EPA
پاکستان میں گذشتہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کے بعد شہباز شریف دوسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ اُن کے انتخاب کے بعد ملک میں عام انتخابات سے قبل پائے جانے والی سیاسی غیر یقینی کی صورتحال وقتی طور پر ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
تاہم پاکستان کے مسائل وہیں ہیں جہاں انتخابات سے قبل تھے۔ عام آدمی کو مہنگائی کا سامنا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے بڑھنے کا خدشہ ہے کیونکہ حکومت کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے۔ ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر اب بھی زیادہ بہتر حالت میں نہیں، جن کا زیادہ تر دارومدار بیرونِ ملک سے آنے والی رقوم اور قرضوں پر ہے۔
دوسری طرف پاکستان کو بڑے قرضوں کی قسطوں کی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی گذشتہ چند ماہ کے دوران خاطر خواہ ریکوری نہیں کر پائی اور بظاہر پاکستان میں معاشی بحران جوں کا توں ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف نے حلف لینے کے بعد ہی اپنی ٹیم کو آئی ایم ایف سے رابطہ کر کے نئے اقتصادی پیکج کے لیے بات چیت کرنے کے لیے ’گرین سگنل‘ دے دیا ہے۔
اقتصادی ماہرین جہاں اس کو مثبت سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں وہیں وہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں عام آدمی کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں۔
شہباز شریف ایک مرتبہ پھر اتحادی حکومت کے سربراہ بنے ہیں۔ وہ کتنے طاقتور وزیراعظم ہوں گے اور کتنے مشکل فیصلے لے پائیں گے؟ اس حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال برقرار ہے۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے نمائندے عددی اعتبار سے ایک مضبوط حزب اختلاف کے طور پر پارلیمان کے اندر بھی موجود ہیں اور حکومت کی ایک بڑی مخالف جماعت کے طور پر سڑکوں پر بھی احتجاج جاری رکھنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
ان کا بیانیہ یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں ان کا ’مینڈیٹ چوری ہوا ہے جو انھیں واپس ملنا چاہیے۔‘ ایسے حالات میں آنے والی شہباز شریف کی حکومت کو کئی مشکلات کا سامنا ہو گا۔
یہاں ہم پانچ ایسے بڑے چیلنجز پر نظر ڈالتے ہیں جو شہباز حکومت کو درپیش ہوں گے۔
1۔ معاشی بحران اور آئی ایم ایف
اسلام آباد میں مقیم ماہرِ اقتصادیات ڈاکر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ معاشی اعتبار سے شہباز حکومت کو بنیادی طور پر تین قسم کے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔
ان کے خیال میں حکومت کو درپیش پہلا چیلنج مشکل اقتصادی فیصلوں پر عملدرآمد کا ہو گا۔ ’اگر ان کا مرکزی حکومتی پارٹنر (پی پی پی) کابینہ میں اِن کا اتحادی نہیں بنتا تو یہ ایک غیر مستحکم حکومتی اتحاد ہو گا۔‘
ڈاکر ساجد امین کے خیال میں ایسے ’ان ولنگ‘ پارٹنرز کے ساتھ ان اقتصادی فیصلوں اور معاشی ڈھانچے کی اصلاحات پر عملدرآمد کرنے کے حوالے سے اتفاق پیدا کرنا مشکل ہو گا جن کی ملک کو اشد ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر ان حکومتی اداروں کی نجکاری جو مسلسل نقصان میں جا رہے ہیں اور حکومتی خزانے پر ایک بوجھ ہیں۔ شہباز شریف اپنے پہلے احکامات میں ہی ایسا کرنے کا ارداہ ظاہر کر چکے ہیں۔
لیکن اس پر عملدرآمد کے وقت کیا ان کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ایسا کرنے پر ان کا ساتھ دے گی، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ ’نجکاری کے حوالے سے پی پی پی کی ہمیشہ سے اپنی ایک پالیسی رہی ہے۔‘
ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ ایسی غیر مستحکم اتحادی حکومت کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا بھی مشکل ہو گا۔
’اس مرتبہ آئی ایم ایف سے مذاکرات پہلے سے زیادہ سخت ہونے کی توقع ہے۔ ایسے میں اگر حکومتی فیصلوں میں ہم آہنگی نہیں ہو گی تو اس کا فائدہ آئی ایم ایف کو ہو گا۔‘
اس کے نتیجے میں قرض دینے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط زیادہ سخت ہو سکتی ہیں۔
مہنگائی: ’بِل بڑھیں گے، مزید ٹیکس بھی لگیں گے‘
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ نئی حکومت کے لیے دوسرا بڑا چیلنج مہنگائی ہو گا۔ ان کے خیال میں فی الوقت مہنگائی میں کمی کا رجحان ہے تاہم آنے والے دنوں میں یہ بڑھنے کی طرف جائے گا۔
’جیسے ہی آپ آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے تو مہنگائی بڑھے گی کیونکہ توانائی کے بل بڑھیں گے، نئے ٹیکس بھی لگیں گے اور اس کا براہ راست اثر مہنگائی پر ہو گا۔‘
ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ اس مرتبہ جب حکومت آئی ایم ایف کے پاس قرضے کے نئے پیکج کے لیے جائے گی تو ان کی قرض دینے کی شرائط پہلے سے زیادہ سخت ہوں گی۔
اس کے نتیجے میں حکومت کو کئی سبسڈیز ختم کرنا پڑیں گی، بجلی اور گیس وغیرہ کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑے گا اور جی ایس ٹی یعنی جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بھی بڑھانی پڑے گی۔ یہ تمام چیزیں مل کر مہنگائی کو مزید اوپر لے جائیں گی۔
ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر ساجد امین کے خیال میں حکومت کے لیے تیسرا چیلنج یہ ہو گا کہ مہنگائی اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی شرائط پر عملدرآمد کی وجہ سے ملک میں اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو جائے گی۔
’اس لیے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہوں گے اور جب پیسے نہیں ہوں گے تو وہ عام آدمی کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات سے بچانے کے لیے ریلیف کی سکیمیں نہیں چلا سکے گی۔‘ ساتھ ہی اس پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بھی برقرار رہے گا۔
شہباز شریف: ٹکراؤ کے مخالف اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے حامی، نئے پاکستانی وزیرِاعظمعمران خان: ’قیدی نمبر 804‘ جو اڈیالہ جیل سے بھی حکومت کو مشکل میں مبتلا رکھے ہوئے ہےپیپلز پارٹی کی حمایت یافتہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو کیا ایک کٹھن سفر کا سامنا رہے گا؟2۔ سیاسی استحکام اور پی ٹی آئی کا چیلنج
پاکستان تحریک انصاف پارلیمان میں سُنی اتحاد کونسل کے ساتھ الحاق کر چکی ہے تاہم سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت قومی اسمبلی کے اندر ایک بڑی مخالف جماعت کے طور پر موجود ہے۔
صحافی ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں ’اس مرتبہ ن لیگ کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ ان کو زیادہ کام کرنا پڑے گا۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت استحکام لانا چاہے تو اس کے پاس اپوزیشن کو آفر کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔
ماجد نظامی کے خیال میں بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ ن لیگ اس مرتبہ اس بات پر انحصار کر رہی ہے کہ پی ٹی آئی فی الوقت کسی قسم کا ملک گیر احتجاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ ’پارلیمنٹ کے اندر ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنے کے لیے وہ بظاہر ذہنی طور پر تیار نظر آتے ہیں۔‘
صحافی اور تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی سمجھتی ہیں کہ پی ٹی آئی اگر اپنے احتجاج کو پارلیمان کے اندر تک محدود رکھتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ مفاہمت کے لیے تیار ہیں۔
