Reuters
توہین مذہب کے مقدمے میں گرفتار ایک ملزم کی درخواستِ ضمانت پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے چھ فروری 2024 کو دیے گئے فیصلے نے رواں ہفتے اچانک سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک منظم مہم کو جنم دیا جس میں اب ملک کی مذہبی جماعتیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔
اس مہم کے دوران جہاں چیف جسٹس کے فیصلے کو آئین اور دین سے متصادم قرار دیا جا رہا ہے وہیں خود ان پر توہینِ مذہب جیسے سنگین الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی جماعتوں نے اس فیصلے کے خلاف جمعے کے روز ملک بھر میں احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نگران وزیرِ اطلاعات نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ ملک میں لاقانونیت اور انارکی پھیلنے نہیں دی جائے گی اور کچھ لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو تشدد پر اکسانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
جمعرات کو ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے الزام میں ایک شخص کو راولپنڈی سے گرفتار بھی کیا ہے۔
عدلیہ مخالف مہم کے بعد جہاں بدھ کو سپریم کورٹ نے اس فیصلے کا اردو متن اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا وہیں جمعرات کو ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اس فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی گئی ہے جس سے غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم میں مسلمان کی تعریف سے انحراف کیا ہے۔
آئیے پہلے یہ جانتے ہیں کہ وہ معاملہ کیا تھا جس میں چیف جسٹس نے ضمانت دینے کا فیصلہ دیا۔
معاملہ کیا تھا اور فیصلے میں کیا کہا گیا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے چھ فروری کو ملزم کی ضمانت اور فردِ جرم سے بعض الزامات حذف کروانے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوئی جو لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد 16 اور 27 نومبر 2023 کے فیصلوں کے خلاف دائر کی گئی تھی۔
ملزم پر چھ دسمبر 2022 کو ضلع چنیوٹ میں درج ایف آئی آر کے مطابق صوبہ پنجاب میں قرآن کی طباعت کے قانون 2011، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی اور دفعہ 295 بی کے تحت تین الزامات لگائے گئے تھے۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ملزم ممنوعہ کتاب ’تفسیرِ صغیر‘ تقسیم کر رہا تھا جبکہ ضمانت کی درخواست میں ملزم کے وکیل کا مؤقف تھا کہ ایف آئی آر کے مطابق اس جرم کا ارتکاب 2019 میں کیا گیا جبکہ کسی بھی ممنوعہ کتاب کی تقسیم یا اشاعت کو پنجاب قرآن شریف (ترمیم) قانون کے تحت سنہ 2021 میں جرم قرار دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں کہا تھا کہ چونکہ سنہ 2019 میں ممنوعہ کتاب کی تقسیم جرم نہیں تھی اس لیے درخواست گزار پر یہ فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔
فیصلے کے مطابق ’آئین نے قرار دیا ہے کہ کسی شخص پر ایسے کام کے لیے فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی جو اس وقت جرم نہیں تھا، جب اس کا ارتکاب کیا گیا۔‘
اس حوالے سے فیصلے میں آئین کی دفعہ 12 (1) کا حوالہ دیا گیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں اگر ملزم کو کسی جرم پر سزا ہو سکتی ہے وہ ’تفسیر صغیر‘ نامی کتاب کی اشاعت اور اس کی تقسیم کا جرم ہے جس کی سزا چھ ماہ قید ہے اور ملزم پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکا ہے۔
ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے ملزمکی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اس نکتے کو نظر انداز کیا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ دین کے معاملے میں پاکستانی آئین میں اس کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور بیان کرنے کا حق ہے۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیصلے میں لکھا کہ ’ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مذہب کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے جذبات حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں جیسا کہ اس مقدمے میں بھی ہوا اور نجی شکایت کنندگان ریاست کی جگہ آ جاتے ہیں اگرچہ ان جرائم کی نوعیت ایسی ہے کہ یہ کسی فرد یا جائیداد کے خلاف نہیں۔‘
ملزم کی جانب سے مقدمے سے تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 298 سی اور 295 بی کے علاوہ پنجاب طباعت و ضبط قانون کی دفعات سات اور نو کو مقدمے سے حذف کرنے کی درخواست پر عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ’وکیل کا کہنا تھا کہ نہ تو ایف آئی آر میں اور نہ ہی پولیس کی تفتیش میں جمع کی گئی پولیس رپورٹ میں ملزم پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کیا، جس سے مذکورہ جرائم تشکیل پاتے ہوں۔۔۔ چالان بھی اس بارے میں خاموش ہے۔۔۔ اس بنا پر دفعات 295 بی اور 298 سی ایف آئی آر سے نکال دی جاتی ہیں۔‘
خیال رہے کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 سی احمدی برادری کے خود کو مسلمان قرار دینے جبکہ 295 بی قرآن کی بے حرمتی سے متعلق ہے۔
Getty Imagesمذہبی جماعتوں کا احتجاج اور سوشل میڈیا پر مہم
اس فیصلے کے خلاف منگل سے جس مہم کا آغاز ہوا وہ پہلے پہل تو اگرچہ سوشل میڈیا تک محدود تھی لیکن اس میں چیف جسٹس آف پاکستان کو براہِ راست نشانہ بنایا جا رہا تھا اور انھیں دھمکیاں بھی دی جا رہی تھیں تاہم پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے اہم مذہبی جماعتیں اور ان کے رہنما بھی اس مہم کا حصہ بن گئے۔
