آزاد امیدواروں کی ’سرپرائز انٹری‘ اور جوڑ توڑ: ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Feb 12, 2024

ابتدا میں طاقت کے ایوانوں میں یہی حقیقت تسلیم ہونے میں کچھ وقت لگا ہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی کی زیادہ تر نشستوں پر کامیاب ہو چکے ہیں۔

تاہم پولنگ کے چار روز بعد بھی یہ نہیں پتا لگ پا رہا کہ کون سی جماعت وفاق میں حکومت بنائے گی اور ملک کا اگلا وزیراعظم کون ہو گا۔

تاہم اس دورانیے میں سیاسی جماعتوں، بالخصوص پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے سیاسی جوڑ توڑ کی کوششیں شروع کر دی ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف بھی اس موقع پر اتحاد بنانے سمیت دیگر آپشنز پر غور کر رہی ہے۔

پاکستان میں حکومت سازی سے متعلق لائحہ عمل آئین اور الیکشن ایکٹ میں طے ہے۔

یہ مرحلہ سمجھنے سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں کیا کر رہی ہیں اور ان کے پاس کس قسم کے آپشنز موجود ہیں۔

کون سی پارٹی کس پارٹی کے ساتھ مل سکتی ہے؟

انتخابی نتائج کے مطابق اس وقت کسی جماعت کے پاس اتنی سیٹیں نہیں ہیں کہ وہ خود تنہا ہی حکومت بنا لے یا سادہ الفاظ میں کوئی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی ہے۔

قومی اسمبلی میں تینوں جماعتوں (ن لیگ، پی پی پی اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں) کی حاصل کردہ نشستوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمان میں مطلوبہ عددی برتری حاصل کرنے کے لیے ان تین میں سے دو جماعتوں کو مل کر چلنا ہو گا۔

وفاق میں حکومت بنانے کے لیے 169 سیٹیں درکار ہوں گی۔

بظاہر سب سے بڑا آپشن یہی نظر آ رہا ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مل کر حکومت سازی کریں گے مگر دوسری جانب سیاست میں کچھ اٹل نہیں اور کل کے ’سیاسی دشمنوں‘ کا مل بیٹھنا شاید بعید از قیاس نہ ہو!

آپشن ون: پی ٹی آئی + ایم کیو ایم

پی ٹی آئی چھوٹی جماعتوں کی جانب بھی جا سکتی ہے۔ مگر اس صورت میں اسے ایک سے زائد جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانا ہو گا۔

ایک امکان جو زیر غور ہے وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار مخلوط حکومت بنانے کی کوشش میں کسی چھوٹی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ تحریک انصاف کی نشستوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے اور حاصل کردہ جنرل نشستوں کی بنیاد پر خواتین اور اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔

تاہم لمز کی پروفیسر اسما فیض کا کہنا ہے کہ اس بات کا ’بہت زیادہ امکان نہیں‘ کہ پی ٹی آئی مخلوط حکومت بنا سکے گی کیونکہ چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی انھیں درکار عددی اکثریت سے محروم رکھے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے لیے ان چھوٹی جماعتوں تک پہنچنے کا کوئی عددی فائدہ نہیں ہے، ماسوائے اس کے کہ کسی پارٹی میں قدم جمانے کی قانونی ضرورت ہو۔‘

فرض کریں پی ٹی آئی، متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کرتی ہے۔ ایسی صورت میں دونوں جماعتوں کی کل نشستیں 109 ہو جائیں گی۔

اس کے بعد انھیں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں گی۔ پاکستانی قوانین کے مطابق ہر تین اعشاریہ پانچ جنرل سیٹوں کے مقابلے میں خواتین کی ایک مخصوص نشست کسی بھی پارٹی کو الاٹ کی جاتی ہے۔

مگر اس صورت میں بھی پی ٹی آئی کے پاس واضح برتری نہیں ہو گی۔ سو آپشنز بہت ہیں اور ناممکن کچھ نہیں۔

آپشن ٹو: ن لیگ + پی پی پی

انھی آپشنز پر غور کے لیے سیاسی جماعتیں رابطے کر رہی ہیں۔ کہیں کہیں کنفیوژن بھی ہے۔ مثلاً مسلم لیگ (ن) کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے ان کے ساتھ حکومتی اتحاد میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی نے اس تاثر کو قطعی طور پر رد کیا۔

