افغان تاجر پاکستان سے ’روٹھ‘ کر ایران اور وسطیٰ ایشیا کے متبادل تجارتی راستے کیوں اپنا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 07, 2024

Getty Images

افغانستان میں طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد سے پاکستان کے ساتھ کشیدہ سیاسی صورتحال کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا شعبہ بھی متاثر ہوئی ہے جس کے بعد افغان تاجر تجارت کے لیے ایران اور وسطی ایشیا کے متبادل راستوں کا رُخ کر رہے ہیں۔

افغان تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے عائد پابندیوں، افغانستان کے ساتھ اس ملک کی سرحدی گزرگاہوں کی وقفوں میں بندش اور راہداری ٹیکس میں اضافے کے بعد انھوں نے یہ متبادل راستے اپنائے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں افغانستان پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اور کابل میں افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اُن کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دنوں میں بڑے ٹرانزٹ اور تجارتی راستے پاکستان سے ایران منتقل ہوئے ہیں۔

اُن کے مطابق افغان تاجر ایران اور وسط ایشیائی ممالک میں مزید متبادل راستوں کی تلاش میں ہیں۔

افغان صوبے قندھار سے تعلق رکھنے والے تاجر صالح الکوزی خطے میں خشک میوہ جات برآمد کرنے والے بڑے تاجروں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنا سامانِ تجارت اب پاکستان کی بجائے ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی بندرگاہوں کے ذریعے برآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’سپین بولدک، چمن کراسنگ بند ہونے کے بعد میں نے اپنا سامان ایران کے راستے برآمد کرنا شروع کیا۔ میں نے ازبکستان اور قازقستان کے راستوں سے بھی کچھ مال برآمد کیا۔ جبکہ گذشتہ دنوں میں میں نے ایران میں نمروز اور بندر عباس کے ذریعے 156 ٹن میوہ جات ازبکستان، قازقستان جبکہ چین کے ذریعے 50 ٹن پھل برآمد کیے ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ تجارت اور سکیورٹی سے متعلق پاکستان کے حالیہ اقدامات نے افغان تاجروں کو ’غریب‘ بنا دیا تھا اور افغان تاجروں کے لیے ٹرانزٹ روٹ کو تبدیل کرنا ہی بہترین آپشن تھا۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’پاکستان نے افغانستان کے ٹرانزٹ سامان کی 200 سے زائد اشیا پر 10 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا ہے۔ یہ ٹرانزٹ گڈز ہیں اور ٹرانزٹ گڈز پر ٹیکس لگانے کا کسی کو حق نہیں، ایسی چیز کی کوئی اصولی بنیاد نہیں ہے۔‘

ادھر پاکستان میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور پاک افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر فیض محمد فیضی نے بی بی سی کے عزیز اللہ خان کو بتایا کہ ’پاکستان کے حالات اور پاکستان افغانستان سرحد کی بار بار بندش سے تجارت پر منفی اثرات ضرور پڑے ہیں لیکن اب بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت جاری ہے اور روزانہ لگ بھگ سات سو سے ساڑھے سات سو کنٹینر دونوں ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کے لیے گزرتے ہیں۔‘

Getty Images

افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن خانجان الکوزی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان سے ایران تک ٹرانزٹ روٹ میں تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد نے ’تقریباً پانچ ماہ قبل‘ ایک نیا ٹیکس لگایا تھا جو افغان تاجروں کی آمد و رفت پر تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’کراچی کی بندرگاہ افغانستان کے لیے سب سے قریبی اور سستا ٹرانزٹ روٹ رہی ہے لیکن پاکستان کی طرف سے سامنے آنے والے مسائل نے افغان تاجروں کو راستے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔‘

ان کے مطابق افغان تاجروں کے سامان کے تقریباً چار ہزار کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر تاخیر کا شکار ہوئے۔

طالبان کی وزارت تجارت کے اعلیٰ اہلکار نے بھی تصدیق کرتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے ساتھ تجارت اور ٹرانزٹ کی مقدار میں کمی آئی ہے اور یہ رجحان ایران کے ذریعے بڑھ رہا ہے۔

طالبان کی وزارت تجارت نے پاکستان سے ایران کے تجارتی راستے کی بڑی تبدیلی کے اس عمل پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا، لیکن وزارت تجارت کے مطابق حال ہی میں اس کی ایران کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ہونے والی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

