جے یو آئی کی پارلیمانی سیاست سے ممکنہ دستبرداری کی دھکمی: مولانا فضل الرحمان کے ’غصے‘ کی وجہ کیا؟

بی بی سی اردو  |  Feb 15, 2024

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی جماعت کی مجلس عاملہ و صوبائی امرا و نظما کے اجلاس کے بعد گذشتہ روز اعلان کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں میں بیٹھیں گے۔

بدھ کو ایک پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمان نے نہ صرف انتخابی نتائج کو مسترد کیا بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن کو بھی اپوزیشن بینچز پر بیٹھنے کی دعوت دی۔

مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ نے 8 فروری 2024 کے انتخابی نتائج کو مجموعی طور پر مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال بن رہا ہے اور یہ کہ ’جے یو آئی سمجھتی ہے کہ پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ جے یو آئی نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا کہ ’اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن صاف شفاف ہوئے ہیں تو پھر اس کا معنی ہے کہ فوج کا نو مئی کا بیانیہ دفن ہو چکا اور عوام نے ان کے غداروں کو مینڈیٹ دیا ہے۔‘

خیال رہے مولانا فضل الرحمان کی جماعت ابتدائی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں دو نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی تاہم بعد میں جو یو آئی کی نشستوں میں مزید دو کا اضافہ تب ہوا جب نتائج تاخیر کا شکار ہوئے۔

جے یو آئی قومی اسمبلی میں مجموعی طور پر چار، بلوچستان اسمبلی میں 11 اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں سات نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

جے یو آئی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ مرکزی مجلس عاملہ نے جے یو آئی کی مرکزی مجلس عمومی کو سفارش کی ہے کہ وہ جماعت کی پارلیمانی سیاست کے بارے میں فیصلہ دے کہ جے یو آئی مستقل پارلیمانی سیاست سے دستبردار ہو تاکہ عوامی جدوجہد کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک ماحول میں عوام کی حقیقی نمائندگی کی حامل اسمبلیوں کے انتخابات ممکن ہوسکیں۔

واضح رہے کہ مجلس عاملہ 13 افراد پر مشتمل فورم ہے، جس میں مرکزی امیر سمیت سینیئر رہنما شامل ہوتے ہیں جبکہ مجلس عمومی ایک ایسا فورم ہے جس کے 1500 ارکان ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رکن 3000 ووٹ کے بعد مجلس عمومی کا رکن بنتا ہے اور پھر ان میں سے بہترین 40 لوگ مرکزی مجلس شوریٰ کے لیے چنے جاتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اب جے یو آئی نے اس حوالے سے ہر سطح پر اجلاس طلب کر کے مشاورت کا عمل وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اب لگتا ہے کہ فیصلے ایوان کی بجائے میدان میں ہوں گے تاہم مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کہ ان کے جیتنے والے اراکین قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جمعیت علمائے اسلام اپنا پارلیمانی کردار ادا کرے گی لیکن اسمبلیوں میں شرکت تحفظات کے ساتھ ہوگی۔‘

اعلامیے کے مطابق جے یو آئی کے 22 فروری کو اسلام آباد، 25 فروری کو بلوچستان، 27 فروری کو خیبر پختونخوا، 3 مارچ کو سندھ جبکہ 5 مارچ کو پنجاب کی مجالس عمومی کے اجلاس ہوں گے، جس میں جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مرکزی و صوبائی قیادت شرکت کرے گی۔

بی بی سی نے مذہبی امور کے ماہرین سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ کیا جے یو آئی واقعی پارلیمانی سیاست سے دوری اختیار کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر اس کے ملک کی مجموعی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

Getty Images’جے یو آئی سیاست سے پیچھے ہٹی تو پھر زیادہ سخت گیر گروہ سامنے آئیں گے‘

یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں سینٹر فار مسلم سٹیٹس اینڈ سوسائیٹیز کی ڈائریکٹر پروفسیر ثمینہ یاسمین نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر جے یو آئی پارلیمانی سیاست سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر ان سے سخت مؤقف رکھنے والے گروہوں کے لیے سیاست میں جگہ بنے گی۔ ان کے مطابق پاکستان مرکزی مسلم لیگ اور تحریک لبیک پاکستان جیسی جماعتیں اس خلا کو پُر کر سکتی ہیں، جس کے ملک پر منفی اثرات ہوں گے۔

