Getty Images
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا جن میں سے اکثریت کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی۔ تاہم حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی کی جانب سے بعض حملوں سے لاتعلقی ظاہر کی گئی ہے۔
جیسے حال ہی میں خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں بشام کے مقام پر داسو ہائیڈل پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینیئروں پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کسی بھی شدت پسند تنظیم نے قبول نہیں کی۔
ماضی میں کچھ حملوں کو ٹی ٹی پی اور نام نہاد دولت اسلامیہ کے بجائے بعض غیر معروف اور چھوٹے شدت پسند گروہوں سے جوڑا گیا جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ٹی ٹی پی کی نئی حکمت عملی کا حصہ ہے یا پھر ملک میں واقعی مسلح شدت پسند گروہوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ چھوٹے گروہ کسی نہ کسی سطح پر ٹی ٹی پی سے منسلک رہے ہیں جو اب خود مختاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور مقامی طور پر شدت پسندانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
پُراسرار نئی شدت پسند تنظیمیں
بڑی کالعدم تنظیمیں جیسے القاعدہ اور ٹی ٹی پی ایک عرصے سے پاکستان میں متحرک رہی ہیں۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا حافظ گل بہادر گروپ ماضی میں حکومتِ پاکستان کا حمایتی رہا۔ پھر 2014 میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں افغانستان منتقل ہو گیا۔ یہ 2018 کے بعد سے شدت پسندانہ کارروائیوں میں فعال ہوا ہے اور اس نے کئی واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اس دوران ٹی ٹی پی نے متعدد چھوٹے شدت پسند گروپس کو اپنے ساتھ ملایا تاہم حافظ گل بہادر نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار نہیں کی اور ایک آزاد حیثیت برقرار رکھی۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان میں بظاہر جو نئی تنظیمیں وجود میں آئیں ان میں جبہ انصار المہدی خراسان، اتحاد مجاہدین خراسان، مجلس عسکری، جبہ الجنود المہدی، جیش فراسان محمد، جیش عمری اور تحریک جہاد پاکستان شامل ہیں۔
جبہ انصار المہدی خراسان اور جیش فرسان محمد
یہ قدرے نئی تنظیمیں زیادہ معروف نہیں مگر تجزیہ کاروں نے ان کی موجودگی سے صورتحال کے مزید گمبھیر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ جبہ انصار المہدی خراسان اپنے میڈیا ونگ کی بدولت منظر عام پر آئی جب اس نے کچھ حملوں کی ذمہ داریاں قبول کیں۔
یہ تنظیم سال 2022 کے آخر میں قائم ہوئی تھی اور 12 مارچ 2023 کو سکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تنظیم نے بیان میں کہا تھا کہ یہ سپرنگ آفینسیو یا موسم بہار کے حملوں کا آغاز ہے۔
اس کے بعد تنظیم نے ایک سکیورٹی اہلکار کو اغوا کیا تھا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اہلکار شدت پسندوں کی اطلاعات سکیورٹی اہلکاروں کو فراہم کرتا تھا جسے تفتیش کے بعد ہلاک کر دیا تھا۔ پاکستانی حکام کی جانب سے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دی گئیں۔
جبہ انصار المہدی خراسان اور جیش فرسان محمد دونوں تنظیموں کے بارے میں اس تنظیم سے وابستہ ترجمان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ یہ علیحدہ، علیحدہ تنظیمیں نہیں بلکہ یہ حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک ہیں۔
جیش فرسان محمد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ کافی پہلے قائم کر دی گئی تھی لیکن اس تنظیم نے پہلے افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کی تھیں لیکن افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد یہ پاکستان میں متحرک ہوئی۔
