BBC
پاکستان میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات دو اپریل کو ہو رہے ہیں اور اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے نامزد امیدواروں کی فہرست جاری کر دی ہے جس کے بعد سے کچھ ناموں پر مختلف وجوہات کی بنا پر سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
ان ناموں میں جہاں ایک جانب نئی حکومت کے وزیر داخلہ اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی ہیں تو وہیں پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما فیصل واوڈا، اور سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ ہیں۔
واضح رہے کہ سینیٹ کی 48 خالی نشستوں میں سے 18 پر امیدوار بلامقابلہ منتخب کر لیے گئے جبکہ باقی 30 نشستوں پر انتخاب دو اپریل کو ہو گا۔ ان میں پنجاب کی سات جنرل نشستوں، بلوچستان کی سات جنرل نشستوں، دو خواتین اور دو ٹیکنوکریٹ اور علما کی نشستیں شامل ہیں۔
پنجاب سے سینیٹ کی سات جنرل نشستوں پر 12 امیدواروں میں سے پانچ کی جانب سے کاغذات واپس لیے جانے کے بعد محسن نقوی، احد چیمہ، پرویز رشید، ناصر محمود اور طلال چوہدری، پرویز رشید، ناصر بٹ، احد چیمہ، سنی اتحاد کونسل کےزلفی بخاریاور حامد خان بھی شامل ہیں۔
سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ایمل ولی خان سمیت بلوچستان میں سینیٹ کی تمام 11 خالی نشستوں پر امیدواروں کا بلامقابلہ انتخاب ہو گیا ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں کے اتفاق رائے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو تین، تین، جمعیت علما اسلام کو دو نشستیں مل گئیں۔ نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایک سینیٹر منتخب ہوا۔
جبکہ خیبر پختونخوا کی 11 نشستوں پر سینیٹ الیکشن خطرات سے دوچار ہے، خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان سے حلف نہ لینے پر بدستور بضد ہے۔
الیکشن کمیشن پہلے ہی تنبیہ کر چکا ہے کہ اگر ارکان کو حلف نہ دلوایا گیا تو کمیشن خیبر پختونخوا کی حد تک سینیٹ الیکشن ملتوی کرنے پر مجبور ہو گا، صوبائی حکومت اس معاملے پر پیر کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
اہم آزاد امیدوار کون ہیں؟
اس بار ایسے آزاد امیداروں کے نام سامنے آئے ہیں جو حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں ان میں محسن نقوی، انوار الحق کاکڑ، فیصل واوڈا، احد چیمہ جیسے نام شامل ہیں۔
اگر محسن نقوی کی بات کی جائے تو ایسا لگتا ہے انھیں بظاہر پنجاب کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے کیونکہ جب وہ کاغذات نامزدگی کے لیے صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب کے دفتر میں آئے تو ان کے تائید و تجویز کنندہ میں مسلم لیگ (ن) کے خواجہ عمران نذیر، پیپلز پارٹی کے سید علی حیدر گیلانی، مسلم لیگ (ق) کے چودھری شافع حسین اور استحکام پاکستان پارٹی کے غضنفر عباس چھینہ شامل تھے۔
اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی فیصل واوڈا ایک بار پھر خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی آزاد حیثیت میں سینیٹ کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔
کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد انھوں نے پاکستان کے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کل آزاد کا سیزن چل رہا ہے تو انھوں نے بھی آزاد حیثیت سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل جب فیصل واوڈا کی آصف زرداری سے اچانک ملاقات کی تصویر منظر عام پر آئی تھی تو اس وقت فیصل واوڈا نے بتایا تھا کہ یہ ایک معمول کی ملاقات تھی، جس میں آصف علی زرداری کی خیریت دریافت کی گئی تاہم اس وقت پاکستان کے مقامی میڈیا میں یہ خبریں دی تھیں کہ مذکورہ ملاقات سینیٹ کی نشست کے حصول کے ضمن میں ہی کی گئی تھی۔
سیاسی جوڑ توڑ کی اس تصویر کا حیران کن پہلو ایم کیو ایم پاکستان ہے کیونکہ فیصل واوڈا کے تجویز اور تائید کنندگان ایم کیو ایم پاکستان کے اراکین سندھ اسمبلی علی خورشیدی اور عادل عسکری ہیں، جس سے ایم کیو ایم کی فیصل واوڈا کو سینیٹر بنانے میں دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کیا سیاسی جماعتیں ان امیداروں کی حمایت کسی دباؤ پر کر رہی ہے؟
مسلم لیگ ن کی رہنما اعظمی بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان امیدواروں کی حمایت کرنے کے کوئی محرکات نہیں ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی دباؤ ہے۔
اعظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ، خواتین، اقلیت کی بنیاد پر بھی سیٹیں ہوتی ہیں اور محسن نقوی ہوں، انوارالحق کاکڑ ہوں یا کوئی اور ان سب نے ماضی میں پرفارم کیا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیا ہے۔ ایسے میں اگر مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ ان کو سینیٹ میں پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ‘
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان سینیٹ کے امیدواروں کو ’لاڈلہ‘ کہنے والے تو خود ہی بطور لاڈلے آئے تھے۔ انھوں نے پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ میں ان سے زیادہ لاڈلہ تو کوئی نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لوگ ہمیں نہ بتائیں کہ حکومت کیسے چلنی اور بنانی ہے۔ اگر مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ محسن نقوی وزارت داخلہ میں بہتر طور پر خدمات انجام دے سکتے ہیں تو کسی کے پاس اعتراض کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
تاہم پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اس حوالے سے بی بی سی کی جانب سے متعدد بار رابطہ کرنے پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
تاہم متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے دو اپریل کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں آزاد امیدوار فیصل واوڈا کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دو اپریل کو ہونے والے سینیٹ انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ جمع کرانے اور دستبردار ہونے کے معاملے پر ایم کیو ایم پاکستان نے مختلف آپشنز پر غور کے بعد ایم کیو ایم کی ایڈہاک کمیٹی نے سینیٹ انتخابات کے لیے سندھ کیجنرل نشست پر عامر چشتی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ جبکہ فیصل واڈا کی بطور آزاد امیدوار حمایت کا اعلان کیا۔
الیکشن کمیشن سندھ کے باہر رہنما ایم کیو ایم شبیر قائم خانی کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا پارٹی پر باہر سے کوئی مسلط نہیں ہوتا، سب کی قربانیاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا پارٹی نے ہمیں کہا کاغذات واپس لے لیں، پارٹی کا یہ فیصلہ درست ہے، بہتر نتائج مرتب ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں شبیر قائم خانی کا کہنا تھا فیصل واوڈا منتخب ہو کر پارٹی میں شامل ہوں یا نہیں یہ بعد میں معلوم ہو گا، فیصل واوڈا سینیٹر منتخب ہونے کے بعد پارٹی کے کہیں نا کہیں کام آئیں گے۔
جبکہ انوار الحق کاکڑ بھی رواں ہفتے بلوچستان سے بلا مقابلہ سینیٹر منتخب ہونے والے واحد سینیٹر ہیں۔
تقسیم کی شکار سیاست: پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ’ایک حقیقت‘ ہے تو سیاستدان اس معاملے پر ایک پیج پر کیوں نہیں آتے؟موروثی سیاست: پاکستان کی سیاست پر چند خاندانوں ہی کا راج کیوں ہے؟کیا سیاسی جماعتوں کی انا پاکستان کو تقسیم کر رہی ہے؟حکومت اور سیاسی جماعتیں آزاد امیدواروں کی حمایت کیوں کر رہی ہیں؟
سیاسی تجزیہ کار اور صحافی سلمان غنی کا کہنا ہے کہ حالیہ ماضی میں پاکستانی سیاست پر نظر دوڑائیں تو نو مئی کے واقعے کے بعد نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کمزور ہوئی ہے بلکہ اس کے اثرات پاکستان کی سیاسی قیادت اور جماعتوں پر بھی پڑے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد پاکستان کی سیاسی و جمہوری قوتیں دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سابق نگران دور بھی سیاسی جماعتوں کے منشا و مرضی کے مطابق نہیں تھا۔
سلمان غنی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی ایک سیاسی حیثیت و اہمیت ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قوتیں توقعات کے مطابق ڈیلیور نہیں کر پائی ہیں۔
’جب جب کسی ملک کی سیاسی قوتیں کمزور پڑتی ہیں تو پھر وہاں کی اسٹیبلشمنٹ یہ خلا پرُ کرتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان سینیٹ انتخابات میں کئی حوالوں سے اہم ہیں کیونکہیہ ایک بحران کا شکار ہیں جہاں دو اپریل کو انتخاب ہونا ہے مگر خیبر پختونخوا میں اب تک تمام ارکان کی حلف برداری ہی نہیں ہوئی اور پی ٹی آئی الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جو کچھ آزاد امیدواروں کو تمام جماعتوں کی مشترکہ حمایت حاصل ہے اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ موجودہ حکومت نگران حکومت کا تسلسل ہی ہے، اس لیے کیونکہ پاکستان کے سیاستدانوں کی ناچاقی کی وجہ سے مقتدرہ بالادست ہو گئی ہے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ سیاسی طور پر اسٹیبلمشمنٹ کا کردار تو کوئی نہیں لیکن ملکی معاشی بحران کے لیے پاکستان کی فوج کے سپہ سالار نے دوست ممالک سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایک کردار ادا کیا ہے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ جب وہ اس معاملے میں ان کا کردار نظر آتا ہے تو یقیناً بڑے فیصلوں پر بھی ان کا کردار ہوگا اور جن افراد کو سینیٹ کے بلا مقابلہ رکن منتخب کیا جا رہا ہے ان کو ان حلقوں کی تائید حاصل ہے۔
