Getty Imagesفائل فوٹو
کراچی میں بارش کی پیشگوئی کی خبر سنتے ہی عموماً یہاں کے رہائشیوں کے ذہنوں میں چھت سے پانی گھر میں داخل ہونے، کسی سڑک پر بائیک یا گاڑی پھنس جانے یا کھلے ہوئے گٹروں سمیت مختلف خدشات آ جاتے ہیں۔
کراچی کی رہائشی ثوبیہ عادل بھی ان خواتین میں سے ہیں جو آج کی بارش کی پیشگوئی کے حوالے سے پریشان ہیں۔ وہ گھر کی دوسری منزل پر رہائش پذیر ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’بارشوں کے دوران انھیں ڈر رہتا ہے کہ پانی کہیں چھت سے اندر نہ آ جائے۔
’چھت پر جتنا بھی سامان رکھا ہوتا ہے، اس کو محفوظ جگہ پر رکھتی ہوں۔۔۔ کوشش ہوتی ہے کہ بچے بارش میں نہ بھیگیں، کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔‘
پاکستان کے محکمہ موسمیات نے جمعے کو کراچی سمیت سندھ کے کئی اضلاع میں شدید بارش کی پیشگوئی کی ہے جس کے بعد وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صوبے بھر میں ’رین ایمرجنسی‘ نافذ کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کو الرٹ رہنے کی ہدایت دی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق 29 فروری کی رات سے 2 مارچ کی صبح تک ملک کے اکثر حصوں میں گرج چمک کے ساتھ شدید بارش کا امکان ہے جس سے متاثرہ علاقوں میں فلیش فلڈنگ کا خدشہ ہے۔
خیال رہے کہ صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کو حالیہ طوفانی بارشوں کے بعد تشویشناک صورتحال کے باعث آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔
ضلع گوادر میں گذشتہ دو روز سے جاری طوفانی بارش سے گوادر شہر کے علاوہ سربندن اور جیونی سمیت بہت سے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔
تاہم محکمہ موسمیات کے مطابق اب یہی موسمی سلسلہ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں کو بھی متاثر کرے گا اور یہاں آج دوپہر سے موسلا دھار بارش کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2022 میں موسمِ گرما کے دوران بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقوں میں شدید بارشوں کے باعث سیلاب آنے سے بھاری نقصان ہوا تھا۔
Getty Imagesفائل فوٹورین ایمرجنسی کیا ہے؟
کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ رین ایمرجنسی کی صورت میں متعلقہ افسران اور عملے کی چھٹیاں منسوخ کردی جاتی ہیں، مشینری کو درست حالت میں رکھا جاتا ہے اور بعض صورتوں میں مشینری اور ہیوی پمپس ان مقامات پر پہنچا دیے جاتے ہیں جہاں پانی جمع ہوتا ہے۔
ان کے مطابق ان حالات میں ایمرجنسی ڈیسک قائم کیا جاتا ہے اور اس ڈیسک پر 24 گھنٹے عملہ موجود رہتا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں دوسرے محکموں سے رابطہ کیا جا سکے۔
اسی طرح میئر کراچی، میونسپل کمشنر اور دیگر افسران سے رابطے رکھے جاتے ہیں اور انھیں شہر کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ جو رین ایمرجنسی کے حوالے سے ایس او پیز بنائی جاتی ہیں انھیں فالو کیا جاتا ہے۔
مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ رین ایمرجنسی میں ایک پلان ترتیب دیا جاتا ہے جس پر متعلقہ محکمہ عملدرآمد کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اکثر اوقات بارشوں میں کراچی کی کئی شاہراہیں اور علاقے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جن میں شاہراہِ فیصل، نرسری سٹاپ، کے ڈی اے چورنگی، ایم اے جناح روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ، محمود آباد، منظور کالونی، ماڈل کالونی، پی ای سی ایچ ایس، ناگن چورنگی، غریب آباد، لیاقت آباد اور ناظم آباد