’پاکستان کا ذکر، نہ دہشتگردی پر بات‘: معاشی ترقی کے وعدوں سے مودی کشمیریوں کے دل جیت پائیں گے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 08, 2024

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ انڈین مرکز کے زیر انتطام جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد یہ خطہ ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔

سرینگر کے بخشی سٹیڈیم میں جمعرات کو ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں نے آرٹیکل 370 کے بارے میں عوام کو گمراہ کر رکھا تھا۔

انھوں نے مقامی سیاسی جماعتوں کو ہدف بناتے ہوئے کہا کہ ’پریوار وادی جماعتوں نے کشمیر کی عوام کو عشروں تک ان کے حقوق سے محروم رکھا تھا۔ اب عوام یہ جان چکے ہیں کہ انھیں گمراہ کیا گیا تھا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد آج يہاں سب کو مساوی حقوق اور عزت حاصل ہے۔‘

وزیراعظم نریندر مودی اگست 2019 میں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آرٹیکل 370 ختم کیے جانے کے بعد مرکز کے زیر انتظام علاقے کے کشمیر خطے کے دورے پر پہلی بار آئے ہیں۔

اس موقع پر انھوں نے خطے کے لیے تقریباً ساڑھے چھ ہزار کروڑ کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا اور ایک ہزار سے زیادہ نوجوانوں کو مقامی حکومت میں تقرری کے کاغذات تقسیم کیے۔

نریندر مودی کا کشمیر کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب حکمراں بی جے پی کئی برس سے وادی میں اپنا سیاسی قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے اور آئندہ مہینے پارلیمانی انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔

کشمیر کے سیاسی تجزیہ کار پیرزادہ عاشق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے عوام بھی دوسری ریاستوں کی طرح یہی چاہتے ہیں کہ یہاں بھی ترقی ہو، ملازمت کے مواقع بڑھیں۔ یہاں گذشتہ برس کئی مہینے تک بے روزگاری کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ تھی۔

وزیراعظم مودی کی تقریر میں ان پہلوؤں پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جہاں معیشت ایک حقیقت ہے، وہیں سیاست بھی ایک حقیقت ہے۔

ان کے مطابق کشمیر کی سیاست اور یہاںکےعوام کے جذبات کے بارے میں وزیر اعظم نے کوئی خاص ذکر نہیں کیا۔ پیرزادہ عاشق کے مطابق ’انھوں نے نہ خطے کو دوبارہ ریاست بنانے کا کوئی ذکر کیا۔ نہ انھوں نے اسمبلی انتخابات کے بارے میں کوئی بات کی، نہ انھوں نے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے پہلے کی حیثیت بحال کرنے کے مقامی سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر کچھ کہا۔‘

’انھوں نے اپنی تقریر میں نہدہشت گردی کی بات کی، نہ پاکستان کا کوئی ذکر کیا۔ اور نہ ہی انھوں نے جو سیاسی جذبات ہیں ان کا کوئی ذکر کیا۔ ان کا سارا فوکس ترقی اور معیشت بالخصوص آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد مرکز کے ذریعے کئے گئے مختلف اقدامات پر مرکوز تھا۔‘

Getty Images

پیرزادہ عاشق نے کہا کہ ’دوسری جگہوں کی طرح یہاں بھی لوگوں کی یہی خواہش ہے کہ جموں و کشمیر ترقی کرے اور یہاں خوشحالی آئے۔ وزیر اعظم کی جانب سے سیاحت اور زراعت کے شعبوں کو فروغ دینے کی نئی سکیمیں شروع کرنے کے اعلان سے لوگ یقیناً خوش ہوئے ہوں گے۔

لیکن بہت سے نوجوان قید میں ہیں، نوجوانوں کے خلاف جس طرح پبلک سیفٹی ایکٹ یا انسداد دہشت گردی ایکٹ کا استعمال کیا جاتا ہے یا انھیں بند کیا جاتا ہے۔ ان پہلوؤں پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ یا جو جیلوں میں بند ہیں انھیں حکومت کس طرح مین سٹریم میں لانے کا پلان کر رہی ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔

ان کے مطابق ’علیحدگی پسند ی کے جو بھی جذبات ہیں ان کا سد باب کیا ہو یہ سب ان کی تقریرمیں نہیں تھا۔ وزیراعظم کی ساری توجہ معاشی ترقی پر مرکوز تھی۔‘

راہل پنڈتا ایک کشمیری تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وزیر اعظم کی یہ ریلی اس لحاظ سے کامیاب رہی کہ ماضی میں بی جے پی نے فوج یا انتظامیہ کی مدد سے جب بھی کوئی عوامی جلسہ کرنے کی کوشش کی تو اس میں بہت کم لوگ شریک ہوئے ہیں۔

’یہ پہلا موقع تھا جب کشمیر کی وادی میں بڑی تعداد میں لوگ اس ریلی میں کھل کر شریک ہوئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کشمیر وادی میں بی جے پی کا ’کیڈر‘ کھڑا ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے۔‘

BBC

راہل کہتے ہیں کہ ’مودی جو بھی کرتے ہیں وہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے۔ انھوں اس ریلی کے ذریعے ایک نفسیاتی ایجنڈا طے کیا کہ وہ پرانے زخموں کی بات نہیں کریں گے، ملیٹینسی کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے صرف ترقی کے بارے میں بات کریں گے۔

