کشیدگی کے چند ہفتوں بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کی منظوری کیوں دی؟

بی بی سی اردو  |  Feb 25, 2024

Getty Images

ایران سے پاکستان کو گیس فراہمی کے منصوبے میں گذشتہ دنوں ایک بڑی پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب حکومت پاکستان کی کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے اس منصوبے کے تحت ایران کے ساتھ سرحد سے لے کر بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر تک پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی۔

پاکستان کی جانب سے اس گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت ایرانی سرحد سے لے کر گوادر تک پائپ لائن بچھانے کی منظوری اس لحاظ سے یہ ایک نمایاں پیش رفت سمجھی جا رہی ہے، جب ڈیڑھ مہینے قبل پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدہ صورت حال اس وقت پید ا ہو گئی تھی اور ایران نے پاکستان کے اندر میزائل حملہ کیا تھا اور اس کے جواب میں پاکستان کی جانب سے ایران کے اندر حملہ کیا گیا تھا۔

پاکستان کی جانب سے جوابی حملے کے بعد سفارتی سطح پر دونوں کے درمیان مذاکرات کے بعد کشیدہ تعلقات میں کمی لائی گئی۔

ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ایک پرانا منصوبہ ہے جس میں اس وقت ایک نمایاں پیش رفت ہوئی تھی جب سنہ 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آخری دنوں میں ا س وقت صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ایران کے دورے کے دوران اس کا افتتاح کیا تھا تاہم اس کے بعد اس میں کوئی خاص پیش رفت ممکن نہیں ہو سکی۔

پاکستان مسلم لیگ نوازاور پاکستان تحریک انصاف کے ادوار میں اس منصوبے پر کوئی خاص کام نہیں ہوا تاہم پی ڈی ایم حکومت کے دور میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس منصوبے پر کام کے لیے جنوری 2023 میں ایک کمیٹی قائم کی تھی اور اب نگران حکومت کی جانب سے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد کابینہ کمیٹی برائے توانائی کی جانب سے اس منصوبے کے ایک حصے کی منظوری دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ اس منصوبے پر امریکہ کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا، جس کی وجہ ایران پر بین الاقوامی پابندیاں قرار دی گئی تھیں تاہم اب پاکستان کی جانب سے ایک حصے پر پائپ لائن بچھانے کی منظوری اس منصوبے پر کام نہ کرنے سے ایران کی جانب سے جرمانے سے بچنا ہے جو وہ عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان پر لگا سکتا ہے۔

Getty Imagesایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ کیا ہے؟

حکومت پاکستان کی جانب سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت ایرانی سرحد سے لے کر ساحلی شہر گوادر تک پائپ لائن بچھانے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

پاکستان میں وزارت پٹرولیم کے سابق سیکریٹری جی اے صابری جنھوں نے اس منصوبے پر کام کیا تھا نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ منصوبہ نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کے دور میں زیر غور آیا اور پہلے یہ منصوبہ ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن پراجیکٹ تھا تاہم بعد میں انڈیا اس منصوبے سے نکل گیا جس کی وجہ ’سکیورٹی تھریٹس‘ تھے تاہم یہ اتنا بڑ ا ایشو نہیں تھا کیونکہ یہ انٹرنیشنل معاہدے کے تحت معاہد ہ ہونا تھا۔ اصل میں انڈیا چاہتا تھا کہ پاکستان ایران سے گیس کی قیمت پہلے طے کرے اور اس کے بعد اس پر کام ہوتا تاہم ایسا نہیں ہوا جس کے بعد انڈیا نے اس منصوبے میں شمولیت سے انکار کر دیا۔

اسلام آباد میں مقیم توانائی شعبے کے امور کے سینیئر صحافی خلیق کیانی اس منصوبے سے متعلق ایشوز پر طویل عرصے سے رپورٹ کر رہے ہیں اور وہ سابق صدر آصف زرداری کے ساتھ ایران جانے والے اس وفد کا حصہ تھے جس نے اس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت تھی۔

خلیق کیانی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس منصوبے پر سب سے پہلے نوے کی دہائی میں غور وخوض شروع ہوا۔ انھوں نے کہا 2000 کے بعد اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا اور 2013 میں اس وقت کے صدر زرداری اور ایرانی صدر احمدی نژاد نے اس کا افتتاح کیا تھا۔