’کابل اور اسلام آباد کے درمیان سیاسی کشیدگی کا شکار بنے ہیں‘

افغان تاجروں کا خیال ہے کہ طالبان حکومت اور پاکستان کی سابق عبوری اور پھر نگراں حکومت کے ادوار میں پیدا ہونے والے کشیدگی کے واقعات نے تاجروں کو متبادل راستے ڈھونڈنے پر مجبور کیا اور بیشتر تاجر اب خود کو اس سیاسی کشیدگی کا ’شکار‘ سمجھتے ہیں۔

صوبہ خیبرپختونخوا میں افغانستان، پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے کوآرڈینیٹر ضیاالحق سرحدی نے بی بی سی کو بتایا کہ نہ صرف افغان تاجروں نے ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو ’تقریباً 70 فیصد‘ ٹرانزٹ منتقل کیا بلکہ پاکستان سے افغانستان کو برآمدات کی مقدار میں بھی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے دسیوں ہزار لوگ بیروزگار ہو گئے اور اس صورتحال کے باعث کچھ کارخانے یا پیداوری یونٹ بھی بند ہو گئے ہیں۔

ان کے مطابق افغان تاجر اس صورتحال سے ’بہت زیادہ متاثر‘ ہوئے ہیں جنھوں نے ماضی قریب میں کراچی میں اپنا پھنسا ہوا سامان ایران کے بندر عباس منتقل کیا اور کچھ تاجروں نے کراچی کی بندرگاہ سے بندر عباس تک اپنا سامان لے جانے والے بحری جہازوں کی منزل بھی تبدیل کر دی۔

تاہم صرف افغان تاجروں کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کو بھی اس صورتحال میں خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

ضیاالحق سرحدی کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کو سامان کی ترسیل کے علاوہ پاکستان کی ملکی مصنوعات جن میں سیمنٹ، خوراک، پھلوں کا جوس، دودھ اور درجنوں دیگر اشیا جو افغانستان بھیجی جاتی تھیں، اُن کی برآمد کا عمل بھی متاثر ہوا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان تجارت کے لیے ایک ’سنہری‘ راستہ ہے لیکن طورخم اور سپین بولدک کراسنگ کی بندش اور طورخم کے دونوں جانب تجارتی سامان سے بھرے ہزاروں ٹرکوں کے بارہا رُکنے سے تجارت میں خلل پڑا۔‘

افغانستان سے درآمد کیے جانے والے تازہ پھل اور کپاس، جو پاکستان میں کپڑے کے کارخانوں کی بنیادی ضروریات ہیں، بھی متاثر ہوئے ہیں، اور ان کے مطابق، تاجروں کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

سرحدی کا کہنا ہے کہ گذشتہ برسوں میں بھی ایسا ہوتا رہا لیکن مشترکہ چیمبر آف کامرس کی کوششوں کے بعد ’کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے تجارت اور آمدورفت‘ دوبارہ شروع ہو جاتی مگر اب کی بار صورتحال کافی مختلف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے جاری رہنے سے صوبہ خیبر پختونخوا میں معاشی بحران مزید بڑھ جائے گا، کیونکہ اس صوبے میں کاروبار اور تجارت کا ایک بڑا حصہ افغانستان کے ساتھ تجارت پر منحصر ہے۔

طالبان کا چابہار فری ٹریڈ زون میں ’نمائندہ دفتر قائم کرنے‘ کا مطالبہ

گذشتہ ہفتے طالبان کے ایک تکنیکی اقتصادی وفد نے کابل میں ایران کے خصوصی نمائندے حسن کاظمی قومی کے ساتھ مل کر ایران کے جنوب میں چابہار کی بندرگاہ میں ایک سہولت کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔

حسن کاظمی کے مطابق طالبان کی حکومت چابہار میں 35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔

ایران کے آزاد تجارتی، صنعتی اور خصوصی اقتصادی زونز کی سپریم کونسل کے صدر اور سیکریٹری کے مشیر حجت اللہ عبدالمالکی کے ساتھ ملاقات میں اس وفد نے چابہار آزاد تجارتی زون میں طالبان کی نمائندگی کے قیام کا مطالبہ کیا۔

