رمضان میں افطار دسترخوان کی شان سمجھے جانے والے پکوڑے کیا برصغیر سے مشہور ہوئے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 08, 2024

Getty Imagesپکوڑے

پکوڑے اور مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان گویا ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔

انڈیا اور پاکستان میں شاید ہی کوئی مسلم خاندان ایسا ہو گا جن کے افطار دسترخوان پر پکوڑے نہ پیش کیے جاتے ہوں۔

افطار کا وقت اور شام کی چائے کا وقت ایک جیسا ہوتا ہے۔

شام کو ہر متوسط خاندان میں چائے کے ساتھ پکوڑے بنائے جاتے ہیں۔ لیکن پکوڑوں کی تاریخ کتنی پرانی ہے اس کے بارے میں مختلف دعوے ہیں۔

عوامی طور پر دستیاب معلومات کے مطابق پکوڑے 1025 عیسوی سے کسی نہ کسی شکل میں بنائے جاتے رہے ہیں۔

اس کا ذکر ہمیں سب سے پہلے سنسکرت اور تمل سنگم ادب میں ملتا ہے۔ لیکن اس کی زیادہ تفصیل سے وضاحت نہیں کی گئی ہے، سوائے اس کے کہ ایک کیک کی شکل کا کھانا ہوا کرتا تھا۔

Getty Imagesپکوڑے کے ٹھیلےپکوڑے کیسے شروع ہوئے؟

شروع میں دالوں کو پیس کر سبزیوں میں ملا کر کیک جیسا مادہ بنایا جاتا تھا جسے تل کر کھایا جاتا تھا۔ لوگ اسے پکاواوتا کہتے تھے، یعنی پکا ہوا گلگلہ یا ٹکیہ (کنوٹ)۔

اسے کئی جگہوں پر بھجیا بھی کہا جاتا ہے۔

سنہ 1130 میں لکھی جانے والی کھانے کی تاریخی کتاب مانسولاس اور 1025 میں لکھی جانے والی کتاب لوکپاکارا میں اس کا ذکر ہے کہ بھجیا یا پکوڑے بنانے کے لیے سبزیوں کو چنے کے آٹے میں ملا کر تلا جاتا تھا اور اسے اکثر مچھلی کی شکل کے سانچے میں تلا جاتا تھا۔

بیسن یا چنے کے آٹے میں آلو، پالک، پیاز، ہری مرچ کے ساتھ خشک مصالحے کے ساتھ ملا کر پکوڑے بنائے جاتے ہیں اوراس کے آٹے میں سوجی اور چاول کا آٹا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

کئی جگہوں پر اس کا ذکر بھی آیا ہے کہ پکوڑے یا بھجیا کا مخصوص علاقوں کے ساتھ روپ بدل جاتا ہے۔

Getty Imagesپکوڑے بیرون ملک کیسے پہنچے؟

بعض دستاویزات میں یہ مذکور ہے کہ 16ویں صدی میں جب پرتگالی سمندر کے راستے ہندوستانی ساحلوں پر آتے تھے تو وہ ایسے کھانوں کی تلاش میں رہتے تھے جو زیادہ دنوں تک خراب نہ ہوں۔

پرتگالی اپنے سفر کے دوران عام طور پر ہندوستانی باورچیوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے جو انھیں بیسن میں مصالحوں کے ساتھ تلی ہوئی سبزیاں جیسے آلو، پیاز، بیگن، ہری مرچ وغیرہ کے پکوڑے کھلاتے تھے۔

تلنے کے بعد اگر کھانے کی نمی دور ہو جائے تو یہ زیادہ دنوں تک خراب نہیں ہوتے۔

پرتگالیوں کی وجہ سے ہی پکوڑے جاپان تک پہنچے۔ چونکہ جاپان میں چنا نہیں اگایا جاتا تھا اس لیے وہاں کے لوگوں نے سبزیوں اور خشک مصالحوں کے ساتھ چنے کے آٹے کے بجائے گندم کا آٹا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح جاپانی ٹیمپورا پیدا ہوا۔

آج بھی انڈیا اور پاکستان میں یہ رجحان ہے کہ لوگ سفر کے دوران اپنے ساتھ چٹپٹے پکوڑے، بھجیا یا بوندی رکھتے ہیں اور یہ سٹیشنوں پر بھی دکانوں میں اور خوانچہ فروش کی جانب سے فروخت کیے جاتے ہیں۔

ہندوستانی پکوڑے جاپانی اور برطانوی پکوڑے فریٹرس اور بحیرہ روم کے ممالک کے فلافل یہ سب ایک دوسرے کے کزن لگتے ہیں۔

پکوڑوں کا مواد چنے کے آٹے سے بنایا جاتا ہے، فریٹرس کے لیے میدے کے گھول کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ فلافل کے لیے بیٹر ابلے ہوئے چنے کو پیس کر تیار کیا جاتا ہے۔

پانچ مختلف ممالک کی پانچ لذیذ افطاریاںانگریزوں نے چین سے چائے کا راز کیسے چرایا؟رمضان میں کیا کھائیں اور کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے؟رمضان میں افطار کے وقت پکوڑوں کا چلن کیوں بڑھ گیا؟