جبہ انصار المہدی خراسان کی قیادت کے بارے میں میڈیا میں صادق اللہ کا نام سامنے آیا ہے اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کا تعلق بکا خیل قبیلے سے ہے جو خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں کے قریب واقع ہے۔
اسی بارے میں’تحریک جہاد پاکستان‘: ڈیرہ اسماعیل خان میں 23 فوجیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟پاکستانی طالبان کی نمائندگی کرنے والا ’عمر میڈیا‘ کیسے کام کرتا ہے اور اسے کون چلاتا ہے؟
تحریک جہاد پاکستان
صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں 12 دسمبر 2023 کو ایک خود کش حملے میں 23 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت، اس سے پہلے مئی میں بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں ایف سی کیمپ پر حملے اور اسی سال نومبر میں پاکستان کے شہر میانوالی کی ایئربیس پر حملے کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی تھی۔
یہ تنظیم اس سے پہلے چمن، بولان، سوات کے علاقے کبل اور لکی مروت میں حملوں کی ذمہ داریاں بھی قبول کر چکی ہے لیکن ان میں کم از کم دو حملے ایسے ہیں جن میں اس تنظیم کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے تھے۔
یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے بارے میں حکام اوریہاں تک کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے عہدیدار بھی ماضی قریب تک یا تو کچھ نہیں جانتے تھے یا شاید بتانے سے گریزاں رہے۔
پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں شدت پسندی اور اس سے جڑے مسائل پر گہری تحقیق کرنے والے تجزیہ کار عبدالسید نے بی بی سی کو بتایا کہ تحریک جہاد پاکستان اب تک ایک پراسرار تنظیم ہے جس کی قیادت، ارکان اور وجود کے کوئی شواہد نہیں۔
دیگر تنظیمیں بھی زیادہ معروف نہیں ہیں اور نہ ہی ان تنظیموں کی جانب سے بڑے واقعات کی ذمہ داری قبول کی جا رہی ہے تاہم ان میں سے چند کے اپنے میڈیا چینل موجود ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ علاقائی تنظیمیں ہیں اور مخصوص علاقوں میں کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اس تنظیم نے ایک اندازے کے مطابق ایک درجن سے زیادہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں اطلاعات کے مطابق دو درجن سے زیادہ خودکش بمبار شامل تھے۔
بعض صحافیوں کو بھیجے گئے مختصر تحریری پیغامات کے ذریعے اس تنظیم کے قیام کا اعلان کیا گیا اور ایک سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا کچھ صحافیوں کو تحریری پیغامات بھیج کر شدت پسند حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی گئی۔
اس تنظیم کے ترجمان اپنا نام ملا محمد قاسم لکھتے ہیں، جنھوں نے صحافیوں کی درخواست اور کوشش کے باوجود اب تک کسی سے بات نہیں کی اور فقط تحریری پیغامات بھجوائے تھے۔ لہذا ان کے ماضی یا حقیقی کردار ہونے سے متعلق کوئی شواہد نہیں۔
AFPکیا یہ ٹی ٹی پی کی نئی حکمت عملی ہے؟
صحافی اور تجزیہ کار افتخار فردوس کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے آپریشن ماڈل کو تبدیل کر دیا ہے اور اب یہ تنظیم ایک مرکزی کمانڈ کے طور پر قائم ہے جس نے اختیارات کسی حد تک نچلی سطح پر ذیلی تنظیموں کو منتقل کر دیے ہیں جو کارروائیاں کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستانی حکام نے افغان طالبان سے بارہا یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس کی سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔
افتخار فردوس کا کہنا تھا کہ اس طرح کی پالیسی کسی بھی علاقے میں شورش پھیلانے کے لیے کامیاب پالیسی سمجھی جاتی ہے جس میں بڑی تنظیم خود اِن حملوں سے علیحدہ نظر آتی ہے۔
