Getty Images
پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان سمیت دیگر سینیئر پارٹی رہنماؤں کے جیل جانے کے بعد جس قیادت کے بحران کا شکار جماعت رہی ہے وہ حالیہ دنوں میں مزید عیاں ہوا ہے۔
پچھلے برس دسمبر میں جب پاکستان تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن منعقد ہوئے تو عمران خان نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس کے بعد ان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان کو پارٹی کا بلا مقابلہ نگران چیئرمین منتخب کر لیا گیا تھا۔
تاہم الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اس کو کالعدم قرار دیا تھا اور پارٹی سے انتخابی نشان بھی لے لیا تھا جس پر بعد میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے بھی مہر ثبت کر دی تھی۔
پی ٹی آئی نے پہلے پانچ فروری کو انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا اعلان کیا تھا تاہم اس اعلان کے ایک روز بعد ہی پی ٹی آئی نے ’کارکنوں کی انتخابی مہم میں مصروفیات‘ کو جواز بناتے ہوئے انٹرا پارٹی الیکشن ملتوی کر دیے ہیں۔
اب پی ٹی آئی تین مارچ کو ایک بار پھر انٹرا پارٹی الیکشن کروانے جا رہی ہے لیکن اس دفعہ عمران خان نے بیرسٹر گوہر کی جگہ سینیٹر، اپنے وکیل اور پارٹی رہنما بیرسٹر علی ظفر کو پارٹی چیئرمین کے امیدوار کے لیے نامزد کیا ہے۔
اس بات کا اعلان 22 فروری کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد بیرسٹر گوہر نے کیا۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات تین مارچ کو ہوں گے جس میں بیرسٹر علی ظفر کو پارٹی چیئرمین جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد امیدوار عمر ایوب کو جنرل سیکرٹری منتخب کیا جائے گا۔
مگر اب بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے بیرسٹر علی ظفر یہ ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ ’میری نامزدگی کی باتذرا جلدی باہر آ گئی ہے میری نظر میں بیرسٹر گوہر پہلے بھی ٹھیک کردار ادا کر رہے تھے اور ان کو ہی یہ ذمہ داری نبھانی چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس معاملے پر ابھی مشاورت ہو گی۔ ’میری آپ کو پتا ہے کہ کافی مصروفیات پی ٹی آئی کے لیگل کیسز میں بھی ہے۔
’چیئرمین شپ کے لیے آپ کو کافی وقت درکار ہوتا ہے، آپ کو وقت دینا پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم اس پر دوبارہ غور کریں۔‘
دوسری جانب، پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کا جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’انتخابات کے نتائج میں دھاندلی پر (پی ٹی آئی) قیادت نے جس انداز میں ردِعمل دیا، اس پر ورکرز کافی ناراض تھے، اور خان صاحب کو اس کا ادراک بھی تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’علی ظفر کو آگے لانے میں خان صاحب کی شاید یہی سوچ کار فرما تھی کہ قیادت کی تبدیلی سے کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔‘
شیر افضل مروت کے بیان اور بیرسٹر علی ظفر سے ایسا تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی پارٹی چیئرمین شپ کو لے کر تقسیم کا شکار ہے۔
سنیچر کو پی ٹی آئی نے شیر افضل مروت کو ان کے متنازع بیان پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے جس کے بعد یہ بحث زور پکڑ گئی ہے پی ٹی آئی میں اس وقت قیادت کا بحران گہرا ہو گیا ہے اور پارٹی میں دو مختلف آوازوں کی نمائندگی کرنے والے بظاہر آمنے سامنے ہیں۔
Getty Imagesپی ٹی آئی کی قیادت کون کرے گا: وکلا یا سیاسی رہنما؟
سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما زلفی بخاری نے اس بارے میں بی بی سی سے تفصیل سے بات کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پارٹی کی قیادت کون کرے گا، اس کا فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے لیکن ہمیں سمجھداری سے کام لینا ہو گا کہ کسی ایسے شخص کو چنا جائے جس کی نہ صرف عمران خان تک رسائی ہو بلکہ پارٹی تک بھی ہو۔‘
’فی الحال تو ایسا نہیں لگتا کہ مستقل قریب میں سیاسی رہنماؤں کو عمران خان تک رسائی دی جائے گی۔‘
بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے پارٹی چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے سے معذوری ظاہر کرنے پر زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ’بیرسٹر علی ظفر بیک وقت کتنی چیزیں کر سکتے ہیں؟ وہ سینیٹر ہیں اور ساتھ ہی عمران خان کے کئی مقدمات بھی دیکھ رہے ہیں اور ان سے جیل میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ایک بندے کے اوپر کتنا بوجھ انسان ڈالے؟‘
پارٹی کے اندر وکلا اور سیاسی رہنماؤں کے بیچ چیئرمین کے عہدے کے لیے ہونے والی مبینہ رسّہ کشی کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک سینیئر قیادت کی بات ہے، ان کے بیچ کوئی جھگڑا نہیں۔ سب سمجھدار ہیں اور کوئی غلط فہمی بھی نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ظاہری بات ہے کہ ایک قانون دان اور سیاستدان کے سوچنے کے طریقہ کار میں فرق تو ہو گا لیکن سب بھائیوں جیسے ہیں اور ساتھ چلتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پارٹی میں اختلافِ رائے تو ہے مگر کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
تین مارچ کو ہونے والے انٹرا پارٹی الیکشن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا پائی تو یہ اس کی ناکامی ہو گی۔
Getty Images’عمران خان شاید محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں‘
بیرسٹر علی ظفر کی نامزدگی پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ جیل میں ہونے کے باعث عمران خان کو بہت محدود معلومات میسّر ہیں جس کے بنا پر وہ فیصلے لے رہے ہیں۔ ’ان کو ملنی والی معلومات کا ذریعہ یا تو ان کے وکیل ہیں یا پھر ان کے خاندان کے افراد۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی پالیسی ہمیشہ سے جارحانہ رہی ہے لیکن کچھ عرصہ قبل عمران خان کی جانب سے کچھ مفاہمتی رویہ اپنایا گیا۔ تاہم عام انتخابات کے نتائج کے بعد سے ان کا رویہ ایک بار پھر جارحانہ ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بیرسٹر گوہر بھی طبیعتاً نرم مزاج اور درمیان کا راستہ دھونڈنے والوں میں سے ہیں۔ ’شاید ایک یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ ان کی جگہ بیرسٹر علی ظفر کو نامزد کیا گیا ہے۔‘
اس معاملے پر سینیئر صحافی عاصمہ شیرازی ضیغم خان سے متفق دکھائی دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بیرسٹر گوہر آئین و قانون کے دائرے میں رہنے والے جمہوریت پسند شخص ہیں۔ ان کے خیال میں عمران خان اس وقت شاید مہاذ آرائی کی سی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
’بدقسمتی یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سیاسی جماعت سے زیادہ ایک پریشر گروپ کے طور پر پیش آتی رہی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ایسے صورتحال میں پی ٹی آئی کو بیریسٹر گوہر علی خان زیادہ سوٹ نہیں کرتے۔ ’ہمارے پروگرام میں بھی انھوں نے کہا کہ اداروں کے ساتھ مل کر آگے چلنا پڑے گا اور کسی قسم کی محاذ آرائی سوٹ نہیں کرے گی۔‘
عاصمہ شیرازی کے خیال میں ان کی یہ پالیسی پاکستان تحریک انصاف میں موجود شدت پسندوں اور خود عمران خان صاحب کے فائدے کی نہیں۔
’اسی وجہ سے ان کو دو مہینے کے کم ترین وقت میں ہٹا دیا گیا۔ ایک الیکشن میں وہ نامزد چیئرمین تھے اور اگلے الیکشن سے پہلے ان کو ہٹا دیا گیا۔‘
عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کی انتخابی مہم: ’مشکلات اتنی ہیں کہ آپ کو سب کچھ بتا بھی نہیں سکتے‘الیکشن 2024: کیا ایسے ہی نتائج متوقع تھے اور اب اگلا منظر نامہ کیا ہوگا؟پی ٹی آئی کی اچھوتی ڈیجیٹل انتخابی مہم جسے کبھی ’عمران خان کی آواز‘ تو کبھی ’بندشیں‘ جگائے رکھتی ہےGetty Imagesبیرسٹر علی ظفر کی ہچکچاہٹ کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر کی جانب سے نامزدگی واپس لینے کا عندیہ دیے جانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ضیغم خان کا کہنا تھا کہ غالباً وہ بیرسٹر گوہر سے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو دیکھتے ہوئے اس عہدے کو قبول کرنے میں ہچکچاہت کا شکار ہیں۔
