یہ الیکشن سے ٹھیک ایک دن پہلے کی بات ہے جب سات فروری کی شام این اے 121 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار وسیم قادر کارنر میٹنگ سے خطاب کے دوران کہتے ہیں کہ ’آٹھ فروری کی رات پورا پاکستان عمران خان زندہ باد کے نعرے لگائے گا۔‘
نو فروری کو الیکشن کے غیر سرکاری و غیرحتمی نتائج آنا شروع ہوئے تو معلوم ہوا کہ وسیم قادر نے لاہور کے ایک قومی اسمبلی کے حلقے این اے 121 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار شیخ روحیل اصغر کو کڑے مقابلے کے بعد قریب آٹھ ہزار ووٹوں سے شکست دی اور تحریک انصاف کے حامیوں کی طرف سے ان کی فتح کو پی ٹی آئی کی بڑی فتح قرار دیا گیا۔
پھر دو روز کی خاموشی کے بعد صورتحال یکسر بدل گئی جب وسیم قادر نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
گذشتہ روز مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز کے ہمراہ اپنے ایک ویڈیو پیغام میں وسیم قادر نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ پی ٹی آئی لاہور کے جنرل سیکریٹری تھے مگر ’اب میں اپنے گھر (مسلم لیگ ن) واپس آ گیا ہوں۔ اپنے علاقے کی ترقی کے لیے، اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے، میں نے دوبارہ مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔‘
وسیم قادر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار تھے اور پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کردہ اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی فہرست میں بھی اُن کا نام موجود ہے۔ وسیم کو ’وکٹ‘ کا انتخابی نشان ملا تھا۔
آزاد امیدوار وسیم قادر کی ن لیگ میں شمولیت پر تحریک انصاف اور اس سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے اور ان کا نام ناصرف پاکستان بلکہ انڈیا میں بھی ٹوئٹر ٹرینڈز میں شامل ہے۔
تاہم اس ضمن میں ہونے والی تنقید کے جواب میں مسلم لیگ ن کے آفیشل ’ایکس‘ اکاؤنٹ سے کہا گیا ہے کہ ’جب پی ٹی آئی ایسا کرتی ہے تو اسے حکمت عملی کہا جاتا ہے اور حلال کہا جاتا ہے۔‘ یاد رہے کہ وسیم قادر نے سنہ 2018 میں ن لیگ کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔
’ہم وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے خلاف عدالت جائیں گے‘
جب گذشتہ شب ’ہم نیوز‘ کے اینکر ثمر عباس نے تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر علی خان سے اس حوالے سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت کو پہلے سے اس بات کا خدشہ تھا کہ آزاد حیثیت میں انتخابات جیتنے والے دیگر پارٹیوں کا رُخ کر سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا تو اس وقت ’ہم نے اس خدشے کا اظہار الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں بھی کیا تھا۔‘
وسیم قادر کی جانب سے مسلم لیگ ن میں شمولیت پر انھوں نے کہا کہ ’یہ پہلا کیس آیا ہے، ہم اس کی تہہ تک جائیں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں کہ کوئی بھی پارٹی ایسے امیدوار سے رابطہ کرے جو کسی دوسری پارٹی کی حمایت کے باعث جیتنے میں کامیاب ہوا۔‘
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’یہ وہ لوگ تھے جو ہماری پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ زیادہ تر عہدیدار تھے، بڑے وفادار تھے۔ ان (وسیم قادر) کے کاغدات نامزدگی میں بھی لکھا تھا کہ وہ پارٹی (تحریک انصاف) سے تعلق رکھتے ہیں۔ پارٹی نے انھیں سپورٹ کیا، پارٹی کے ٹکٹ انھی کو جاری ہوئے۔‘
گوہر علی خان کے مطابق اس پر عوام میں بھی غصہ پایا جاتا ہے۔ ’ایک دن کی دوری پر آپ کسی پارٹی کا مینڈیٹ دوسری پارٹی کو دے دیں، یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ عوام اسے بہت بُرا سمجھتی ہے۔‘