اس سلسلے میں جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے اپنے فیصلے کے ذریعے احمدیوں کو تبلیغ کی اجازت دی ہے اور یہ فیصلہ آئین و قانون کے منافی ہے۔
جے یو آئی کے مرکزی رہنما حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف جمعے کو پورے ملک میں احتجاج کر رہی ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ دیگر جماعتیں بھی اس احتجاج میں شامل ہوں گی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا آئین ہر شخص کو مذہبی آزادی کی اجازت دتیا ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم لیکن توہین مذہب کو کسی طور پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے فیصلے میں جس قانون کے اطلاق کو حذف کیا ہے اس کے جرم کے ارتکاب کے بعد بننے کے حوالے سے سوال پر حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا کہ توہین قران کا قانون 2011 سے موجود ہے جبکہ اس قانون مں ترمیم 2021 میں کی گئی تھی جس کا مطلب یہ ہے کےہ عدالت نے 2011 کے قانون کو نظر نداز کیا ہے۔
انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرے۔
حافظ حمد اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس طرح آئینی امور میں معاونت کے لیے سپریم کورٹ سینیئر وکلا کو طلب کرتی ہے اسی طرح اگر سپریم کورٹ کے پاس توہین مذہب کا کوئی کیس آئے تو اس سلسلے میں عدالت کو علمائے دین کو معاونت کے لیے طلب کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیےتوہینِ مذہب: کیا ماتحت عدالتیں دباؤ کے زیرِ اثر ملزمان کو سزائیں سناتی ہیں؟توہین مذہب کے ملزمان کا دفاع کرنے والے وکیل کی اپنی ’جان کو خطرہ‘سپریم کورٹ اور حکومت کا ردعمل
جمیعت علمائے اسلام اور دیگر جماعتوں کی طرف احتجاج کی کال اور سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد سپریم کورٹ نے جمعرات کو اس مقدمے کے حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اس فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی گئی ہے جس سے غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ فیصلے میں مذہب کے خلاف جرائم کے بارے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات کو ختم کرنے کو کہا گیا ہے جو کہ حقائق کے بالکل منافی ہے۔
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہعدالتی فیصلوں پر مناسب اسلوب سے تنقید کی جاسکتی ہے لیکن نظرِ ثانی کا آئینی راستہ اختیار کیے بغیر تنقید یا اس کی اڑ میں عدلیہ اور ججوں کے خلاف مہم افسوسناک ہے۔
سپریم کورٹ کے اس بیان سے قبل نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں لاقانونیت اور انارکی پھیلنے نہیں دی جائے گی۔
ان کے مطابق کچھ لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو تشدد پر اکسانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور حکومت ایسی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کسی بھی صورت اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں بےبنیاد، جھوٹا اور من گھڑت پروپیگنڈا پھیلائیں اور ان پلیٹ فارمز کی طرف سے اس عمل کو نہ روکا گیا تو ریاست کو سخت اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی لامحدود نہیں بلکہ قانون کے تابع ہےاور اس کے تحت عدلیہ، مسلح افواج اور برادر ممالک کے خلاف تضحیک آمیز گفتگو کی اجازت نہیں۔
ادھر ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے پر عبدالواسع نامی ایک شخص کو راولپنڈی سے گرفتار کیا ہے۔ ایف آئی اے کے حکام کے مطابق سوشل میڈیا پرایسے درجنوں اکاونٹس کی بھی چھان بین کی جارہی ہے جنھوں نے چیف جسٹس کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں اپنا حصہ ڈالا۔
مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاج کی کال دینے سے متعلقاسلام آباد پولیس کی جانب سے بھی ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط انداز میں پیش کیا ج رہا ہےاور گمراہ کن خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی عمل پر جرم کا اطلاق رائج الوقت قانون کے مطابق ہو سکتا ہے۔
Getty Imagesتوہینِ مذہب کا قانون اور معاشرہ
پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کو غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اس بارے میں سپریم کورٹ کی طرف سے بھی ایسے مقدمات کی سماعت کے دوران یہ ابزرویشنز دی گئی ہیں کہ اسحساس معاملے پر ریاست کی بجائے عام آدمی کا شکایت کندہ بننا قابل تشویش ہے جبکہ قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ریاست کو ایسے مقدمات میں مدعی ہونا چاہیے۔
توہین مذہب کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل سیف الملوک کا کہنا ہے کہ ملک میں توہین مذہب کا قانون جس طرح بے دریغ طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے اس سے معاشرے مں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔
سیف الملوک کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی طرف سے اپنا کردار بہتر انداز میں ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس قانون کا بےدریغ اور غلط استعمال ہو رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ توہین مذہب کا قانون ایک فوجی آمر نے بنایا لیکن بدقسمتی ہے کہ عوام کے متنخب نمائندوں کو اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانون سازی کرنے کی جرات بھی نہیں۔
توہین مذہب کا الزام: ’میں سوچ رہا تھا کہ مجھے تشدد کر کے قتل کیا جائے گا یا آگ لگا کر‘توہین مذہب کا الزام: ننکانہ میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا شخص کون تھا؟’شکر ہے میرے ہاتھ میں موبائل تھا، ویڈیو بنا لی ورنہ توہین مذہب کے الزام میں پھنس جاتی‘: سی اے اے کا واقعے کی تحقیقات کا اعلان