’ان کو معلوم ہے کہ بطور چیئرمین ان کو نہ صرف ان کی پارٹی کی اندرونی سیاست بلکہ عمران خان کی جانب سے مزید جارحانہ پالیسی اپنانے کی مطالبات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ علی ظفر اس طرح کی شخصیت نہیں، عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھے جانے کے معاملے پر بھی وہ تذبذب کا شکار دکھائی دیے۔‘
ضیغم خان کہتے ہیں کہ اس تبدیلی کا مقصد پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو پیغام دینا ہے کہ وہ ہمت نہ چھوڑیں اور مزاحمت کی سیاست جاری رکھیں۔
پی ٹی آئی میں وکلا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تبصرہ کرتے ہوئے ضیغم خان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ الیکٹیبلز کے پارٹی چھوڑ جانے کے باعث پیدا ہونے والا خلا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جن حالات کا پی ٹی آئی کو سامنا ہے ایسے میں سیاسی قائدین کی نسبت وکلا کو دباؤ میں مشکل ہوتا ہے۔ مگر اکثر وکلا کو سیاست کا تجربہ نہیں جس کی باعث کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔
ضیغم خان کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں اگر جماعت کا سربراہ موجود ہو تو وہ ان معاملات کو با آسانی حل کر لیتا یے مگر یہاں عمران خان خود جیل میں ہیں اور ایسے میں تمام عہدیدار خود کو ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
عاصمہ شیرازی کی رائے میں بیرسٹر علی ظفر پی ٹی آئی میں موجود ان چند افراد میں سے ہیں جو محاذ آرائی نہیں چاہتے ہیں۔ بظاہر، پاکستان تحریک انصاف کے اندر دو گروپس ہیں ایک وہ جو کہ آئینی اور قانونی پوزیشن لے کے ان کے قانونی مقدمات لڑ رہے ہیں اور دوسرے وہ جن کا سیاست سے تعلق ہے اور وہ محازآرائی کی سیاست کا سہارا لے کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ شدت پسند گروپ جماعت میں ایک طرح سے حاوی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں وزیرِ اعلیٰ کے نامزد امیدوار علی امین گنڈاپور کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عمران خان محاذ آرائی کی طرف ہی جائیں گے۔ علی ظفر صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جو چاہتے ہیں کہ معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہوں، ان کے لیے اس طرز کے سیٹ اپ میں بہت مشکل ہو جائے گا۔‘
’میرا خیال ہے کہ یہ ایک پلِ صراط ہے جس پر سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو گزرنا ہو گا۔‘
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ایک طرف عمران خان صاحب کی خواہشات، محاذ آرائی اور ایک انتہا پسند رویہ ہے اور دوسری طرف وہ ہیں جو سسٹم کے اندر رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں اور یہ وہ مسئلہ ہے جس سے پی ٹی آئی کی قیادت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جس طرح علی امین گنڈا اور اسلم اقبال کی کے نامزدگیاں کی گئی ہیں وہ ایک واضح پیغام ہے کہ آپ صرف اور صرف محاذ آرائی کریں گے۔‘
ان کے خیال میں یہ دو نکاتی پالیسی ہے جس میں ایک جانب پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعظم کے لیے نامزد امیدوار عمر ایوب خان ہیں جو سسٹم کے ساتھ صلح جوئی کے ساتھ چلنے والے ہیں اور دوسری طرف علی امین گنڈا پور اور اسلم اقبال جیسے افراد ہیں۔
عاصمہ کہتی ہیں کہ ’پارٹی کارکنان جو پہلے ہی 9 مئی کے بعد سے مشکلات میں گھرے ہیں کے لیے ایسی مزاحمتی پالیسی پر چلنا آسان نہ ہو گا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر پی ٹی آئی ورکرز سمجھتے ہیں کہ اگر یہ مزاحمت کی پالیسی پارلیمان میں لے جائے گئی تو اس کا نقصان ہی ہونا ہے۔
’لیکن یہ ورکرز عمران خان کی بات مانتے ہیں اور اس سارے عمل میں وہ ایک عجیب مخمصے میں پڑ جائیں گے۔‘
پی ٹی آئی کو ’سوشل میڈیا کی پارٹی‘ کا طعنہ دینے والی جماعتیں کیسے سوشل میڈیا پر ہی اس سے شکست کھا گئیںپی ٹی آئی کی اچھوتی ڈیجیٹل انتخابی مہم جسے کبھی ’عمران خان کی آواز‘ تو کبھی ’بندشیں‘ جگائے رکھتی ہےالیکشن 2024: کیا ایسے ہی نتائج متوقع تھے اور اب اگلا منظر نامہ کیا ہوگا؟عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کی انتخابی مہم: ’مشکلات اتنی ہیں کہ آپ کو سب کچھ بتا بھی نہیں سکتے‘