کوہستان میں ’نام نہاد غیرت‘ کے نام پر ایک اور لڑکا لڑکی قتل: ’وقوعہ پر پہنچے تو لاشیں خون میں لت پت پڑی تھیں‘

بی بی سی اردو  |  Feb 23, 2024

Getty Imagesفائل فوٹو

انتباہ: اس تحریر میں شامل چند تفصیلات چند قارعین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔

خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع کولئی پالس کوہستان کے دورافتادہ علاقے برپارو میں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کو فائرنگ اور کلہاڑیوں کے وار کر کے ہلاک کیا گیا ہے جو یہاں گذشتہ تین ماہ کے دوران پیش آنے والا اس نوعیت کا تیسرا واقعہ ہے۔

پولیس تھانہ کوز پارو کے ایس ایچ او محمد جاوید خان کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق پولیس کو اپنے ایک اہلکار سے اطلاع ملی کہ بر پارو کے علاقہ چپرگئی میں ایک عورت اور مرد کو قتل کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق پولیس اطلاع ملنے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچی تو دو لاشیں خون میں لت پت پڑی ملیں۔

پولیس معلومات کے مطابق لڑکا اور لڑکی چپرگئی کے رہائشی تھے۔ پولیس نے ایف آئی آر میں دعویٰ کیا ہے کہ ’ابتدائی معلومات کے مطابق مقتولہ کے بھائی اور والد نے فائرنگ کر کے دونوں کو قتل کیا اور یہ بظاہر غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ معلوم ہوتا ہے جس کے بعد ملزمان فرار ہو گئے ہیں۔‘

پولیس نے ایف آئی آر میں لڑکی کے دوسرے بھائی کو بھی شامل کیا ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ دونوں قتل اُن کے صلاح مشورے پر کیے گئے ہیں۔

پولیس نے ملزمان کے خلاف دفعہ 302، 311 اور 109 کے تحت ایف آئی آر درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔

’لڑکے پر فائرنگ کے بعد اُس کے جسم کے ٹکڑے کر دیے گئے‘

محمد فاروق (فرضی نام) مقتول لڑکے کے گاؤں شراکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں، نے بتایا کہ ’لڑکے پر فائرنگ کے بعد اُس کے جسم کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’کوہستان میں ان معاملات کی سختی سے ممانعت ہے اور اگر کوئی کسی کی بہن یا بیٹی کے ساتھ رابطہ بھی رکھے تو اُن کو مقامی زبان میں ’چور‘ کہتے ہیں۔

’جسے کسی صورت معاف نہیں کیا جاتا اور جرگہ بیٹھنے کے بعد دونوں کو دونوں خاندان ہی قتل کرتے ہیں۔‘

سب ڈویژنل پولیس آفیسر ڈی ایس پی محمد ریاض نے بتایا کہ واقعہ کے بعد ایس ایچ او کوز پارو جاوید سمیت پولیس پارٹیاں متعلقہ علاقے میں موجود ہیں اور ملزمان کی گرفتاری کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ مزید تفصیل نہیں جانتے۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں خود جائے وقوعہ جا رہا ہوں جہاں پر نیٹ ورک کام نہیں کرتا اور ایس ایچ او سے رابطہ نہیں ہو رہا۔‘

یہ بھی پڑھیےچار بیٹوں کے قتل کے بعد افضل کوہستانی کی والدہ گمنامی میں زندگی گزارنے پر مجبورکوہستان ویڈیو: کیا اب انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے؟کوہستان: خواتین کے لیے موبائل فون موت کی علامتBBCسنہ 2012 میں کوہستان ویڈیو سیکنڈل کے بعد جرگے نے افضل کوہستانی نامی لڑکے جو بعد میں خود بھی ایبٹ آباد میں اسی کیس میں قتل کر دیے گئے تھے، کے دو بھائیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ دیا تھاکوہستان میں ماضی میں ہونے والے واقعات

خیال رہے کہ گذشتہ برس 27 نومبر کو کولئی پالس میں ایک لڑکی کو سوشل میڈیا پر مبینہ فوٹو شاپ تصاویر وائرل ہونے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا جن میں بعدازاں جرگہ ممبران سمیت ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا اور فی الحال کیس عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

اسی طرح اکتوبر 2023 میں بھی ایک لڑکی کو مبینہ طور پر لڑکے کے ساتھ رابطہ رکھنے پر اُس کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن لڑکی کو اس بات کا علم ہو گیا اور وہ جان بچاتے ہوئے پولیس کے پاس پہنچیں جہاں سے عدالت نے انھیں دارلامان بھیج دیا۔

کوہستان ایک قدامت پسند دور افتادہ علاقہ ہے جہاں پر تعلیم کی شرح چوبیس فیصد اور خواتین کی تعلیم صرف 5 فیصد ہے۔

سنہ 2012 میں رونما ہونے والا کوہستان ویڈیو سیکنڈل بھی اسی علاقے میں پیش آنے والا واقعہ تھا جس میں لڑکوں کی ڈانس کرتے اور لڑکیوں کی تالیاں بجاتی ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعد جرگہ منعقد ہوا اور جرگے نے افضل کوہستانی نامی لڑکے جو بعد میں خود بھی ایبٹ آباد میں اسی کیس میں قتل کر دیے گئے کے دو بھائیوں کو قتل کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

واقعہ کو میڈیا کے ساتھ شیئر کرنے اور عدالت میں لے جانے پر افضل کوہستان خود اور اُن کے تین بھائی قتل ہوئے جبکہ ویڈیو میں نظر آنے والے دو بھائی تاحال روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اسی کیس میں ویڈیو میں نظر آنے والی چار لڑکیاں بھی قتل کی جا چکی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی مرتب کردہ رپورٹس کے مطابق سال 2016 می 1100، سال 2014 میں ایک ہزار، سال 2013 میں 869 خواتین غیرت کے نام پر اپنی قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوئی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کی سال 2017 کے حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال پورے ملک کی پولیس اور سرکاری اداروں سے اکھٹے ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 309 بنتی ہے مگر یہ تعداد قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ سال 2017 میں مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی غیرت کے نام پر قتل کی رپورٹیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی اصل تعداد ظاہر کی گئی تعداد سے کئی زیادہ ہو سکتی ہے۔

کوہستان: خواتین کے لیے موبائل فون موت کی علامتکوہستان ویڈیو: کیا اب انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے؟چار بیٹوں کے قتل کے بعد افضل کوہستانی کی والدہ گمنامی میں زندگی گزارنے پر مجبور
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More