انڈپاسز اور دیگر علاقے شامل ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تمام سرکاری و نجی دفاتر میں جمعہ کو نصف دن کی چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے جاری کردہ ہدایات میں درج ہے کہ تمام بلدیاتی ادارے، ہسپتالوں، واٹر بورڈ، کراچی الیکٹرک اور کنٹونمنٹس ’کسی بھی ہنگامی صورتحال‘ سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں جبکہ شہری غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں بتایا گیا کہ بارش کی شدت زیادہ ہو گی لہٰذا کراچی کے رہائشیوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس حوالے سے مکمل احتیاط کریں۔
سید مراد علی شاہ نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گھر میں رہیں اور اپنے بچوں کا خیال رکھیں۔
کراچی میں بارش شروع ہو چکی ہے جبکہ حکام نے اربن فلڈنگ کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
محکمہ آفات و بحالی کے ڈی جی سلمان شاہ نے وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا کہ شہر میں یکم مارچ کو 12 گھنٹے کے دوران 16 سے 32 ملی میٹر بارش متوقع ہے۔
Getty Imagesفائل فوٹو’سب سے پرانی شرٹ پینٹ پہنتا ہوں، ڈر لگتا ہے کہ اگر کرنٹ لگنے سے مر گیا تو گھر والوں کا کیا ہو گا‘
ثوبیہ اکیلی نہیں، کراچی میں ہی رہنے والی ثمین نواز بھی بارش کے پیشگوئی کے بعد سے خاصی پریشان ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پہلے تو کراچی میں بارش کا انتظار رہتا تھا کیونکہ کم بارشیں ہوتی تھیں۔ مگر اب کراچی والے بارش کو رحمت نہیں بلکہ زحمت سمجھتے ہیں۔‘
انھیں یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ ’اگر بارش ہو گئی تو باہر کیسے نکلیں گے اور واپس گھر کیسے پہنچیں گے؟ ۔۔۔ کوشش کرتی ہوں کہ بچوں کے استعمال کی تمام اشیا لے کر گھر پر رکھ لوں۔‘
صحافی حبیب جمالی کہتے ہیں کہ انھیں کھلے گٹروں سے ڈر لگتا ہے کیونکہ انتظامی نااہلی کی وجہ سے شہری گٹر نالوں میں گر کر مر جاتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک بار گٹر میں گر چکے ہیں لہٰذا وہ ان کے قریب جانے سے گریز کرتے ہیں۔
سونیا عارف گجر نالے پر واقع کوثر نیازی کالونی میں رہتی ہیں۔ چند سال قبل انتظامیہ نے یہاں مبینہ غیر قانونی تجاوزات ہٹائی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب ان کے گھر نہیں ٹوٹے تھے تو حفاظتی انتظامات کرتے تھے کیونکہ نالے کا پانی گھروں میں آ جاتا تھا لیکن اب ایک نئے مسئلے نے جنم لیا ہے۔
’نالے کے ساتھ جو سڑک بنائی گئی ہے وہ اونچی ہے، اب جیسے ہی بارش ہوتی ہے تو اس سڑک کا پانی گھروں میں آ جاتا ہے۔
’اس کے علاوہ سیوریجکا پانی بھی گلیوں میں آ جاتا ہے جس کی وجہ سے آمد و رفت میں مشکلات پیش آتی ہے اور جب تک نالے کی سطح کم نہ ہو جائے پانی کی نکاسی نہیں ہوتی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ وہ بارشوں کے دنوں میں بچوں کو سکول بھی نہیں بھیج سکتیں۔
اسی طرح شہری جنید افضال کہتے ہیں کہ وہ گھر میں سبزیوں کی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں اور بجلی بند رہنے کے امکان کے پیش نظر یو پی ایس چیک کرتے ہیں۔
ادھر ممتاز جمالی سب سے پہلے موبائل کی بیٹری کو مکمل چارج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑی میں پیٹرول اور گھر کا راشن تک ایڈوانس لے لیتے ہیں۔
جہانگیر لغاری نے بتایا کہ وہ باہر نکلتے ہوئے ’سب سے پرانی شرٹ پینٹ‘ پہنتے ہیں۔ انھیں یہ ڈر رہتا ہے کہ ’کرنٹ لگنے سے مر گیا تو گھر والوں کا کیا ہو گا؟‘
Getty Imagesفائل فوٹوحکومت کی جانب سے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں؟
