پانی کی سہولت فراہم کی گئی اور پھر جلد ہی ایک اور نئی ایجاد سامنے آئی۔ نلکوں پر ایک پلاسٹک کا شاور لگا دیا گیا۔

آج ہر نئے گھر یا عمارت کے ہر کمرے میں باتھ روم تعمیر کیے جاتے ہیں۔ پروفیسر ڈیل کہتے ہیں کہ: ’اگر پانچ افراد پر مشتمل خاندان کو ایک ہی باتھ روم میسر ہے تو کم ہی نہائیں گے، لیکن اگر ہر کسی کے کمرے میں باتھ روم موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ ہم اب زیادہ نہا رہے ہیں۔‘

پروفیسر ڈیل کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ اب شاور کی تعریف میں بھی فرق دیکھنے میں آیا ہے۔ 1900 کی دہائی میں اشتہارات میں باتھ رومز کے صرف خاکے دکھائے جاتے تھے، لیکن 1980 کی دہائی میں یہ ٹرینڈ تبدیل ہوا اور ان اشتہارات میں خواتین کی تصاویر استعمال ہونے لگیں جن کے ارد گرد دھواں پھیلا ہوا ہوتا تھا۔

ڈینمارک کی آلبرک یونیورسٹی کی پروفیسر کرسٹن گرام ہینسن کہتی ہیں کہ ’اگر آپ 100 برس پیچھے چلے جائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تب ہم روزانہ نہیں نہایا کرتے تھے کیونکہ اس وقت شاور ہونا کوئی نارمل بات نہیں تھی۔‘

’اب ہم صرف صحت اچھی رکھنے کے لیے نہاتے بلکہ اس لیے بھی نہاتے ہیں کیونکہ یہ سب اب نارمل ہو چکا ہے۔‘

مستقبل میں کیا ہوگا؟ کیا ہم زیادہ نہانے سے گریز کریں گے؟ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں لگتا کہ لوگ ماحول کو بہتر کرنے کی وجہ سے نہانے میں کمی لائیں گے۔

پروفیسر ڈیل کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی ایسی کہانی نہیں جہاں لوگ ایک کام بار بار کرتے جائیں اور پھر اچانک سب کہنے لگیں کہ چلو اب ہم رُک جاتے ہیں، روز نہانا کوئی اچھا آئیڈیا نہیں۔‘

’آپ گھڑی کے کانٹوں کا رُخ ماضی کی طرف نہیں موڑ سکتے، اب روز نہانا ہماری عادتوں کا حصہ بن گیا ہے۔‘

لگتا ہے کہ میری روز نہ نہانے کی عادت مستقبل میں بھی برقرار رہے گی۔

میککارتھی کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ روز نہانا پرفارمیٹو رویے کا حصہ ہے۔ ہم روز کیوں نہاتے ہیں؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ کبھی کوئی اُٹھ کر ہمیں کہہ دے گا کہ تمہارے پاس سے بدبو آ رہی ہے۔ میں نے اس ڈر پر قابو پا لیا اور اب میں جی رہا ہوں۔‘

کیا ٹھنڈے پانی سے نہانا آپ کے جسم و دماغ کو بدل دیتا ہے؟کیا روز نہانا اور شیمپو، ہیئر ڈرائر کا استعمال ہمارے بالوں کو نقصان پہنچاتا ہے؟کیا فلٹر کا ’صاف‘ پانی واقعی نلکے کے پانی سے بہتر ہوتا ہے؟رات کی بہترین نیند کا حصول کیسے مُمکن ہے؟کیا چینی کے بجائے شہد کا استعمال صحت کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More