خلیق کیانی نے بتایا کہ جب اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا تھا تو یہ ایران، پاکستان، انڈیا گیس پائپ لائن منصوبہ تھا جس کے تحت 2700کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھائی جانی تھی تاہم بعد میں انڈیا اس منصوبے سے نکل گیا جس کی وجہ انڈیا کی جانب سے پاکستان میں اس پائپ لائن کے لیے سکیورٹی کے لیے ضمانت کا مطالبہ تھا۔

خلیق کیانی نے بتایا کہ انڈیا کو یہ بھی احساس ہوا کہ اس کی گیس سپلائی بھی پاکستان سے ہونی ہے جوکسی وقت بھی اسے روک سکتا ہے اس لیے وہ اس منصوبے سے نکل گیا جس کے بعد یہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ رہ گیا۔ انھوں نے نے بتایا کہ جب انھوں نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی تو ایران نے اپنی طرف اس پائپ لائن کا زیادہ تر حصہ بچھا دیا تھا اور پاکستانی سرحد سے ستر اسی کلومیٹر کے حصے پر کام باقی تھا۔

BBCاس منصوبے پر کام کیوں تعطل کا شکار ہوا؟

مارچ 2013میں اس وقت کے پاکستانی اور ایرانی صدور کی جانب سے اس منصوبے کے افتتا ح کے بعد اس منصوبے پر کام میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں جی اے صابری نے بتایا کہ اس منصوبے پر کام کی رکاوٹ میں ایک بڑی وجہ تو امریکہ کی جانب سے ایران پر پابندیاں تھیں تاہم اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ دوسرے ممالک کی اس پر کام ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور وہ پاکستان کے اندرون ملک گیس و تیل کے منصوبوں کی حوصلہ شکنی کرتے آئے ہیں

اس سلسلے میں خلیق کیانی نے بتایا کہ اس منصوبے پر پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کے ادوار حکومت میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی جس کی وجہ ان دونوں حکومتوں کی جانب سے امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی پالیسی تھی کیونکہ امریکہ کی جانب سے اس منصوبے پر اعتراض سامنے آیا۔ خلیق نے بتایا کہ ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے اس کی تیل و گیس کی برآمد بھی پابندیوں کو شکار ہے اور جو کمپنی اس منصوبے پر کام کرتی ہے اسے بھی پابندیوں کا نشانہ بننا پڑ سکتا ہے

واضح رہے کہ حکومت کی ایک وزارتی کمیٹی نے بین الاقوامی قانونی فرم ولکی فر اینڈ گیلیفر سے بھی اس سلسلے میں مشاورت کی تھی جس نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ اس منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

BBCایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد اس منصوبے پر دوبارہ کام کیوں شروع ہوا؟

موجودہ سال جنوری کے مہینے میں پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں اس کشیدگی پیدا ہوئی جب ایران کی جانب سے پاکستانی سرحد کے اندر میزائل حملہ کیا گیا۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ اس حملے کے ذریعے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا۔

ایران کے حملے کے جواب پاکستان کی جانب سے بھی ایران کے اندر میزائل حملے کیے گئے، جس میں دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔

دونوں جانب سے حملوں کے بعد سفارتی سطح پر اس مسئلے کو حل کر لیا گیا تھا تاہم اس کشیدگی کے ایک مہینے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے پر پاکستان کی جانب سے دی جانی والی منظوری ایک نمایاں پیش رفت ہے۔

اس بارے میں خلیق کیانی نے بتایا کہ تازہ ترین پیش رفت اچانک نہیں ہوئی بلکہ اس پر کافی مہینوں سے کام ہو رہا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کیونکہ ایران پر پابندیوں کی وجہ سے کوئی بھی ایسی کمپنی جو اس منصوبے پر کام کرے گی اس پر پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں اس لیے اب اس منصوبے پر کام انٹر سٹیٹ گیس سسٹم پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کام کرے گی، جو وزارت پٹرولیم کی تحت کام کرتی ہے۔