جب اینکر کی جانب سے پوچھا گیا کہ اگرچہ کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا اخلاقی طور پر درست نہیں مگر اس معاملے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے، تو بیرسٹر گوہر نے کہا ’ہم ان کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔ یہ ہمارے ہی امیدوار ہیں۔۔۔ عدالت میں ہمارا یہی معاملہ زیر التوا ہے کہ یہ لوگ اس طرح آزاد نہیں کہ ان پر پارٹی کا ضابطہ اخلاق لاگو نہ ہو سکے اور انھیں اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ کسی جماعت کا مینڈیٹ لے کر آئیں اور کسی اور جماعت میں چلے جائیں۔‘
بیرسٹر گوہر نے الزام عائد کیا کہ ’کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ دباؤ ڈال کر لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کی جائیں۔ مگر ہمارے زیادہ تر امیدوار ہمارے ساتھ وفادار ہیں، وہ کہیں نہیں جائیں گے۔‘
ایک درجن آزاد امیدواروں کی مسلم لیگ ن میں شمولیت
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی حلقے سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے امیدوار اس جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں جس کے اقتدار میں آنے کا امکان ہو۔ سنہ 2018 میں بھی ایسا ہوا جب عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی حکومت بنی تھی۔
مگر اب 2024 کے الیکشن جیتنے والے آزاد امیدواروں کی طرف سے مسلم لیگ ن میں شمولیت کے اعلانات سامنے آئے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اس حوالے سے مندرجہ ذیل نام فراہم کیے ہیں:
قومی اسمبلی کے حلقے جیتنے والے امیدوار جنھوں نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی
این اے 48 سے راجہ خرم نواز شہزاداین اے 54 سے بیرسٹر عقیل ملکاین اے 146 سے ظہور حسین قریشیاین اے 189 سے شمشیر علی مزاریاین اے 253 سے میاں خان بگٹیاین اے 121 سے وسیم قادر
پنجاب اسمبلی کے حلقے جیتنے والے امیدوار جنھوں نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی
پی پی 96 سے سید ذوالفقار علی شاہ پی پی 97 سے محمد ثاقب خان چدھڑ پی پی 48 سے خرم ورکپی پی 49 سے رانا فیاضپی پی 240 سے محمد سہیلپی پی 94 سے تیمور لالیپی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے پاس اس جیت کے بعد کیا آپشنز ہیں؟’پی ڈی ایم 2.0‘: مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کی صورت میں کن آپشنز پر غور؟انتخابات کے نتائج سے مزید تقسیم کا خدشہ: ’پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا‘کیا آزاد امیدواروں کے لیے کسی پارٹی میں شمولیت ضروری ہے؟
سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو وسیم قادر کی ن لیگ میں شمولیت نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کو ایک حریف جماعت میں جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور آیا اس سے ان کے حلقے کے عوام کو بھی مایوسی ہوئی ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق کچھ لوگوں کی جانب سے گذشتہ شب وسیم قادر کی لاہور میں رہائش گاہ کے باہر احتجاج بھی کیا گیا۔
تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے پیچھے ایک آزاد امیدوار کا مقصد اپنا سیاسی کیریئر بنانا، سیاسی طور پر کسی ایک نظریے سے خود کو منسلک کرنا یا پارلیمان میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہو سکتا ہے۔
الیکشن قوانین کے مطابق جیتنے والے آزاد امیدواروں کے نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد اُن کے پاس تین دن کا وقت ہوتا گا جس دوران انھیں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ جبکہ آزاد امیدوار اس وقت تک قومی و صوبائی اسمبلی کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشتیں حاصل نہیں کر سکتے جب تک وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہ بن جائیں۔
https://twitter.com/majidsnizami/status/1756685892607959496