مسلم لیگ نواز نے اتوار کو متحدہ قومی موومنٹ کے وفد سے بھی ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے بیان دیا کہ ان کی جماعت اور ایم کیو ایم کے درمیان مل کر چلنے پر اصولی اتفاق ہو گیا ہے۔

البتہ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا‘ کہ ان کی جماعت مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہی بیٹھے گی۔

جہاں ایک طرف مسلم لیگ ن نہایت تیزی کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہے وہیں پاکستان پیپلز پارٹی پھونک پھونک کر قدم رکھتی دکھائی دیتی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری اتوار کو بھی لاہور میں موجود تھے جہاں انھوں نے مسلم لیگ ن کے وفد جس میں شہباز شریف بھی شامل ہیں، سے ملاقات کی اور رابطہ جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔

پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما شیری رحمان نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کی اور کہا کہ ان کی جماعت کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس آج (سوموار) اسلام آباد میں ہو گا جس میں اس ضمن میں اہم فیصلے لیے جائیں گے۔

BBC

آپشن تھری: پی ٹی آئی + پی پی پی + ایم کیو ایم

ان کے مطابق اس اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ اور وفاق میں حکومت بنانے کے لیے کیا کیا آپشنز موجود ہیں اور وہ کن جماعتوں کے ساتھ بیٹھ سکتی ہے۔

اس سوال پر کہ کیا وہ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی بات چیت کو تیار ہیں، انھوں نے کہا کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی کے دروازے تمام سیاسی افراد کے لیے کھلے ہیں۔‘

اور اگر بات کی جائے پاکستان تحریک انصاف کی تو وہ اپنے اس بیانیے سے پیچھے ہٹتے نظر نہیں آتے جس پر وہ 2018 کے انتخابات میں جیت سے پہلے قائم تھے۔

بی بی سی کو اُس وقت دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا تھا کہ پارلیمان میں ایک مخلوط حکومت کا قیام بدقسمتی ہو گا۔

انھوں نے کہا تھا کہ مخلوط حکومت کمزور ہوتی ہے اور ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کے لیے ایک طاقتور حکومت کی ضرورت ہے جو بغیر کسی دباؤ کے فیصلے کر سکے۔ اور یہ بھی کہ ’وہ حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنے پر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔‘

کچھ اسی قسم کے بیانات اس بار بھی ان کی پارٹی کے رہنما ان کے حوالے سے کر رہے ہیں۔

لیکن وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ عمران خان کب یہ بیانیہ تبدیل کر دیں، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ 2018 میں بھی انھوں نے ایم کیو ایم سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی تھی۔

یہ الگ بات ہے کہ ایم کیو ایم نے تحریک عدم اعتماد کے وقت عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر ان کے مخالفین کے کیمپ میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ اب پی ٹی آئی کے رہنما یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’عمران خان نے پچھلی حکومت میں اتحادی جمع کرنے سے سبق سیکھ لیا ہے۔‘

آپشن فور: پی ٹی آئی اپوزیشن میں؟

عمران خان کے میڈیا ایڈوائزر زلفی بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قوی امکان یہی ہے کہ تحریک انصاف عددی اکثریت نہ ملنے کی صورت میں اتحاد کی بجائے حزب اختلاف کے بینچوں پر بیٹھے گی۔

انھوں نے کہا کہ اس کا دارومدار ان حلقوں میں دوبارہ گنتی پر ہے جہاں ان کے مطابق نتائج میں دھاندلی کی گئی ہے۔ زلفی بخاری نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف ایک مضبوط اپوزیشن ثابت ہو گی اور پی ڈی ایم ٹو ایک بار پھر ناکام ہو گی۔‘ انھوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کے آپشن کو بھی رد کیا ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے مقامی ٹی وی چینل کو بتایا کہ ان کی جماعت ساٹھ نشستوں کو چیلنج کر رہی ہے جہاں ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی جیت کو شکست میں بدلنے کے لیے دھاندلی کی گئی۔

پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل نے گذشتہ روز ان سے جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے پارٹی لیڈران کو کہا ہے کہ وہ دیگر آزاد امیدواروں سے رابطے کریں۔

تاہم آزاد امیدوار کیا کرتے ہیں، یہ وہ بڑا اور اہم سوال ہے جس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ضرور ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں ان امیدواروں سے رابطے کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا اپ سیٹ ہو چکا ہے اور لاہور میں این اے 121 سے کامیاب ہونے والے پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری لاہور وسیم قادر نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔

آج الیکشن کمیشن نے بھی بعض حلقوں کے نتائج روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے متعلقہ آر اوز کو نوٹس جاری کیے ہیں۔

تجزیہ کار نئے اتحاد کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار مدیحہ افضال کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت بنانا چاہتی ہے تو اسے اتحادی جماعتیں ڈھونڈنا ہوں گی۔ ’اس کا آسان ترین طریقہ تو پیپلز پارٹی ہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت پی ٹی آئی کو یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ ان کے حمایت یافتہ امیدوار ان سے علیحدہ ہو کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار نہ کریں۔‘

ان کی اسی رائے سے صحافی سرل المیدا بھی اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’پاکستان تحریک انصاف کچھ بھی کر لے، ان کے پاس عددی برتری نہیں ہے۔ ایک ہی راستہ ہے اور وہ پیپلز پارٹی ہے جو پہلے ہی مسلم لیگ ن کے ساتھ کمفرٹیبل نظر آ رہی ہے۔‘

تجزیہ کار عامر رانا سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی سب سے بڑی خواہش چوتھی بار وزیراعظم پاکستان بننا ہے اور میرے خیال میں وہ پیپلز پارٹی کو اس معاملے پر قائل کر لیں گے۔

سیاسی بارگین میں پیپلز پارٹی اس بات پر مان سکتی ہے کہ آدھی مدت کے لیے نواز شریف اور باقی مدت کے لیے بلاول بھٹو شرداری وزیر اعظم بن جائیں، جبکہ اہم عہدے جیسا کہ سپیکر، ڈپٹی اسپیکر، پھر سینیٹ الیکشن کے بعد چیئرمین سینیٹ اور اہم وزارتوں میں پیپلز پارٹی کو بڑا شیئر مل جائے۔

نئی حکومت کب بنے گی؟

اب سیاسی جوڑ توڑ، احتجاج، ملاقاتوں اور وعدوں وغیرہ کا یہ سلسلہ ہمیشہ تو نہیں چلتا رہے گا۔یہاں بھی آئین پاکستان نے ایک حد مقرر کر رکھی ہے کہ الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کے پاس کتنا وقت ہے جس میں وہ حکومت سازی کے لیے ہوم ورک مکمل کریں۔ اور پھر اسمبلیوں میں آ کر اُن وعدوں پر کام شروع کریں جو وہ ابھی ابھی عوام سے کر کے آئے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ ملکی آئین کے تحت پولنگ ڈے سے 21 دن کے اندر نئی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس بلانا ضروری ہے۔ نو منتخب قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کامیاب ارکان پہلے دن حلف اٹھائیں گے جبکہ حلف کے بعد ڈپٹی سپیکر اور پھر سپیکر کا انتخاب کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیےالیکشن 2024: کیا ایسے ہی نتائج متوقع تھے اور اب اگلا منظر نامہ کیا ہوگا؟اگر مخلوط حکومت بنی تو پرانی سیاست کرنے والی پی ٹی آئی یا ن لیگ میں سے کسی کا ساتھ نہیں دوں گا: بلاول بھٹوانتخابات کے نتائج سے مزید تقسیم کا خدشہ: ’پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا‘حکومت سازی میں الیکشن کمیشن کا کردار اور مخصوص نشستوں کی تقسیم

حکومت سازی کے عمل میں معاونت کا کام الیکشن کمیشن سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کنور دلشاد کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 95 کے تحت ریٹرننگ افسران امیدواروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ خود یا ان کے پولیٹیکل ایجنٹس فارم 45 وصول کریں اور ان کی موجودگی میں فارم 47 تیار کیا جاتا ہے۔

’پھر تین سے پانچ دن کے اندر یہ فارمز ای سی پی کو بھجوائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ فارم ۴۶ جو کہ بیلٹ پیپرز کی تعداد وغیرہ سے متعلق ہے اور فارم اڑتالیس جس میں پوسٹل بیلٹ کی تفصیل ہوتی ہے، چسپاں کیا جاتا ہے۔‘

آٹھ فروری کو انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن تمام آزاد اراکان کو آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے تحت ہدایات دینے کا پابند ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے یا آزاد رہنے سے متعلق الیکشن کمیشن کو تین دن کے اندر آگاہ کر دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے اُن کی کسی جماعت میں شمولیت کے بعد ہی پارٹیوں کو مخصوص نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں۔

