Getty Images
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کو گزرے ایک ہفتے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے لیکن ملک میں سیاسی بحران کا سورج ڈھلتا نظر نہیں آ رہا۔
ایک جانب مختلف سیاسی جماعتیں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں تو دوسری جانب کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی 75 نشستوں پر کامیاب ہو پائی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 54، ایم کیو ایم پاکستان کے 17 اور دیگر جماعتوں کے 25 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
جبکہ اس الیکشن کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 93 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یعنی کسی کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
اس صورتحال میں تمام جماعتیں آغاز میں تو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتی اتحاد بنانے کی کوشش کرتی نظر آئیں لیکن آہستہ آہستہ حکومت بنانے میں ہچکچاہٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔
آٹھ فروری کو جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اپنے حلقے میں واقع پولنگ سٹیشن سے ووٹ ڈال کر باہر نکلے تھے تو انتخابات کے نتائج سے متعلق صحافی کے ایک سوال پر انھوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ’جو بھی حکومت بنے سادہ اکثریت سے ہی بنے تو بہتر ہے۔‘ مگر ان کی ’خواہش‘ پوری نہ ہو سکی اور انھوں نے انتخابات کے اگلے ہی روز پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم اور آزاد اراکین کو مخلوط حکومت بنانے کی دعوت دی تھی۔
اگر صوبائی حکومتوں کی بات کی جائے تو مسلم لیگ ن پنجاب، پیپلز پارٹی سندھ اور پی ٹی آئی کے آزاد ارکان خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے لیے پر عزم ہیں مگر مرکز میں حکومت سازی کے حوالے سے اب تک سیاسی پارٹیوں کے مابین پاور شئیرنگ فارمولہ طے نہیں ہو پایا ہے۔
خیال رہے کہ الیکشن کے اگلے روز نو فروری کو ن لیگ کے سربراہ نواز شریف کی جانب سے لاہور میں ایک تقریر میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ن لیگ وفاق میں حکومت بنانے کے لیے دیگر جماعتوں سے رابطے کرے گی، جبکہ دو روز قبل چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر شہباز شریف اور آصف زرداری سمیت دیگر جماعتوں کی سربراہان کی موجودگی میں وفاق میں مل کر حکومت بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
Getty Imagesپاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی کی 93 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں
تاہم بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اس سے قبل ایک پریس کانفرنس میں یہ کہا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں ن لیگ کے وزیرِ اعظم کے امیدوار کو ووٹ دے گی لیکن کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی۔
جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے اس دعوت کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے بھی تین روز قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنا لیں گے اور بعدازاں ان کی جانب سے پنجاب اور مرکز میں وزیرِاعلیٰ اور وزیرِ اعظم کے ناموں کے لیے بھی امیدوار نامزد کر دیے گئے تھے۔
مگر گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر سیف نے قومی وطن پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد اعلان کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں سیاسی و صحافتی حلقوں میں ہونے والی چہ میگوئیوں سے یہ تاثر مل رہا ہے جیسے سیاسی جماعتیں مرکز میں حکومت بنانے سے گریزاں ہو۔
ایسے میں مسلم لیگ ن کے چند سینیئر اراکین کی جانب سے حال ہی میں دیے جانے والے بیانات نے اس تاثر کو مزید تقویت بخشی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کو کانٹوں کا یہ تاج اپنے سر پر سجانے کا کوئی شوق نہیں۔‘
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’وفاقی حکومت کی تشکیل مسلم لیگ ن کی نہیں بلکہ پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ موجودہ قومی اسمبلی میں کسی کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین پہل کریں، پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت بنا لیں، ہم مبارکباد پیش کریں گے۔‘
الیکشن 2024: وہ امیدوار جنھوں نے ’خیرات کی نشست‘ ٹھکرائی اور کھلے دل سے شکست تسلیم کیکمشنر راولپنڈی کا عام انتخابات میں دھاندلی کرنے کا دعویٰ، الیکشن کمیشن کا تحقیقات کا اعلان
اس سے قبل ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف کی جانب سے بھی ایکس پر کی گئی پوسٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ ’خدا کرے مسلم لیگ ن یہ فیصلہ کر لے کہ جس کو مرکز میں اکثریت دلائی گئی اسی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے، اس سے ملک میں انتشار پیدا کرنے کی منصوبہ بندی ناکام ہو سکتی ہے۔‘