تجزیہ نگار و صحافی ماجد نظامی کا اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گذشتہ دس برس کے دوران پاکستان کی سیاست میں ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ پہلے غیر منتخب افراد پس پردہ رہ کر حکومتی معاملات چلاتے تھے لیکن اب ان برسوں کے دوران کئی پس پردہ کردار سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسی تناظر میں اگر سینیٹ کے الیکشن کو دیکھیں تو پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی فروغ نسیم کے بارے میں بھی ایم کیو ایم سے سننے کو ملتا تھا کہ یہ ہمارے نہیں بلکہ کسی اور کے کوٹے پر وزیر بنے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اب یہ سلسلہ مزید آگے بڑھ چکا ہے اور محسن نقوی ہوں، فیصل واوڈا ہوں یا انوار الحق کاکڑ ہو یہ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ حکومت کو پیغامات دیتی تھی اب انھوں نے اپنے لوگوں کو ہی ایڈجسٹ کروانا شروع کر دیا ہے۔
ماجد نظامی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی ان امیدواروں کی حمایت کرنے کی مجبوری اس لیے ہے کہ وہ جان چکی ہیں کہ اگر سرکار دربار یا حکومت میں رہنا ہے تو اسٹیبلشمنٹ سے بنا کر رکھنی ہے اور گذشتہ دس برسوں میں سب بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ جو جو کچھ ہوا اس پر انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہاسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنائے بغیر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔
سینیٹ میں آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟
ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ ’سینیٹ میں بطور آزاد امیدوار یا تو فاٹا سے کامیاب ہوتے تھے یا بلوچستان سے اور اس میں پیسہ اور اثر رسوخ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پ’نجاب میں ماضی میں بطور آزاد امیدوار کامیاب ہونے کی ایک جمہوری مثال محسن لغاری کی ہے جو اس وقت ایم پی اے تھے اور ان کے ذاتی تعلقات سب ارکان کے ساتھ بہت اچھے تھے۔ انھوں نے تمام ارکان سے انھیں دوسری ترجیح پر ووٹ دینے پر آمادہ کیا تھا جس کے باعث وہ ایک جمہوری عمل کے تحت سینیٹ تک پہنچے تھے۔‘
کیا سینیٹ میں پیسہ اور انفلوئنس درکار ہوتا ہے؟
سنہ 2015 میں بطور آزاد امیدوار فاٹا نشست پر سینیٹ کا الیکشن جیتنے والے ساجد حسین طوری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ سینیٹ کے الیکشن میں آزاد امیدوار کو پیسے اور اثر رسوخ دونوں کا بے تحاشہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’سینیٹ کے الیکشن پر اگرچہ کوئی نہیں بتاتا کہ اس نے کتنا خرچ کیا لیکن یہ بات اربوں روپے تک چلی جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے فاٹا سے سینیٹ یا رکن قومی اسمبلی بننے کا اپنا ایک مختص کوٹہ تھا اور اسے کے تحت الیکشن لڑنا کچھ آسان تھا کیونکہ آپ کو صرف 11-12 ایم این ایز کو مینیج کرنا ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ معاملہ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سینیٹ کے آزاد رکن کو پنجاب، کے پی، سندھ یا بلوچستان سے آنے والے امیدواروں کو اپنے لیے ووٹ خریدنے پڑتے ہیں مگر اس کو آن ریکارڈ کوئی تسلیم نہیں کرتا۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اگر تمام سیاسی جماعتیں کسی ایک امیدوار کی غیر مشروط طور پر حمایت کرتی ہے تو اس مطلب ہے کہ اس کے پیچھے کوئی پس پردہ طاقت ہے جو ان تمام سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کرتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’اس کا واضح مطلب ہے کہ یا تو اس کے پیچھے کوئی طاقتور حلقہ ہے یا اس کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ سب کو مینیج کر سکتا ہے۔ ‘
بلوچستان سے سینیٹ کی تمام نشستوں پرامیدوار بلا مقابلہ منتخب: وجہ اعتماد کا فقدان یا اتفاق رائے؟الیکشن التوا پر سینیٹ کی قرارداد: ’کچھ قوتیں پاکستان میں انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا چاہتی ہیں‘