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اجلاس کو بتایا کہ شہر کے 28 پوائنٹس ایسے ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ کے ایم سی اور واٹر بورڈ نے شدید بارشوں کی پیشگوئی کے مدنظر ان علاقوں سے پانی نکالنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے سلمان شاہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ انھوں نے تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور بلدیاتی اداروں کو بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے ضروری مشینری فراہم کر دی ہے، بوقت ضرورت مزید مشینری اور دیگر سامان فراہم کیا جائے گا۔
سید مراد علی شاہ نے کے الیکٹرک کو واٹر بورڈ کے پمپنگ سٹیشنز کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ انھوں نے شکوہ کیا کہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کے الیکٹرک شدید بارش ہونے پر بجلی بند کر دیتی ہے لیکن اس بار اس طرز عمل سے گریز کیا جائے۔
حکام نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارشیں ہوئی ہیں اس لیے امکان ہے کہ پہاڑوں سے سیلابی ریلا قمبر اور جامشورو کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
سیکرٹری محکمہ آبپاشی نیاز عباسی نے اجلاس کو بتایا کہ منچھر جھیل میں پانی کی سطح اس وقت 110.1 فٹ ہے اور اس میں پانی جمع ہونے کی کافی گنجائش موجود ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے پہاڑی سلسلے کا پانی قبو سعید خان، شہدادکوٹ و قمبر سے ہوتا ہوا خیرپور ناتھن شاہ اور دادو سے منچھر جھیل میں آتا ہے جہاں سے اس کو دریائے سندھ میں نکالا جاتا ہے۔
سیہون شریف میں قلندر شھباز کا سالانہ عرس بھی جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ تیز بارش کی صورت میں زائرین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کمشنر حیدرآباد خالد حیدر شاہ کو ہدایت کی کہ وہ زائرین کے تحفظ کے لیے ضروری انتظامات کریں اور حیسکو کو ہدایت کی کہ عرس کے دوران سیہون کو بلاتعطل بجلی فراہم کرے۔
دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک کے سب سے بڑے شہر میں کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کے زیرِ انتظام سات لوکل میونسپل کارپوریشنز ہیں اور ان کے علاوہ آٹھ کنٹونمنٹ بورڈز ہیں۔
کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ شہریوں کی مشکلات حل کرنے اور آپس میں روابط قائم کے لیے کوئی مشترکہ فورم نہیں تاہم ’تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں آنے والے علاقوں میں کام کرتے ہیں، ضرورت پڑنے پر دوسرے محکموں سے رابطہ قائم کیا جاتا ہے اور مدد کی جاتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ کراچی کے بلدیاتی اداروں، کنٹونمنٹ بورڈز، میٹ ڈپارٹمنٹ، کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے)، کراچی پورٹ ٹرسٹ، سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پاکستان ریلوے کا ایک مشترکہ فورم بنایا جائے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے ہنگامی صورتحال سے نمٹا جاسکے۔
’29 گھنٹے لگاتار بارش‘ بلوچستان کے ضلع گوادر کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا، اس غیر معمولی بارش کی وجہ کیا بنی؟بلوچستان کا وہ علاقہ جہاں ایک ماہ بعد اونٹوں پر راشن پہنچایا گیاپاکستان میں 2022 کے سیلاب کا ذمہ دار کون: گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا کیا کردار ہے؟’میں نے سیلاب کے پانی میں سے 15 لاشیں نکالیں‘