تاہم ن لیگکی ترجمان مریم اورنگزیب نے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ ان کی جماعت وفاق میں حکومت بنانے سے گریزاں ہے۔
سنیچر کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن سیاسی جماعتوں اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک مشاورتی عمل سے گزر رہی ہے۔
’آج ایک اجلاس اسلام آباد میں اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر دونوں جماعتوں کی کمیٹیوں کے درمیان ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ہر اجلاس کے بعد ایک اعلامیہ جاری ہوتا ہے اور اس اعلامیے کے علاوہ جتنی بھی خبریں ٹی وی سکرین پر چل رہی ہیں وہ ان کی مکمل طور پر تردید کرتی ہوں۔
’وفاق کا بوجھ کوئی اکیلے اٹھانے کو تیار نہیں‘
اس حوالے سیاسی تجزیہ کاروں سے بات کر کے موجود منظرنامے اور سیاسی جماعتوں کی ہچکچاہٹ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
سینیئر صحافی و تـجزیہ کار سہیل وڑائچ اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سیاسی جماعتوں کو اس بات کا علم ہے کہ موجودہ معاشی و سیاسی صورتحال میں وفاقی حکومت میں آ کر مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اور کوئی اس کا بوجھ اکیلے اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال میں یہ بات تمام جماعتوں پر واضح ہے کہ وفاقی حکومت میں آ کر سخت اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے جن میں پیٹرول، گیس، بجلی کی قیمتیں، آئی ایم ایف سے معاہدہ، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اور خارجہ تعلقات جیسے معاملات شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’وفاقی حکومت کی کچھ قیمت ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اگرچہ وفاقی حکومت مسلم لیگ ن ہی بنائے گی مگر وہ چاہتی ہے کہ مشکل فیصلوں کا بوجھ دیگر جماعتیں بھی برداشت کریں کیونکہ انھیں پہلے ہی پی ڈی ایم اتحاد میں حکومت کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔
انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں صوبوں میں اس لیے حکومت بنانا چاہتی ہیں کیوں کہ صوبوں میں وسائل اور پیسے زیادہ ہیں۔ صوبائی وزرا اعلیٰ، وزیر اعظم سے زیادہ بااختیار اور طاقتور ہیں۔ زیادہ تر ترقیاتی منصوبے اور فنڈز صوبوں کے پاس ہیں جیسا کہ رواں برس این ایف سی کے تحت پنجاب کو تقریباً 11 سو ارب ملیں گے۔
انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر اتنی صلاحتیں پیدا کرنی چاہییں کہ وہ وفاق میں حکومت کر سکیں۔ انھوں نے کہا کہ نواز شریف آج تو سب کو حکومت کا کہہ رہے ہیں لیکن نو فروری کی تقریر میں انھیں پی ٹی آئی کو وفاق میں ساتھ حکومت بنانے کی دعوت دینی چاہیے تھی، وہ سینیئر سیاستدان ہیں انھیں آگے بڑھ کر لیڈ کرنا اور ملک کو مشکل حالات سے نکالنا چاہیے۔
Getty Imagesجمعیت علمائے اسلام نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے’کمزور پارلیمانی نظام میں حکومت کا وجود بننے سے پہلے ہی خطرے‘
سینیئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے بالکل ایسا تاثر دیا گیا ہے کہ وہ وفاق میں حکومت بنانے سے گریزاں دکھائی دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی کچھ وجوہات اور عوامل تو بہت واضح ہیں جن میں مہنگائی، خراب معاشی صورتحال، آئی ایم ایف سے معاہدہ، بجلی، گیس و پیٹرول کی قیمتیں وغیرہ شامل ہیں۔
عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ اگرچہ عسکری حلقوں نے ایک اعلامیہ کے ذریعے یہ کہا ہے کہ ملک میں ایک قومی حکومت بنائی جائے مگر سیاسی پارٹیاں اس پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال ملک کے پارلیمانی نظام اور جمہوریت کے لیے سود مند نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین وہ وفاق میں آ کر سخت فیصلوں کی ذمہ داری لینے سے گریزاں ہیں۔
تو اس کمزور پارلیمانی نظام میں حکومت سازی کا معاملہ کتنی طوالت اختیار کرے گا؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے تبصرہ کیا کہ اس کا حل یہ ہے کہ حکومت سازی کے عمل سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو قومی معاملات پر اکٹھا ہونا ہو گا، معاشی معاملات سے متعلق ایک قومی اتفاق رائے کرنا ہو گا، کسی معاہدے پر پہنچنا ہو گا جس کے تحت معاشی فیصلوں کی ذمہ داری سب پر عائد ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرف دور کے بعد بھی پاکستان کو ایسی صورتحال کا سامنا تھا مگر اس وقت معاشی بحران اتنا سنگین نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ جو جماعتیں اس عمل میں شامل نہیں ہوتیں ان کو تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جائےکیونکہ اگر ان معاملات پر بات نہیں ہوتی تو پہلے سے ہی کمزور پارلیمانی نظام میں اس حکومت کا وجود بننے سے پہلے ہی خطرے میں ہو گا۔
الیکشن 2024: نتائج بدلنے کے الزامات اور جمہوریتڈیموکریسی انڈیکس 2023: پاکستان کا شمار ’آمرانہ نظام‘ والے ممالک میں، جمہوریت میں مزید تنزلی کی وجوہات کیا ہیں؟