تاہم ایکس پر صحافی ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ’سابق ڈپٹی میئر لاہور وسیم قادر پہلے بھی مسلم لیگ ن میں تھے اور حمزہ شہباز گروپ کے روح رواں تھے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’حمزہ شہباز سے اختلافات اور تلخ کلامی کے بعد وہ ن لیگ چھوڑ گئے۔ اب مریم نواز شریف سے ملاقات کو اس تناظر میں بھی دیکھنا اہم ہے۔‘
یاد رہے کہ دسمبر 2018 کے دوران ن لیگ کے سابق رکن پنجاب اسمبلی وسیم قادر نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ ملاقات کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
تجزیہ کار مشرف زیدی کا خیال ہے کہ جو امیدوار اپنے ووٹرز کو دھوکہ دیں گے انھیں آگے جا کر حلقے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شہروں میں پی ٹی آئی کے ایسے امیدوار جنھیں لگتا ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، وہ اپنے ووٹروں کے جذبات بھڑکنے کے خدشے کو جنم دیتے ہیں۔
https://twitter.com/mosharrafzaidi/status/1756705396150899054
صحافی بلال غوری نے وسیم قادر کی 2018 کی وہ تصویر شیئر کی جس میں وہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ’جب پارٹی بدلنے کو وکٹیں اُڑانا کہا جاتا تھا۔‘
’آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعت میں شمولیت قانونی معاملہ نہیں‘
اکثر مبصرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آزاد امیدواروں کی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت قانونی معاملہ تو نہیں مگر اخلاقی معاملہ ضرور ہے۔ پارلیمانی امور کے ماہر ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس ایسا کوئی قانونی راستہ نہیں کہ وہ اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو دوسری سیاسی جماعتوں میں شمولیت سے روک سکیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پاس محض ’اخلاقی راستہ ہے جس کی سیاست میں بہت کم اہمیت ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اگر کوئی سیاسی جماعت نہیں بھی جوائن کرتے تو وہ آزاد رہ کر ایک مثال قائم کر سکتے ہیں۔
ظفر اللہ نے کہا کہ کسی آزاد امیدوار پر پارٹی ڈسپلن لاگو نہیں ہوتا۔ ’قانون میں کہاں لکھا ہے کہ حلف لیا جائے گا؟ یہ صرف اخلاقی چیز ہے۔ جیتنے کے بعد صورتحال یکسر مختلف ہوجاتی ہے۔‘
انھوں نے مثال دی کہ 2014 کے دھرنوں کے دوران کئی لوگوں نے پارٹی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے استعفے نہیں دیے تھے جبکہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بھی ان کے لوگ ٹوٹے تھے۔
وسیم قادر کون ہیں؟
پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق سنہ 2008 سے سنہ 2013 تک پی پی 114 سے ن لیگ کے رکن صوبائی اسمبلی وسیم قادر ایک تاجر ہیں جو 11 نومبر 1963 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے 1989 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن کیا اور تقریباً بیس سال ناروے میں مقیم رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ’ہاکی کے کھلاڑی ہیں اور ناروے میں بین الاقوامی امپائر کی حیثیت سے ہاکی میچوں کی نگرانی کر چکے ہیں۔‘
ان کے والد غلام قادر 1988 سے 1990 تک پنجاب اسمبلی کے رکن رہے جنھیں ’مارشل لا کے دور میں کے تحت سات سال تک قید رکھا گیا۔‘
عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور نتائج بدلنے کے الزامات: الیکشن فراڈ کیا ہے اور اس سے جمہوریت کو کیا خطرہ ہوتا ہے؟’پی ڈی ایم 2.0‘: مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کی صورت میں کن آپشنز پر غور؟انتخابات کے نتائج سے مزید تقسیم کا خدشہ: ’پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا‘رات بھر الیکشن کمیشن میں کیا ہوتا رہا اور انتخابی نتائج مرتب کرنے کا نظام کیسے ’ناکام‘ ہوا؟پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے پاس اس جیت کے بعد کیا آپشنز ہیں؟