ان کے مطابق ابھی جے یو آئی کے اعلامیے سے یہ نہیں پتا چلتا کہ وہ پارلیمانی نظام سے دل گرفتہ کیوں ہوئے ہیں۔ ’کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مغربی طرز حکومت ہے یا پھر اب وہ صدارتی نظام لانے کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں؟‘

ثمینہ یاسمین کے مطابق تیسری صورت یہ ہے کہ یہ جماعت اس نتیجے پر پہنچی ہو کہ ہم سرے سے اس موجودہ نظام سے متفق ہی نہیں۔ ان کی رائے میں ایسی صورت میں جے یو آئی اپنی اہمیت اور مقام کھو دے گی کیونکہ پھر زیادہ سخت گیر گروہ آگے آ جائیں گے۔

ثمینہ یاسمین یہ سمجتھی ہیں کہ ’جے یو آئی والے سیاست سے مکمل نہیں نکل جائیں گے بلکہ کسی نہ کسی سرگرمی میں تو رہیں گے۔‘

ان کی رائے میں ’اکثر لوگ صدمے کی حالت میں بھی ایسی باتیں کرتے ہیں۔‘ وہ اس بات سے متفق نہیں کہ جے یو آئی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے پلان تیار کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے تو اور بھی پلان ہوں گے جو شاید کامیاب نہ ہوئے ہوں۔

ان کی رائے میں اب نوجوان نسل اپنے آپ کو مولانا فضل الرحمان اور جے یو آئی سے جوڑنے کی بجائے عمران خان اور اس طرح کے دیگر رہنماؤں کی طرف دیکھتی ہے۔

ان کے مطابق نوجوان اسلامی بیانیے سے متاثر ضرور ہیں مگر وہ جے یو آئی اور مذہبی رہنماؤں سے متاثر نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان مذہبی گروہوں کو عام انتخابات میں بھی زیادہ پزیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔

ان کے مطابق اس وقت عمران خان کی طرف بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد اس وجہ سے مائل ہے کہ وہ ماڈرن بھی لگتے ہیں اور اسلامی باتیں بھی کرتے ہیں۔

AFP’سیاسی شور شرابے کے باوجود جے یو آئی کے اراکین پارلیمنٹ کا ہی رخ کریں گے‘

تجزیہ کار عامر ہزاروی جے یو آئی اور مذہبی جماعتوں کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے سنہ 1997 میں بھی یہ دھمکی دی تھی کہ وہ سیاست سے جُدا ہو جائیں گے۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی طور پر شور شرابا ضرور ہوگا مگر پھر جے یو آئی کے ارکان پارلیمنٹ کا ہی رخ کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ بلوچستان میں وہ حکومت کا حصہ بھی ہوں۔

ان کے مطابق اعلامیے میں قیادت کی ناراضی اپنی جگہ مگر ’جے یو آئی کارکن اس بات پر مطمئن ہیں کہ مولانا پشین سے جیت کر پارلیمنٹ تک پہنچ گئے ہیں۔‘

مذہبی رہنما یا سیاسی جادوگر، مولانا آخر ہیں کون؟جے یو آئی میں ’الیکٹیبلز‘ کی شمولیت: کیا بلوچستان کی سیاسی بساط پر مولانا فضل الرحمان کی پوزیشن بہتر ہو رہی ہے؟سیاست کے کھیل کا بارہواں کھلاڑیپارلیمانی نظام سے دستبرداری کی دھکمی کے پیچھے وجہ کیا ہے؟

ثمینہ یاسمین کہتی ہیں کہ جے یو آئی سیاست میں ہی رہے گی۔ ان کی رائے میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت تو رہتی ہے مگر بظاہر اس دفعہ سب تدبیریں الٹی ہو گئی ہیں۔ ان کے مطابق اس سارے کھیل میں جے یو آئی کو زیادہ نقصان پہنچا اور اس وجہ سے غصہ بھی زیادہ ہے۔

ان کے مطابق جے یو آئی ایک پرانی سیاسی جماعت ہے۔ وہ غیرسیاسی رویے اختیار نہیں کرے گی۔

مذہبی جماعتوں سے متعلق ایک تحقیقاتی ادارے ’انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور‘ کے سربراہ اسرار مدنی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جنوبی ایشا میں مذہبی جماعتوں کا کردار ہمیشہ سے ہی زیر بحث رہتا ہے اور خاص طور پر ہمارے خطے میں اس بحث نے خاصا زور پکڑا۔‘

ان کے مطابق مذہبی جماعتیں ایک خاص ٹرانزیشن سے گزرتی ہیں جیسے جماعت اسلامی ایک ’ٹرانزیشن‘ سے گزری اور اس سے کئی اہم رہنما جدا ہوئے، جیسے ڈاکٹر اسرار وغیرہ۔