’اس طرح انھوں نے معیشت اورترقی کا ایک بیانیہ آگے لا کھڑا کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے سخت گیر ہندتوا کے حامیوں کو بھی مایوس نہیں کیا، سب سے پہلی تصویر انھوں نے سری نگر کے بادامی باغ میں واقع ملٹری ہیلی پیڈ سے پہاڑ کی چوٹی پر دکھائی دینے والے شنکر اچاریہ کے مندر کی طرف نمستے کرتے ہوئے پوسٹ کی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان کی تقریر بہت سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھی۔ انھوں نے اس کے ذریعے کشمیر کے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ پرانی باتوں کو بھول کر مستقبل کی طرف دیکھیں اور انھوں نے یہ پیغام دیا کہ بی جے پی ان کے لیے ترقی اور خوشحالی کا ایجنڈا لے کر آئی ہے۔‘

سنجے ٹیکو ان کشمیری پنڈتوں میں سے ہیں جن کے خاندان نے ہر طرح کے مشکل حالات کے باوجود کشمیر نہیں چھوڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ چار پانچ برس میں یہاں انفراسٹرکچر کے شعبے میں کافی کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ پہلے بھی ہوتا تھا لیکن اب تیزی سے ہو رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ڈیجیٹلائزیشن سے کاروبار شروع کرنے میں نوجوانوں کو بہت آسانی ہو گئی ہے۔

’گذشتہ چار پانچ برسوں میں یہاں تبدیلی آئی ہے۔ لیکن یہ تبدیلی لوگوں کے ذہن میں آئی ہے یا نہیں وہ سب سے بڑا سوال ہے۔‘

کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ برقرار، پاکستان نے انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیاسرینگر میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے مہاجرین اور کشمیری پنڈتوں کی نمائندگی بڑھانے کا مطلب کیا ہے؟آرٹیکل 370 کے خاتمے پر انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ: ’کیس تو ہم ہار گئے، لیکن ہم پھر لڑیں گے‘Getty Images

سنجے کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کہ وزیر اعظم کے اس دورے اور ان کی تقریر کا یہاں کے سیاسی منظر نامے پر کوئی اثر پڑے گا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ ذہنی طور پر بی جے پی کے ساتھ نہیں ہیں۔

’دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ جب پارلیمانی انتخابات ہوں گے تو وادی کی تین سیٹوں پر بی جے پی کو کتنے فیصد ووٹ ملتے ہیں اس سے ان کی قبولیت کی سطح کا اندازہ ہو سکے گا۔‘

سنجے ٹیکو کہتے ہیں کہ ’بی جے پی کی دس برس کی حکومت میںکشمیری پنڈتوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ مودی ہے تو ممکن ہے، مودی کا پریوار ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے لیے حالات ویسے ہی ہیں جیسے نوے کے عشرے میں تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے ’اوپن گن‘ تھی اب ’ہِڈن گن‘ ہے۔ وزیر اعظم کے دورے سے پہلے کشمیری پنڈتوں سے کہا گیا کہ وہ دو تین دن گھر سے باہر جانے سے گریز کریں تو ہمارے لیے تو حالات ویسے ہی ہیں، جن کو بی جے کی حکومت کی پالیسیوں سے فائدہ ہوا ہے وہ تو کہیں گے کہ حالات اچھے ہیں۔‘

وزیر اعظم کے دورے کے وقت سری نگر میں غیر معمولی سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے۔ ایک صحافی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بی جے پی یہاں جس طرح کی قبولیت کی توقع کر رہی تھی ویسی کامیابی انھیں نہیں مل سکی ہے۔

ان کے مطابق پارلیمانی انتخبات ہونے والے ہیں۔ یہ دورہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ تھا۔ اس سے زیادہ اس میں کچھ نہیں ہے۔

صحافی کے مطابق یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ کہ اگر کوئی صحافی حکومت یا اس کی کسی پالیسی پر تنقید کر دے تو اسے جیل ہو جائے گی۔

ان کے مطابق یہاں خیالات کے اظہار کی آزای نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے ابھی رام مندر بنایا ہوا ہے۔

صحافی کا کہنا تھا کہ اب گیان واپی مسجد کا مسلہ شروع ہو گیا ہے۔ متھرا کی عبادت گاہ کا تنازع شروع ہو گیا ہے۔عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہ گئی ہے۔

ان کے مطابق ’اس کے برعکس وزیر اعظم نے یہاں حضرت بل درگاہ کے لیے امداد دی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑے گا؟ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ سنہ 2019 کے بعد کشمیری اپنے سیاسی خیالات کا اظہار نہیں کر پا رہے ہیں۔‘

خیال رہے کہ سنہ 2019 میں فعہ 370 ختم کیے جانے کے بعد جموں و کشمیر ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور دونوں حصوں کو مرکز کے زیر انتظام لے لیا گیا تھا۔

اس وقت سے یہاں انتخبات نہیں کرائے گئے ہیں۔ بی جے پی نے جموں میں اپنا اثر ورسوخ کافی بڑھا لیا ہے لیکن کشمیروادی میں جہاں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے اسے اپنے قدم جمانے میں وہ کامیابی نہ مل سکی جس کی وہ توقع کر رہی تھی ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اب وادی میں ’پراکسی‘ رہنماؤں کی توسط سے سیاست کا روایتی توازن بدلنے کی کوشش کررہی ہے۔

’مدینہ ثانی‘: کشمیر میں مسلح شورش اور سیاست کا مرکز حضرت بل کی درگاہ جسے مودی کی توجہ حاصل ہوئیغداری کے الزام میں انڈین جیل میں قید عُمر خالد: ’یہاں زمین تنقیدی آوازوں کے لیے تیزی سے سکڑ رہی ہے‘’آپ کی کھڑکی سے میرا صحن نظر آتا ہے۔۔۔‘ وہ شہری جسے اپنے گھر کی کھڑکی کھولنے کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑاانڈین فوج کی حراست میں شہریوں کی ہلاکت: راجوری پونچھ میں 20 سال بعد بھڑکنے والا تشدد مبینہ دراندازی ہے یا مقامی برادریوں کی خلش
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More