’لیکن اگر وہ احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آتی ہے جیسا کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنے بیانات میں ارادہ ظاہر کر چکے ہیں تو یہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔‘
عاصمہ شیرازی کے خیال میں ایسے میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہو گی اور انتشار کی ایک فضا بنی رہے گی جو ملک کی معیشت کے لیے بھی اچھا نہیں ہو گا۔
وہ کہتی ہیں کہ پارلیمنٹ کے اندر بھی پی ٹی آئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے جس سے اسے مخلتف اوقات میں قانون سازی میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور کمیٹیوں کی کارروائی متاثر ہو گی۔
EPA3۔ غیر مستحکم اتحاد
پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیراعظم منتخب کرنے میں پاکستان مسلم لیگ ن کی مدد کی ہے اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنوایا ہے۔ تاہم وہ اس بات کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی۔ ایسا ہوتا ہے یا نہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔
اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو بعض سیاسی اور اقتصادی ماہرین دو مختلف نظریات اور مختلف پالیسی رکھنے والی ملک کی دو بڑی جماعتوں کے حکومتی اتحاد کو ایک غیر مستحکم اتحاد کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اس کے ملک کی معیشت پر منفی اثرات اپنی جگہ لیکن کیا شہباز حکومت کو حکومت بچانے میں بھی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ان کے خیال میں ’اس وقت ان دونوں سیاسی جماعتوں کی بقا اسی میں ہے کہ وہ کچھ ڈلیور کر کے دکھائیں۔ اس لیے ایک دوسرے کا ساتھ ایک طرح سے دونوں کی ضرورت ہے۔‘
عاصمہ شیرازی کے خیال میں آگے چل کر اس ’میرج آف کنوینیئنس‘ میں ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ ’عمران خان کی جماعت کو بھی سیٹل ڈاون کرنا پڑے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پاور شیئرنگ کا ایک ایسا فارمولا ترتیب دیا گیا ہے کہ دونوں اتحادی جماعتوں کو کچھ نا کچھ مل رہا ہے۔ اگر ایک کے پاس وزیراعظم اور حکومت ہے تو دوسرے کو صدر کا عہدہ اورگورنرز وغیرہ مل رہے ہیں یا سینیٹ میں چیئرمین شپ مل رہی ہے۔
اس لیے ان کے خیال میں شہباز شریف کو حکومت بچانے کی زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ معیشت ایک ایسی چیز ہے جس پر دونوں جماعتوں کے درمیان بعض مقامات پر اختلاف ہو سکتا ہے کیونکہ معیشت کے حوالے سے پی پی پی کی اپنی ایک پالیسی رہی ہے۔
عاصمہ شیرازی کے خیال میں پی پی پی تاریخی طور پر اس بیانیے کی قائل بھی رہی ہے کہ ایک منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے چاہیے۔ ان کے خیال میں بہت ہی بُرے حالات میں پی پی پی کسی ان ہاؤس تبدیلی کی طرف جا سکتی ہے تاہم اس کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔
4۔ فوج کے ساتھ تعلقات
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ماضی کی حکومتوں کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے تعلقات ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خراب ہوئے۔ پاکستان میں کوئی بھی منتخب وزیراعظم آج تک اقتدار کے پانچ سال مکمل نہیں کر پایا۔
کیا شہباز شریف ایسا کر پائیں گے یا پھر ماضی کی طرح ان کے لیے بھی فوج کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنا مشکل ہو گا؟