مخصوص نشستوں سے متعلق یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 242 کے تحت کیا جاتا ہے۔

Getty Images

خیال رہے کہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد ۳۳۶ ہے جس میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔

ان میں بلوچستان کے لیے 16، خیبرپختنوخواہ کے لیے 45، پنجاب کے لیے 141، سندھ کے لیے 61 اور اسلام آباد کے لیے تین جنرل نشستیں مختص ہیں۔

یہاں خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوٹہ کچھ اس طرح تقسیم ہے کہ بلوچستان کے حصے میں چار نشستیں، کے پی کے پاس دس، پنجاب سے 32 اور سندھ کے لیے خواتین کی 14 نشستیں مخصوص ہیں۔ اسی طرح اقلیتوں کے لیے دس نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کی نشستوں کی یہ تقسیم صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کی سب سے کم نشستیں ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے پاس خواتین کی کوئی مخصوص نشست نہیں ہے۔

ان مخصوص نشستوں کی پارٹی میں تقسیم ان کی جانب سے کل جنرل نشستیں جیتے جانے کے اعداد پر منحصر ہے۔ یعنی جو پارٹی سب سے زیادہ جنرل نشستیں جیتے گی اس کے پاس مخصوص نشستوں کا سب سے زیادہ کوٹہ ہو گا۔

آزاد امیدواروں کو مخصوص نشستوں میں حصہ نہیں دیا جاتا۔

آئین کے آرٹیکل 223 کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابات کے بعد چودہ دن کے اندر انتخابات کے نتائج سے متعلق گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا بھی پابند ہے۔

Getty Imagesحکومت سازی کے حوالے سے آئین کیا کہتا ہے؟

حکومت سازی کیسے ہو گی اور اس کے لیے آئین کتنا وقت دیتا ہے، یہ سب پہلے سے ہی طے شدہ ہے۔

آئین اور قومی اسمبلی قواعد کے مطابق عام انتخابات کے بعد 21 دن کے اندر صدر مملکت نگران وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرتے ہیں۔

اس طرح حکومت بنانے والے کسی بھی اتحاد کو 29 فروری تک قومی اسمبلی اجلاس سے قبل حکومت سازی کے لیے ہوم ورک مکمل کرنا ہے۔

قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں نومنتخب ارکان حلف اٹھائیں گے اور سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب عمل میں آئے گا جس کے بعد قائد ایوان یعنی وزیراعظم کے الیکشن کا شیڈول جاری کیا جائے گا۔

عموماًتین دن میں قومی اسمبلی اپنے نئے قائد ایوان یعنی وزیراعظم پاکستان کو منتخب کر لیتی ہے، یوں امکان ہے کہ فروری کے آخری یا مارچ کے پہلے ہفتے میں پاکستان کے ایک نئے وزیراعظم حلف اٹھا لیں گے۔

یہ سب اس صورت میں ممکن ہے جب ملک میں کوئی نیا سیاسی بحران جنم نہ لے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کسی چھوٹی سیاسی جماعت کا حصہ بنتے ہیں یا ایسی کوئی درخواست دائر کرتے ہیں جس سے ان کے پی ٹی آئی میں رہنے کے امکان بڑھ جائیں کیونکہ قانونی ماہرین کے مطابق ان آزاد اراکین نے اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنی سیاسی وابستگی پاکتستان تحریک انصاف کے ساتھ ظاہر کی ہے۔

اسی بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف ایک اپیل دائر کر رکھی ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کی توثیق کی تھی۔ واضح رہے کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب یہ معاملہ عدالت میں ہے اور سپریم کورٹ ہی فیصلہ کرے گی کہ وہ اپنا ہی فیصلہ قائم رکھتی ہے یا بدلتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی میں بھی ایک مشکل اپوزیشن ثابت ہو سکتے ہیں اور اگر نواز شریف وزیراعظم بن بھی جاتے ہیں تو ان کے سر پر بھی تحریک عدم اعتماد کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔‘

’پی ڈی ایم 2.0‘: مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کی صورت میں کن آپشنز پر غور؟اگر مخلوط حکومت بنی تو پرانی سیاست کرنے والی پی ٹی آئی یا ن لیگ میں سے کسی کا ساتھ نہیں دوں گا: بلاول بھٹوپی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے پاس اس جیت کے بعد کیا آپشنز ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More