’نیتزہ یہودا‘: انتہائی قدامت پسند یہودی نوجوانوں پر مشتمل اسرائیلی فوج کے یونٹ کو ممکنہ امریکی پابندیوں کا سامنا کیوں ہے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 24, 2024

Getty Imagesاس یونٹ کی تشکیل 1999 میں ہوئی تھی اور اس کا مقصد انتہائی قدامت پسند یہودی نوجوانوں کو اسرائیلی فوج میں شامل کرنا تھا

امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں کے بیانات کے مطابق امریکہ اسرائیلی فوج کی ’نیتزہ یہودا‘ بٹالین پر پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ بٹالین زیادہ تر مقبوضہ غرب اُردن کے علاقوں میں کارروائیاں کرتی ہے۔

امریکی ویب سائٹ ’ایکسیوس‘ (Axios) کے مطابق یہ پہلا موقع ہو گا کہ امریکی انتظامیہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے اسرائیلی فوج کی کسی بٹالین پر پابندیاں عائد کر رہی ہے۔

اُدھر اسرائیلی فوج نے گذشتہ اتوار کو کہا تھا کہ وہ نیتزہ یہودا یونٹ پر ممکنہ امریکی پابندیوں کے فیصلے سے آگاہ نہیں ہیں۔ اسرائیلی فوج کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیتزہ یہودا ایک ’فعال جنگی یونٹ ہے جو بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے۔‘

امریکی ذرائع کے مطابق اگر امریکی محکمہ خارجہ نیتزہ یہودا بٹالین پر پابندیاں عائد کرتا ہے، تو اسے کسی بھی قسم کی امریکی فوجی امداد یا تربیت حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ ’اگر امریکہ ایسا کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کا جائزہ لیا جائے گا۔‘ واضح رہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران سخت گیر اور قدامت پرست یہودی فرقے ’ہریدی‘ کے اراکین کو فوجی خدمات سے استثنی دینے کے معاملے پر کافی غصہ سامنے آیا کیوںکہ اسرائیل میں عوام کی اکثریت پر فوج میں خدمات انجام دینا لازمی ہے۔‘

حریدی برادری اسرائیل کی کل آبادی کا 12 فیصد ہے۔ ملک میں اسرائیلی عربوں کے علاوہ 18 سال کی عمر سے زیادہ کے تقریباً تمام اسرائیلی مردوں اور عورتوں پر فوج میں بھرتی ہونا لازمی ہے۔ اسرائیل میں ہر شہری پر تین سال تک فوج میں خدمات سرانجام دینا لازمی ہے۔ خواتین کے لیے یہ مدت دو سال کی ہے۔

امریکہ کی جانب سے ’نیتزہ یہودا‘ بٹالین پر ممکنہ پابندی کی خبروں کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور نتن یاہو نے ان خبروں کو مضحکہ خیز قرار دیا۔

نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے رکن بنی گانٹز نے کہا ہے کہ ایک اسرائیلی یونٹ پر امریکی پابندیاں عائد کرنا خطرناک پیش رفت ہے۔ انھوں نے امریکی سیکریٹری خارجہ انتھونی بلنکن سے فون پر بات چیت میں اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی کی۔

گانٹز کے مطابق جاری جنگ کے دوران نتزاہ یہودا بٹالین پر پابندی اسرائیل کی قانونی پوزیشن کو نقصان پہنچائے گی۔ انھوں نے کہا کہ پابندیاں عائد کرنے کا کوئی جواز نہیں، کیوںکہ فوجی یونٹ بین الاقوامی قانون پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل کے وزیر قومی سلامتی اُمور اتمار بن گویر نے واشنگٹن کی مجوزہ پابندیوں کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی کو فراہم کردہ تمام فنڈ واپس لینے کا مطالبہ کیا اور وزیر اعظم سے کہا ہے کہ وہ فلسطینی بینکوں کے خلاف سخت پابندیوں پر غور کریں۔

نیتزہ یہودا یونٹ کیا ہے؟

انتہائی قدامت پسند سمجھے جانے والے بہت سے حریدی یہودی اسرائیلی فوج میں شمولیت اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اپنا وقت تورات اور دیگر مذہبی کتابیں پڑھنے میں صرف کرتے ہیں۔

تاہم کئی حریدی نوجوان مشروط طور پر فوج میں خدمات سرانجام دینے کی حامی بھرتے ہیں، ان شرائط کے تحت انھیں فوج میں شمولیت کے بعد اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کے لیے کافی وقت دیا جاتا ہے۔

سنہ 1999 میں ’ناحال حریدی‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے وزارت دفاع کے تعاون سے اسرائیلی فوج میں حریدی نوجوانوں کی شمولیت پر کام کا آغاز کیا تھا۔ یوں نیتزہ یہودا بٹالین کا قیام عمل میں آیا جس میں ہزاروں حریدی سپاہی شامل ہوئے۔

ناحال حریدی تنظیم کے مطابق وہ ان اصولوں اور ضوابط پر سختی سے عملدرآمد کرتے ہیں جن کے تحت حریدی نواجوان اپنا طرز زندگی متاثر ہوئے بغیر اسرائیلی فوج میں کام کر پاتے ہیں۔

سنہ 1999 میں 30 حریدی سپاہیوں پر مشتمل ’ناحال حریدی‘ یا ’نیتزہ یہودا‘ بٹالین تشکیل دی گئی جسے بٹالین 97 کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

