Getty Images
پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے جہاں ایک جانب آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد سے مبینہ دھاندلی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں وہیں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے متعلق وفاقی حکومت کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری کو بنا منظور کیے واپس بھیجنے کے بعد سے ایک نئی آئینی بحث چھڑ گئی ہے۔
پاکستان کے سوشل اور روایتی میڈیا پر یہی بحث جاری ہے کہ اگر صدر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کرتے تو آگے کیا ہو گا اور کیا سپیکر قومی اسمبلی قانون کے مطابق یہ اجلاس طلب کرنے کے مجاز ہیں؟
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب صدر عارف علوی کسی سمری کی منظوری میں رکاوٹ بنے ہوں اس سے قبل،سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں اختتام کے بعد جب پی ڈی ایم اقتدار میں آئی تو صدر عارف علوی نے متعدد موقعوں پر حکومت کی طرف سے بیجھی گئی سفارشات کی توثیق نہیں کی تھی۔
مثال کے طور پر جب پی ڈی ایم حکومت نے نئے گورنر پنجاب بنانے کی تجویز صدر کو بھجوائی تھی یا جب آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل کو صدر کے پاس بھیجوایا گیا تھا۔
آئیے جانتے ہیں کہ اس موقع پر کھڑے ہونے والے سوالات کے بارے میں ماہرین اور سیاستدانوں کی کیا رائے ہے۔
صدر اجلاس کی سمری کو منظور کیوں نہیں کر رہے؟
ایوان صدر کے ایک سینیئر اہلکار نے نمائندہ بی بی سی شہزاد ملک کو اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ صدر مملکت نے اِس بنیاد پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری منظور نہیں کی کیونکہ ابھی تک الیکشن کمیشن کی جانب سے سُنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی گئیں ہیں، چنانچہ تکنیکی اعتبار سے یہ ایوان ابھی نامکمل ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سُنی اتحاد کونسل کی طرف سے مخصوص نشستوں کے حصول سے دائر کردہ درخواست پر سماعتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کا پانچ رکنی بینچ اس درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔
Getty Imagesاسمبلی کا سیشن الیکشن کے بعد کب بلانا ہوتا ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 91 کی شق دو کے تحت قومی اسمبلی کو عام انتخابات کے دن کے بعد سے 21 دن کے اندر اجلاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس شق کے تحت صدر پہلے بھی اجلاس طلب کر سکتے ہیں۔
شیری رحمان کے مطابق اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ صدر کے آئین کے آرٹیکل 54 کی شق ایک کے تحت قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے لیے اختیارات کی 21 دن تک کی حد ہے۔
صدر اجلاس بلانے سے متعلق کوئی شرائط نہیں عائد نہیں کر سکتے۔
ڈیڈلائن کے بعد بھی صدر اجلاس نہ بلائیں تو کیا ہوتا ہے؟
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے نگراں وفاقی حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ صدر کی جانب سے اس پیش رفت کے بعد نگراں وزیر اعظم ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری صدر مملکت کو بھجوائیں گے اور اگر ایوان صدر سے دوبارہ ایسا ہی ردعمل آتا ہے تو پھر آئین کے تحت قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی سکریٹریٹ کے اہلکار نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک سے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ صدر کی سمری کو واپس بھیجنے کے بعد اب وزارت پارلمانی امور دوبارہ وزیر اعظم کو قومی اسمبلی کے سیشن کو بلانے کی سمری جمع کروائیں گے جس پر وہ اپنی تجاویز دے کر قومی اسمبلی کے سپیکر کو بھجوا دیں گے جس کے بعد قومی اسمبلی کا سکریٹیریٹ اجلاس کا نوٹیفیکیشن جاری کرے گا۔
Getty Imagesصدر کی منظوری کے بغیر کیا سپیکر اجلاس بلا سکتے ہیں؟
لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر اسحاق ڈار نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ اگر صدرِ پاکستان نے قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا تو سپیکر 29 فروری کو خود اجلاس طلب کر سکتے ہیں۔
اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں بڑا واضح ہے کہ اگر اجلاس نہیں بلایا جاتا تو 21ویں روز سپیکر کو اجلاس بلانے کا اختیار ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صوبوں میں بھی اگر گورنر اجلاس نہیں بلاتا تو وہاں بھی یہی اصول لاگو ہو گا۔
سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اِس وقت ایک پارٹی کی لائن پر چل رہے ہیں اور اُمور مملکت کو ترجیح نہیں دے رہے ہیں تاہم، اُن کے مطابق، صدر مملکت کے پاس یہ آئینی اختیارات موجود ہیں کہ وہ اس سمری پر فیصلہ کرنے کی ضمن میں اپنا وقت لیں، اسے مسترد کریں یا منظور کیے بغیر واپس بھیج دیں۔
خالد رانجھا کے مطابق سپیکر کے پاس ایسے کوئی آئینی اور قانونی اختیارات نہیں ہیں، کہ وہ صدر کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکیں۔
کیا صدر کے دستخط کے بغیر کوئی بل قانون بن سکتا ہے؟صدر عارف علوی موجودہ حکومت کے لیے کیا مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں؟صدر عارف علوی کے پاس کیا قانونی اختیارات ہیں اور سمری پر دستخط میں تاخیر کی صورت میں کیا ہو گا؟اپنی طرز کا ’منفرد اعتراض‘
الیکشن کمیشن کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان انتخابات میں متعدد ایسے مواقع آئے کہ جو اپنی نوعیت کے ایسے واقعات تھے کہ جن سے اس سے قبل الیکشن کمیشن کو واسطہ نہیں پڑا۔
الیکشن کمیشن کے اہلکار کے مطابق صدر مملکت کا اختیار ہے کہ وہ اجلاس طلب کریں، تاہم اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر آئین خاموش ہے اور سپیکر کو بھی کہیں اس طرح کا اجلاس طلب کرنے کی اجازت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق پہلے مخصوص نشستوں سے متعلق ایسا تنازع بھی کھبی پیدا نہیں ہوا جو اس دفعہ سامنے آیا ہے۔ یوں یہ صدر مملکت کی طرف سے اپنی نوعیت کا پہلا اعتراض ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی کی کمپوزیشن ہی مکمل نہیں ہے۔
اُن کے مطابق 27 فروری کو اب الیکشن کمیشن اس پر حتمی فیصلہ دے گا۔
صحافی ماجد نظامی نے بی بی سی اردو سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1990 اور 1993 میں حکومتیں اور صدر آمنے سامنے ہوتے تھے اور ان مسائل کی بنیاد سیاسی تھی لیکن موجودہ صورتحال میں صدر تکنیکی وجہ کی بنیاد پر سمری سے اتفاق نہیں کر رہے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
ڈینٹسٹ سے صدر پاکستان کا سفر’کوئی صدر اس قسم کی زبان کیسے استعمال کرسکتا ہے؟‘صدر عارف علوی ’میڈیا کا شکریہ‘ ادا کرنا چاہتے تھے مگر پریس گیلری خالی تھیڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے 13ویں صدر منتخب