طالبان کی وزارت تجارت کے نیوز لیٹر میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں چابہار سے ٹرانزٹ چین کے نفاذ اور تکمیل کے سلسلے میں فری زون میں طالبان کی نمائندگی کے قیام اور اس سمت میں سہولیات، چابہار میں مطلوبہ اراضی کی منتقلی، قیمت اور مدت، اس سے سامان کی ترسیل کی ترجیح، روٹ، چابہار میں افغان تاجروں اور سرمایہ کاروں کو سہولیات کی فراہمی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

طالبان کی وزارت تجارت نے کہا کہ اس دورے کا مقصد ایرانی حکام کے ساتھ ’سیستان بلوچستان میں چابہار فری پورٹ کی صلاحیتوں اور سہولیات کو استعمال کرنے اور ٹرانزٹ اور برآمدات کو بڑھانے کے بارے میں بات کرنا ہے۔‘

گذشتہ سال طالبان کے صنعت و تجارت کے وزیر نورالدین عزیزی نے ایرانی تاجروں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا تھا کہ ’ہماری ایران کے ساتھ دو ارب ڈالر کی تجارت ہے اور ہم تجارت کے اس حجم کو 10 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانا چاہتے ہیں اور یہ صلاحیت دونوں ممالک میں موجود ہے۔‘

پاکستان میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور پاک افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر فیض محمد فیضی نے بی بی سی کے عزیز اللہ خان کو بتایا کہ ’افغانستان میں طالبان کے آنے سے پہلے جب تجارت عروج پر تھی اور بینکنگ سیکٹر فعال تھا تو اس وقت روزانہ ایک ہزار سے زیادہ کنٹینر دونوں ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کے لیے سرحد عبور کرتے تھے۔‘

تاہم پاکستان کی جانب سے بعض اشیا پر ٹیکسز اور سرحد کی بندش کی وجہ سے افغان تاجر دلبرداشتہ ہوئے ہیں اور اس لیے وہ متبادل ذرائع پر غور کر رہے ہیں جس میں افغانستان کے صوبہ ہرات کے ساتھ ایران کی سرحد سے بھی تجارت کی جا رہی ہے۔

فیض محمد نے کہا کہ ’افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں شامل کچھ اشیا پر حکومت نے ٹیکسز اس لیے بڑھائے ہیں کیونکہ کچھ مقامات پر کسٹم حکام تعینات نہیں تھے اس لیے وہ کنٹینر مبینہ طور پر سرحد عبور کرنے کے بعد واپس وہ اشیا پاکستان آ جاتی تھیں جس سے یہاں تجارت کو نقصان پہنچتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تجارت دونوں ممالک کی ضروریات کے مطابق ہوتی ہے اور مقامی سطح پر قیمتوں پر بھی انحصار ہوتا ہے۔ پاکستان میں گندم اور آٹے کی قیمت میں اضافے کے بعد افغانستان شائد گندم یا آٹا ایران سے درآمد کر سکتا ہے جہاں آٹا قدرے کم نرخ پر مل جاتا ہے لیکن مُرغی، تازہ پھل اور سبزیوں کے لیے پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔‘

حالیہ دنوں میں سرحد کی بندش کی وجہ سے بڑی تعداد میں پھلوں، سبزیوں اور مُرغی کے کنٹینر کھڑے کھڑے خراب ہو گئے تھے جس سے دونوں جانب کے تاجروں کو نقصان پہنچا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ افغان تاجر اب متبادل ذرائع استعمال کر رہے ہیں یا ان کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

فیض محمد کے مطابق ’پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تجارت کو بہتر کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان افغانستان سے 20 فیصد درآمد کرتا ہے اور 80 فیصد برآمد کرتا ہے اس لیے افغانستان کو یا توموسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینا ہو گا یا ایسے ملک کا درجہ دینا ہو گا جس کے ساتھ تجارت ترجیحی بنیادوں پر ہوتی ہے تاکہ دونوں ممالک اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

بارٹر ٹریڈ کیا ہوتی ہے اور کیا روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ پاکستان کے لیے فائدہ مند ہو گی؟ افغان باشندوں کی پاکستان سے واپسی: ’کسی اور ملک نہیں جا سکتے، افغانستان میں خطرات ہیں اور یہاں اب کوئی رہنے نہیں دے گا‘پاکستان میں مقیم ہزارہ افغان: ’طالبان ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے، افغانستان میں ہو سکتا ہے موت ہمارا انتظار کر رہی ہو‘پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ’افغان ٹرانس جینڈر‘: ’میری ماں نے کہا کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More