ماجد نظامی کہتے ہیں کہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ شہباز شریف کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ ’شہباز شریف نظریاتی طور پر کبھی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف نہیں رہے یہاں تک کہ انھوں نے اس بات پر اپنے بھائی کی بھی مخالفت کی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف ہمیشہ سے اس بات کے قائل رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملا کر کام کرنا چاہیے۔ ’ماضی کے رہنماؤں کی طرح ان کے حوالے سے پرسنیلٹی کیلش یا انا کا مسئلہ بھی نہیں ہے اس لیے اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کے تعلقات خراب ہوں۔‘
ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کے لیے آرمی چیف کو اگر وہ چاہیں تو ان کے عہدے پر توسیع (مدت ملازمت میں) دینا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس وقت سیاسی سہارے کی ضرورت ہے۔ ’موجودہ حالات میں اور خاص طور پر حالیہ انتخابات کے بعد جو ایک طرح کی اسٹیبلشمنٹ مخالف لہر چلی ہے وہ چاہیں گے کہ اس وہ اس سے باہر آئیں۔‘
تاہم وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ سیاستدان اس صورتحال سے کیسے کام لیتے ہیں۔ اگر وہ فوج کو واپس بیرکس میں بھیجنا چاہتے ہیں تو یہ ان کے لیے ایک بہترین موقع ہو سکتا ہے۔‘
EPA5۔ میڈیا کی آزادی
حال ہی میں پاکستان میں خاص طور پر سوشل میڈیا پر پابندیاں دیکھنی میں آئی ہیں۔ ملک میں غیر اعلانیہ طور پر گذشتہ کئی روز سے سماجی رابطوں کی مقبول ترین ویب سائٹ ایکس یعنی سابقہ ٹوئٹر بند ہے۔
کئی صحافیوں اور یوٹیوبرز کے خلاف مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ صحافی اور یوٹیوبرز اسد علی طور کو اسلام آباد میں اور عمران ریاض کو لاہور میں گرفتار کیا گیا ہے۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ صحافیوں کے خلاف پیکا جیسے متنازع قانون کا بھی استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت ان پر مقدمات بنائے گئے اور ان کو ہراساں کرنے کے لیے انھیں گرفتار کیا گیا۔
’لیکن پہلے یہ سب کچھ نگران حکومتوں کے دور میں ہو رہا تھا تاہم اب شہباز حکومت کو اس کی اوونر شپ لینا پڑے گی۔ اور یہ ان کے لیے ایک چیلنج ہو گا کہ وہ اس سے کس طرح نمٹتے ہیں۔‘
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ شہباز حکومت کے سامنے پچھلی حکومت کی مثال موجود ہے جس طرح ان کے دور میں میڈیا کو ہینڈل کیا گیا۔
’اگر شہباز حکومت بھی اسی روش پر چلتی ہے تو میڈیا کی آزادی پر سنجیدہ سوالات کھڑے ہوں گے اور وہ بھی میڈیا کو مینیج کرنے کی غلطی کرتے ہیں تو ان کے لیے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔‘
تاہمعاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ میڈیا کو خود کا بھی احتساب کرنا ہو گا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی میڈیا کے ادارے کو خود یہ دیکھنا ہو گا کہ کون واقعی صحافت کر رہا ہے اور کون ’فیک نیوز‘ پھیلا رہا ہے۔
’فیک نیوز اور پروپگینڈا پاکستان میں صحافت کے لیے ایک خطرہ ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں صحافتی برادری کو از خود یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ حقیقی صحافت کی حفاظت کرنی ہے اور فیک نیوز اور پروپگینڈا کے خلاف کارروائی کر کے اسے ختم کرنا ہے۔
نو مئی پر سخت موقف اور انتخابی عمل سے لاتعلقی: فوج نے حکومت اور تحریک انصاف کو کیا پیغام دیا؟الیکشن کمیشن کے مخصوص نشستوں پر فیصلے سے تحریک انصاف کو کتنا نقصان پہنچا اور پی ٹی آئی خود اس کی کس حد تک ذمہ دار ہے؟اندھوں کے شہر میں آئینوں کی کرچیاں: عاصمہ شیرازی کا کالم87 یا 55: پی ٹی آئی قومی اسمبلی کے کن حلقوں میں دھاندلی کا دعویٰ کر رہی ہے؟پاکستان کی طویل ترین نگران حکومت: انوار الحق کاکڑ اور اُن کی کابینہ کے چھ ماہ پاکستان کے لیے کیسے رہے؟