انھوں نے کہا تاہم اس کمپنی کا بین الاقوامی ایکسپوژر نہیں ہے یعنی کہ یہ باہر سے کوئی سامان نہیں منگوا رہی ہے اور اس کا گراؤنڈ پر بھی ابھی تک کوئی کام نہیں ہے اور اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔

انھوں نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی مد میں پانچ سو ارب روپے موجود ہیں جس سے اس پر کام کا آغاز ہو گا۔ انھوں نے کہا ایرانی سرحد سے گوادر تک جو گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی اس کی لاگت کا تحخمینہ پندرہ کروڑ اسی لاکھ ڈالر یعنی 44ارب روپے ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگر پاکستان اس منصوبے پر کام نہیں کرتا تو ایران بین الاقوامی ثالثی کونسل میں جا سکتا ہے، جہاں پاکستان پر جرمانہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا اگرچہ ایران ابھی تک تاخیر کی وجہ سے نہیں گیا تاہم یہ کسی وقت جا بھی سکتا ہے جس سے بچنے کے لیے پاکستان نے اپنی طرف پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’اب چین پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل کرے گا‘

’پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ انتہائی اہم‘

پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی راہ ہموار

Getty Imagesاس منصوبے سے کتنی گیس ملے گی اور اس کا صارفین کو کیا فائدہ ہوگا؟

اس منصوبے سے پاکستان کو گیس کی فراہمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے جی اے صابری نے بتایا کہ جب اس منصوبے کے بارے میں ابتدائی کام کیا گیا تو اس وقت روزانہ کی بنیاد ایک ارب کیوبک فیٹ گیس کی فراہمی کی بات کی گئی تھی تاہم جب انڈیا اس منصوبے سے نکل گیا تو پھر اس کی فراہمی کی مقدار میں کمی لائی گئی۔

خلیق کیانی نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت کو پاکستان کو روزانہ کی بنیاد پر 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس ملے گی۔ انھوں نے کہا ایران سے جو گیس گوادر پہنچے گی وہ گوادر کی ضروت سے بہت زیادہ ہے کیونکہ اگر گوادر میں گھریلو اور صنعتی گیس کی ضرورت بھی سو ایم ایم سی ایف ڈی سے زیادہ نہیں ہو سکتی جب کہ اس شہر میں صنعتوں کا جال بچھ جائے اس لیے باقی گیس کو ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچایا جائے گا، جسے گوادر سے پائپ لائن کے ذریعے ساؤتھ نارتھ پائپ لائن میں لایا جائے گا، جو روس کی مدد سے بنائی جارہی ہے اور اس پر کام کی رفتار کافی بڑھ چکی ہے۔

پاکستانی صارفین کے لیے اس گیس کی قیمت کے بارے میں جی اے صابری نے بتایا کہ اس گیس کو درآمدی ایل این جی سے تیس سے چالیس فیصد سستا ہونا چاہیے تب ہی یہ مقامی صارفین کے لیے مالی طور پر فائدہ مند ہو گی۔ انھوں نے بتایا کہ مقامی گیس سے یہ مہنگی ہوگی کیونکہ مقامی گیس پرانی گیس فیلڈز سے حاصل کی جاتی ہے جس کا نرخ کم ہے۔

خلیق کیانی نے بتایا کہ اس کا نرخ بین الاقوامی سطح پر برینٹ آئل کی قیمتوں کے ساتھ منسلک ہوتا ہے تاہم یہ بیرون ملک سے منگوائی جانے والی ایل این جی سے سستی اور اندرون ملک پیدا ہونے والی مقامی گیس سے مہنگی ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ جب منصوبہ مکمل ہو جائے تو اس کے بعد اس گیس کی قیمت پر دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔

اس منصوبے پر کام کرنے والی انٹر سیٹ گیس کمپنی سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بی بی سی کے تحریری سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگا، جس کی وجہ اس منصوبے کی معلومات دینے کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار ہے جس کے باعث فوری طور پر موقف ممکن نہیں۔

’پابندیوں کی وجہ سے کوئی سرمایہ کاری کو تیار نہیں‘پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی راہ ہموارhttps://www.bbc.com/urdu/world/2010/12/101224_pak_iran_gas_rza’اب چین پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل کرے گا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More