انڈیا میں کھانے پینے کے مؤرخ پشپیش پنت پکوڑوں کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہیں: ’پکوڑوں کی تاریخ کھانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی بلکہ پکوانوں یعنی تلے ہوئے کھانوں کی تاریخ میں ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو گی کہ چونکہ یہ تلی ہوئی ہے اس لیے یہ جلدی خراب نہیں ہو گی، چونکہ یہ چنے کے آٹے سے بنی ہے، یہ غذائیت سے بھرپور بھی ہے اور آپ اپنی پسندیدہ سبزیوں اور چٹنیوں کے ساتھ اس کا مزہ لے سکتے ہیں۔'

اگر دیکھا جائے تو روزے کھولنے یا افطاری کے وقت ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم اپنے پسندیدہ مصالحہ دار اور میٹھے پکوان کھائیں۔

پکوڑا ایک ایسی ڈش ہے جو امیر و غریب ہر ایک کو آسانی سے دستیاب ہے۔ اس کی تیاری کے تمام اجزا باورچی خانے میں آسانی سے دستیاب ہیں۔

پکوڑے ہندوستان اور پاکستان میں بہت مقبول ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک کے موسم کے لیے موزوں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہت زیادہ تنوع آیا ہے اور اس کی بہت سی اقسام ملتی ہیں۔

نہ صرف آلو اور پیاز بلکہ کمل ککڑی اور مچھلی کو بھی چنے کے آٹے میں لپیٹ کر پکوڑے بنائے جاتے ہیں۔

پشپیش پنت کہتے ہیں کہ ’مسلمانوں کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ صرف گوشت کھاتے ہیں، لیکن ان کے افطار کا دسترخوان اس بات کو غلط ثابت کرتا ہے۔ کیونکہ رمضان کے دوران آپ کو ان کے دسترخوان پر آلو چاٹ اور چاٹ پکوڑے ملتے ہیں۔ اور آلو پیاز کے پکوڑے بھی ملتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ مصالحہ دار ذائقہ دیتا ہے اور دوسری طرف یہ روزہ داروں کے جسم میں سوڈیم اور پروٹین کی مقدار کو بھی برقرار رکھتا ہے۔‘

پاکستانی پکوڑے

پاکستان کی مشہور شیف زبیدہ آپا نہیں رہیں لیکن ان کے ٹرکس اور کھانے کی ترکیبیں آج بھی ہزاروں خواتین اپنے کچن میں استعمال کرتی ہیں۔

ان کی بیٹی شاشا جمشید بتاتی ہیں کہ ’اماں پکوڑوں میں میٹھا سوڈا استعمال کرتی تھیں، جس کی وجہ سے پکوڑے نرم اور ہلکے رہتے تھے۔ رمضان کا مہینہ ہو یا بارش کا موسم چائے اور پکوڑوں پر گپ شپ بھی کی جا سکتی ہے اور افطار بھی کیا جا سکتا ہے۔‘

پاکستان میں رمضان کے مہینے میں ہر مٹھائی کی دکان پر پکوڑے اور جلیبیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ آلو پکوڑا کئی دہائیوں سے لوگوں کی پسند میں سرفہرست ہے۔ تاہم اس میں ہر شہر کا اپنا رنگ بھی شامل ہوتا ہے۔

پشاور میں قیمہ یا چکن پکوڑے بھی دستیاب ہیں، اسی طرح کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھی آپ کو چکن اور سی فوڈ والے پکوڑے ملیں گے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی شیف عائشہ علی بٹ کہتی ہیں: 'چنے کے آٹے کا ذائقہ ہی الگ ہے، لیکن دیگر ممالک میں پکوڑے گندم کے آٹے اور چاول کے آٹے کے آمیزے سے بنائے جاتے ہیں۔'

پشپیش پنت کہتے ہیں: ’برا ہو ان لوگوں کا جنھوں نے تقسیم کے ذریعے انڈیا اور پاکستان بنا دیا۔ آسام سے لے کر پنجاب اور سندھ تک، کیرالہ سے لے کر کشمیر تک جہاں بھی مسلمان تھے، ہر جگہ پکوڑے بھی تھے۔

'اڑیسہ میں پیازی ہوتی ہے جو پیاز سے بنائی جاتی ہے، جبکہ بنگال میں آلو اور پیاز کو ملا کر بیگونی بنائی جاتی ہے، جنوبی ہندوستان میں بھجیا سبزیوں کو باریک کاٹ کر بنائی جاتی ہے۔ بہار میں پیازو مونگ پیس کر بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں ابلی ہوئی کمل ککڑی کے پکوڑوں کو نادر مونجی کہا جاتا ہے۔

برطانیہ میں انڈیا اور پاکستان کے لوگوں کی بڑی تعداد ہے، اس لیے برطانیہ میں بھی پکوڑے بہت مشہور ہیں۔

لندن میں جب بھی بارش ہوتی بی بی سی اردو سروس کے سینیئر ساتھی رضا علی عابدی صاب وسطی لندن کی ڈرمنڈ سٹریٹ سے ملے جلے پکوڑے اور جلیبیاں لاتے تھے۔

پاکستانی اور انڈین دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں رمضان ہو یا بارش کا موسم وہ بغیر پکوڑے کے نہیں ہوتے۔

فائر پان، اوریو پکوڑے اور شرابی گول گپے: سوشل میڈیا نے روایتی انڈین سٹریٹ فوڈ کو کیسے تبدیل کر دیا ’آپ گریجویٹس کو پکوڑے تلنے کو کیوں کہہ رہے ہیں؟‘روزہ دار پکوڑے نہ کھائیں، سکنجبین پیئیں!پانچ مختلف ممالک کی پانچ لذیذ افطاریاں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More