ان کے مطابق ’اسی طرح جے یو آئی سے کئی گروپ اور رہنما علیحدہ ہوئے، جو اس پارلیمانی نظام سے متفق نہیں۔‘

اسرار مدنی کے مطابق داعش اور تحریک طالبان طرز کے گروہوں کا لٹریچر ابھی بھی جمہوریت کے خلاف تحریروں پر مبنی ہے۔

ان کے مطابق ’افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد جے یو آئی کی صفوں میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے کہ ہم تبدیلی پارلیمانی نظام کے ذریعے نہیں لا سکتے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ پارلیمانی نظام کو چھوڑ کر جدوجہد کرنی چاہیے۔‘

ان کے مطابق ان گروہوں میں ابھی بھی جمہوریت کو کفر، ووٹ ڈالنے کو گناہ اور بین الاقوامی معاہدات تک کو دھوکہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان میں کچھ شدت پسند اور کچھ غیر شدت پسند گروہ بھی موجود ہیں، جو خلافت وغیرہ کی بات کرتے ہیں۔‘

’وہ تنظیمیں جو پارلیمانی نظام کا حصہ نہیں، نے ان انتخابات کے بعد اس نظام پر یقین رکھنے والوں کا مذاق اڑایا‘

اسرار مدنی کا کہنا ہے کہ ’وہ تنظیمیں جو پارلیمانی نظام کا حصہ نہیں، نے ان انتخابات کے بعد اس نظام پر یقین رکھنے والوں کا بہت مذاق اڑایا۔‘

ان کے مطابق جو لوگ جماعت اسلامی یا جے یو آئی سے علیحدہ ہوئے چاہے انھوں نے مسلح جدوجہد کی یا پرامن رستے کا انتخاب کیا مگر وہ بالکل بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

ان کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے جب قبائلی علاقوں میں قدم جمائے تو پھر سب سے زیادہ تکالیف اور قربانیاں بھی جے یو آئی کو دینا پڑیں کیونکہ اس جماعت نے ان کے طریقہ کار سے اختلاف کیا تھا۔

ان کے مطابق اس کے بعد ٹی ٹی پی نے جنوبی وزیرستان سے مولانا نور محمد کو ہدف بنایا اور جان سے مار دیا۔ پھر انھوں نے مولانا حسن جان کو قتل کیا اور اسی طرح لکی مروت کے مہتمم تک اسی انتہا پسندی کی نظر ہوئے۔

’قیادت سیاسی جدوجہد پر ہی یقین رکھتی ہے‘

اسرار مدنی کا کہنا ہے کہ ’قیادت کی سطح پر یہ وضاحت ہے کہ سیاسی جدوجہد کرنی ہے مگر ایسا غیر روایتی طبقہ بھی جے یو آئی میں موجود ہے جو اس طرح کے سوالات اٹھاتا ہے اور پھر اسے زیر بحث لے کر آتا ہے۔‘

ان کی رائے میں ’جے یو آئی کی مرکزی قیادت کا طرز عمل جمہوری ہے۔‘

اسرار مدنی کے مطابق افغانستان کا بیانیہ جے یو آئی کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اس جماعت کی اکثریت بھی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں موجود ہے۔

ان کی رائے میں ماضی میں مشکل حالات میں بھی جے یو آئی ادھر ادھر نہیں ہوئی تو اب بھی سیاست سے دوری اختیار کرنا جے یو آئی کی ترجیح میں شامل نہیں۔

اسرار مدنی کے مطابق کچھ عرصے قبل جب تحریک انصاف کے دور میں مقامی سطح کے انتخابات ہوئے تو جے یو آئی نے متعدد شہروں میں تحریک انصاف کو شکست دی تھی اور اس کے میئر اور ڈپٹی میئر تک بنے۔

ان کے مطابق اب اگر تحریک انصاف کو کامیابی ملی ہے تو زیادہ سے زیادہ جے یو آئی اپوزیشن میں بیٹھ جائے گی مگر اس سے زیادہ کوئی اقدام لیتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

فوری انتخابات: ’گدلے پانی سے نکل کر دوبارہ گدلے پانی میں اُترنا کوئی معقول بات نہیں‘جے یو آئی میں ’الیکٹیبلز‘ کی شمولیت: کیا بلوچستان کی سیاسی بساط پر مولانا فضل الرحمان کی پوزیشن بہتر ہو رہی ہے؟مذہبی رہنما یا سیاسی جادوگر، مولانا آخر ہیں کون؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More