اسرائیلی فوج کی نیتزہ یہودا بٹالین نے جنین اور رمل اللہ میں کام کیا۔ سنہ 2019 میں ایک عبرانی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بعد میں اسرائیلی فوج نے اس یونٹ کو جنین منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس کی بنیادی وجہ اس کی ناکامیوں کا تسلسل تھا۔

دسمبر 2022 میں اسرائیل نے اس یونٹ کو غرب اُردن منتقل کر دیا تاہم فوج نے ان خبروں کی تردید کی کہ ایسا بٹالین کے سپاہیوں کے رویے کی وجہ سے ہوا ہے۔

’یروشلم پوسٹ‘ کے مطابق سنہ 2024 میں اس یونٹ نے غزہ کی جنگ میں حصہ لینا شروع کیا۔ سابق اسرائیلی فوجی کمانڈر اویو کوچاوی کے مطابق کفیر بریگیڈ، جس میں نیتزہ یہودا بٹالین شامل ہے، لبنان، شام اور غزہ کی پٹی میں لڑ رہے ہیں۔

اِس وقت اس بٹالین میں ایک ہزار سپاہی ہیں جن میں زیر تربیت فوجی بھی شامل ہیں۔ اس یونٹ کے سپاہیوں کے لیے دو سال اور آٹھ ماہ تک فوج میں خدمات سرانجام دینا لازمی ہوتا ہے۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اس یونٹ کے سپاہی خواتین فوجیوں سے بات چیت نہیں کرتے اور ان کو اپنے مذہبی فرائض کے لیے اضافی وقت دیا جاتا ہے۔

اس یونٹ پر تنقید کیوں ہوتی ہے؟Getty Imagesاس یونٹ کے سپاہی خواتین فوجیوں سے بات چیت نہیں کرتے اور ان کو اپنے مذہبی فرائض کے لیے اضافی وقت دیا جاتا ہے

جنوری 2022 میں نیتزہ یہودا بٹالین کے اراکین پر ایک 79 سالہ فلسطینی امریکی عمر اسد کو قتل کرنے کا الزام لگا جنھیں ایک فوجی چوکی پر گرفتار کیا گیا تھا۔

عمر اسد کے اہلخانہ کے مطابق فوجیوں نے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنائی، ان کے منھ پر کپڑا باندھا اور کچھ وقت بعد ان کو مردہ حالت میں پایا گیا۔

تفتیش کے بعد اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ عمر اسد کے معاملے میں ’فوجیوں سے فیصلہ لینے میں غلطی ہوئی تھی۔‘ اسرائیلی فوج نے اسے اپنے سپاہیوں کی ’اخلاقی ناکامی‘ قرار دیا جس کے بعد نیتزہ یہودا بٹالین کے کمانڈر کو سزا دی گئی جبکہ کمپنی کمانڈر اور پلاٹون کمانڈر کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ تاہم واقعے میں ملوث سپاہیوں کے خلاف تفتیش کیے بغیر مقدمہ کو ختم کر دیا گیا۔

سنہ 2022 کے اختتام پر امریکی محکمہ خارجہ نے نیتزہ یہودا بٹالین کے خلاف تفتیش کا آغاز کیا جب اس کے سپاہیوں کے خلاف فلسطینی شہریوں پر تشدد کے الزامات سامنے آئے۔ ان الزامات میں عمر اسد کا مبینہ قتل بھی شامل تھا۔

غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے امریکہ نے تین مواقع پر فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کی بنا پر انفرادی پابندیاں عائد کی ہیں۔

حماس کے حملے پر مستعفی ہونے والے اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ میجر جنرل اہارون ہالیوا کون ہیں؟اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟نیتزہ یہودا پر پابندیاں کس قانون کے تحت لگائی جائیں گی؟

امریکہ میں اس ضمن میں رائج لیہی قانون ایسی غیر ملکی حکومتوں کو امداد فراہم کرنے سے روکتا ہے جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ثابت ہو۔

اس قانون کے تحت امریکی محکمہ دفاع پر پابندی کا سامنا کرنے والوں کو کسی قسم کی تربیت فراہم کرنے پر ممانعت ہوتی ہے۔

اگر غیر ملکی حکومت قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو امریکی امداد بحال ہو سکتی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق لیہی ایکٹ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب اس بات کے ٹھوس شواہد مل جائیں کہ غیر ملکی سکیورٹی فورسز کا کوئی یونٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی حکومت تشدد، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی، ریپ وغیرہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شامل کرتی ہے اور جب یہ مخصوص جرائم ثابت ہو جائیں تو لیہی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔

لیہی ایکٹ سنیٹر پیٹرک لیہی کے نام پر ہے جنھوں نے 1990 کی دہائی میں اس قانون کی منظوری کے لیے کام کیا تھا۔

کیبوتز: یہودی برادری کا انوکھا طرز زندگی جس نے اسرائیلی ریاست کو استحکام بخشا’یہودی طالبان‘ سے فرار: ’میں نے روزانہ انھیں کم عمر لڑکوں کو اپنے کمرے میں لے جاتے دیکھا‘’یہودی طالبان‘: مبینہ جنسی استحصال میں ملوث یہودی فرقہ ’لیو طہور‘ کیا ہے؟حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کا اعتراف، اسرائیلی فوج کے انٹیلیجنس سربراہ اپنے عہدے سے مستعفیایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More