دوسری جانب سینیئر تجزیہ کار اور محقق عبدالسید نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تنظیمیں بظاہر تحریک طالبان پاکستان اور حافظ گل بہادر گروپ کے بڑھتے حملوں کی وجہ سے پاکستان کے افغان طالبان پر ردعمل کی شدت کو کم کرنے کی حکمت عملی معلوم ہوتی ہیں۔
شدت پسندی پر نظر رکھنے والے محقق نے مزید بتایا کہ 2023 کے آخری مہینوں اور پھر 2024 کے شروع سے ٹی ٹی پی کے حملوں میں کمی آتی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے 17 جنوری 2024 سے روزمرہ حملوں کی ذمہ داریاں قبول کرنے کا سلسلہ روک دیا تاہم اب ان حملوں کی ذمہ داریاں ایک غیر رسمی میڈیا چینل سے مبہم انداز میں روزانہ قبول کی جاتی ہیں جس میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ حملے ٹی ٹی پی ہی کر رہی ہیں مگر ان کی طرف سے رسمی ذمہ داری نہیں لی جاتی۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے ماہانہ شدت پسندانہ حملوں کی رپورٹ شائع کی جاتی ہیں اور اس کے اردو مجلات میں ہر حملہ کی مکمل تفصیل درج ہوتی ہیں جس میں حملے کی تاریخ، جائے وقوع، ہدف اور نقصانات وغیرہ کے متعلق معلومات ہوتی ہیں۔
اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو ٹی ٹی پی کے حملوں میں اگست 2023 سے بتدریج کمی آئی ہے۔ مثلاً اگست 2023 میں ٹی ٹی پی نے مجموعی طور پر 148 حملوں کا دعویٰ کیا جبکہ یہ تعداد دسمبر 2023 میں 60اور مارچ 2024 میں 65 رہی۔
Getty Imagesپُرتشدد کارروائیاں اور سکیورٹی حکام کا ردعمل
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق سال 2024 کے پہلے تین ماہ میں صوبہ بلوچستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا جبکہ خیبر پختونخوا میں 2023 کی پہلی سہ ماہی کی نسبت 2024 میں قدرے کم واقعات ہوئے۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سال 2023 میں تشدد کے 470 واقعات پیش آئے اور یہ واقعات 2013 کے بعد سب سے زیادہ بتائے جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں گذشتہ سال کے پہلے تین ماہ کی نسبت اس مرتبہ یعنی سال 2024 میں تشدد کے واقعات معمول سے ہوتے رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کے مطابق اس سال اب تک شدت پسندی کے 136 واقعات پیش آئے ہیں اور اس بارے میں سی ٹی ڈی نے جوابی کارروائیاں کی ہیں جن میں خفیہ اطلاعات پر آپریشنز بھی کیے گئے ہیں۔
سی ٹی ڈی کے مطابق محکمے نے اپنے طور پر اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ساتھ مشترکہ کارروائیاں کی ہیں جس میں 161 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان میں پانچ ایسے ملزمان ہیں جن کے سر کی قیمت بھی مقرر تھی۔
پاکستان میں دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت خطے میں کشیدگی پائی جاتی ہے، جیسے ماسکو میں حملہ اہم ہے جس میں کالعدم تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کا نام لیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بشام حملہ بھی بنیادی طور چینی شہریوں کے خلاف کارروائی تھی اور اس کے لیے بڑی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ قوتوں کی کوشش ہے کہ سی پیک کو پاکستان میں بند کیا جائے اور اس طرح کی کارروائیوں سے پاکستان اور چین کو خوفزدہ کرنا مقصود ہے۔
’تحریک جہاد پاکستان‘: ڈیرہ اسماعیل خان میں 23 فوجیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟پاکستانی طالبان کی نمائندگی کرنے والا ’عمر میڈیا‘ کیسے کام کرتا ہے اور اسے کون چلاتا ہے؟افغانستان میں پاکستانی کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ، جو ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور ہواپاکستان میں شدت پسند تنظیموں کی نئی حکمت عملی کتنی خطرناک ہے اور کیا طالبان سے ’دوبارہ مذاکرات‘ میں مولانا فضل الرحمان کی ممکنہ موجودگی مسئلے کو حل کر پائے گی؟گوادر پورٹ اتھارٹی کے دفتر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مجید بریگیڈ کیا ہے؟