شیر نے اس شخص کو ہی مار ڈالا جو کئی برس سے اس کی دیکھ بھال کر رہا تھا

بی بی سی اردو  |  Feb 20, 2024

Getty Images

نائجیریا کی ایک یونیورسٹی میں چڑیا گھر کے رکھوالے کو اُس شیر نے ہی ہلاک کر دیا جس کی وہ تقریباً ایک دہائی سے دیکھ بھال کر رہا تھا۔

اوبافیمی اوولوو یونیورسٹی (او اے یو) نے ایک بیان میں کہا کہ چڑیا گھر کے انچارج اولابودے اولاوی پر شیر نے اُس وقت حملہ کیا جب وہ اسے کھانا کھلا رہے تھے۔

یونیورسٹی نے مزید کہا کہ ان کے ساتھی انھیں بچانے میں ناکام رہے کیونکہ شیر نے انھیں شدید زخمی کر دیا تھا۔ جب تک انتظامیہ نے شیر کو بے ہوش کیا تب تک بہت دیر ہو چُکی تھی۔

ویٹرنری ٹیکنالوجسٹ اولاوی نو سال قبل کیمپس میں شیروں کی پیدائش کے بعد سے ان کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔

یونیورسٹی ترجمان ابیودون اولاریواجو کا کہنا ہے کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ نر شیر نے اسی شخص کو ہلاک کر دیا جو ایک لمبے عرصے سے اسے کھانا کھلا رہا تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں اس نر شیر کی جانب سے کبھی بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا تھا کہ جس کی وجہ سے پتا چل سکا ہو کہ وہ حملہ کرنے والا ہے۔‘

نائجیریا کے شہری سوشل میڈیا پر جنوب مغربی ریاست اوسن کی یونیورسٹی میں ہونے والے حملے کی تصاویر شیئر کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی انتظامیہ اس واقعے کے بعد سے صدمے کی حالت میں ہے اور ایک وفد مسٹر اولاوی کے اہلخانہ کے پاس تعزیت کے لیے گیا ہے۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایڈیبائیو سیمون بامیرے نے کہا کہ وہ اس واقعے سے ’افسردہ‘ ہیں اور انھوں نے اس کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

سٹوڈنٹس یونین کے رہنما عباس اکنریمی نے نائجیریا کے وینگارڈ اخبار کو بتایا کہ یہ حملہ ’انسانی غلطی‘ کی وجہ سے ہوا کیونکہ چڑیا گھر کا رکھوالا شیروں کو کھانا کھلانے کے بعد دروازہ بند کرنا بھول گئے تھے۔

انھوں نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اولاوی کو ایک اچھے اور عاجز انسان کے طور پر خراج تحسین پیش کیا۔

اسی بارے میںمگرمچھوں نے اپنے ہی پالنے والے 72 سال شخص کا شکار کر لیابہاولپور کے چڑیا گھر میں شیر کے پنجرے میں موجود لاش کی شناخت مکمل، سکیورٹی لیپس کا اعترافمگر مچھ کے حملے میں بچ جانے والا شخص:’اس کی آنکھ کا اوپری حصہ میرے دانتوں میں آ گیا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا‘ شیر جو شکار کے قریب پہنچ کر رک جاتا تھااڑیسہ میں مگرمچھوں سے تنگ دیہاتیآدم خور شیروں کے جزیرے: جہاں شکار بننے کے باوجود لوگ شیر کی پوجا کرتے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More