امریکا نے سلامتی کونسل میں قرار داد کو ویٹو کرکے غزہ میں جنگ بندی کا ایک اور موقع ضائع کر دیا، چینی مندوب

اے پی پی  |  Feb 23, 2024

اقوام متحدہ۔23فروری (اے پی پی):اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب چانگ جون نے کہا ہے کہ امریکا نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو ویٹو کرکے غزہ میں جنگ بندی کا ایک اور موقع ضائع کر دیاہے۔ چینی میڈیا گروپ کے مطابق چانگ جون نے کہا کہ معصوم جانوں کو بچانے اور جنگ کو پھیلنے سے روکنے کے لئے غزہ میں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے۔

چانگ جون نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے رفح پر فوجی حملہ ناقابل تصور شہری ہلاکتوں اور انسانی تباہی کا باعث بنے گا اور علاقائی امن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔چین اس کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ اسرائیل فوری طور پر رفح پر حملے کا منصوبہ منسوخ کرے اور فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دینا بند کرے۔نسل کشی کو روکنے کے لیے آئی سی جے کے عبوری اقدامات کے احکامات کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔

اسرائیل کو غزہ کی پٹی تک تمام زمینی، سمندری اور فضائی رسائی کو کھولنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، امدادی کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے انسانی ہمدردی کے اداروں کو ضروری حالات فراہم کرنا ہوں گے، اور انسانی امدادی اداروں کے اہلکاروں اور سہولیات کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ چانگ جون نے کہا کہ چین کو اس حقیقت پر سخت تشویش ہے کہ کچھ اسرائیلی سیاستدانوں نے حال ہی میں کئی مواقع پر ’’دو ریاستی حل‘‘اور آزاد فلسطینی ریاست کے حصول کے لیے کسی بھی طرح کی بین الاقوامی کوششوں کو عوامی طور پر مسترد کر دیا ہے۔

غزہ کی پٹی فلسطین کا ایک ناقابل تنسیخ حصہ ہے، اور دو ریاستی حل بین الاقوامی انصاف کی آخری حد ہے اور فلسطین اسرائیل مسئلہ کو حل کرنے کا واحد قابل عمل راستہ ہے۔ چین نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر دو ریاستی حل” کی بنیادوں کو مٹانے کی کوششیں بند کرے، فلسطینیوں کی جبری منتقلی روکے، اور مغربی کنارے میں تلاشی، گرفتاریاں اور حملے بند کرے۔ فلسطین کے ساتھ ہونے والی تاریخی ناانصافی کو درست کیا جانا چاہیے، اور ایک آزاد ریاست کے لیے فلسطین کی دیرینہ خواہش کو پورا کیا جانا چاہیے۔

چین جلد از جلد فلسطین کے اقوام متحدہ کا رکن بننے کی حمایت کرتا ہے اور مسئلہ فلسطین کے جامع، منصفانہ اور دیرپا حل کو فروغ دینے کے لیے ایک وسیع تر، زیادہ مستند اور زیادہ موثر بین الاقوامی امن کانفرنس بلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More