اسلام آباد۔17جنوری (اے پی پی):نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ قومی خود مختاری کے حوالے سے عالمی قوانین موجود ہیں، ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں، 2018ءکے انتخابات پر بھی تنقید ہوئی، ملکی قوانین کے تحت ہم شفاف انتخابات کرانے کی کوشش کر رہے ہیں،کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جا رہا، لیول پلینگ فیلڈ کے مطالبے کی تشریح ہر ایک کی نظر میں مختلف ہے، لیول پلینگ فیلڈ کے نام پر ہر کوئی چاہتا ہے کہ یہ صرف اس کے لئے ہو، ایسا ممکن نہیں، آئندہ جو بھی حکومت منتخب ہوگی، اس کے لئے ملکی معیشت کی بہتری سب سے بڑا ہدف ہوگا، پاکستان کے عوام پر اعتبار ہے کہ وہ ایسی قیادت منتخب کریں گے جو اس طرح کے چیلنجز کا سامنا کر سکے گی،تنقید پر کوئی پابندی نہیں، اداروں کی کردار کشی، ان کے خلاف مہم چلانا آزادی اظہار رائے میں نہیں آتا، اس پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ بدھ کو ”بول نیوز“ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب پر نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کی فضائی حدود کی بلا سبب خلاف ورزی پر ایران سے احتجاج کیا گیا ہے اور پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور پاکستان میں تعینات ایران کے سفیر جو ان دنوں ایران کے دورہ پر ہیں، سے کہا ہے کہ وہ فی الحال واپس نہ آئیں، پاکستان اور ایران کے درمیان جاری یا متوقع دوروں کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے،یہ ابتدائی ردعمل ہے، ایران کے اس غیر قانونی اقدام کی تحقیقات ہو رہی ہیں، قومی خود مختاری کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین بھی موجود ہیں، مجاز ادارے اس پر جو بھی مناسب ردعمل ہوگا، دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں نگران وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ 2018 کے انتخابات پر بھی تنقید ہوئی، صحافیوں کا اختیار اور حق ہے کہ انہیں کوئی چیز غلط نظر آئے تو سامنے لائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی قوانین کے تحت ہم شفاف طریقے سے انتخابات کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انتخابات کرانے کی بنیادی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے اور ہم الیکشن کمیشن کی مالی، انتظامی یا سکیورٹی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جا رہا، پی ٹی آئی کے جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہیں یا ان پر الزام ہے اور وہ مفرور تھے۔انہوں نے کہا کہ کئی لوگوں کے کریمنل ٹرائلز مکمل ہو چکے ہیں، کچھ کے جاری ہیں، ان گرفتاریوں کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت ہو یا منتخب حکومت، قانون اپنا راستہ خود لیتا ہے۔ لیول پلینگ فیلڈ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ آجکل لیول پلینگ فیلڈ کی شکایت ہر ایک کر رہا ہے، پیپلز پارٹی کو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو سندھ میں لیول پلینگ فیلڈ کی شکایات ہیں، پاکستان کے اندر سیاسی کلچر ہے کہ مظلوم نظر آئیں گے تو ہمدردی کا ووٹ ملے گا۔انہوں نے کہا کہ لیول پلینگ فیلڈ کے مطالبے کی تشریح ہر ایک کی نظر میں مختلف ہے، لیول پلینگ فیلڈ کے نام پر ہر کوئی چاہتا ہے کہ یہ صرف اس کے لئے ہو، ایسا ممکن نہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 2013ءسے 2024ءتک ایک دہائی سے زائد عرصہ کے دوران پی ٹی آئی کے منصفانہ انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوئے، یہ وہ جماعت تھی جس نے سیاسی کلچر کو تبدیل کرنا تھا، عدالتی فیصلے سے ایک نظیر قائم ہوئی ہے کہ جماعتوں کے اندر انتخابات اور جمہوری رویئے ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ اپنی جماعت کے اندر جمہوریت کے لئے تیار نہ ہوں وہ ملک میں کیا جمہوریت لائیں گے؟ 2013ءکے عام انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے جس پر دھاندلی کے الزامات لگے، پی ٹی آئی کا یہ معاملہ ایک دہائی سے زیادہ پرانا ہے، دوسری سیاسی جماعتوں میں سے کوئی اس طرح کی شکایت الیکشن کمیشن لے کر نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی جماعت کے اندر جمہوریت نہ ہو اور وہ ملک کے اندر جمہوریت کی دعویدار بنے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات پر کچھ لوگوں کے تحفظات ہوتے ہیں، یہ غیر معمولی بات نہیں، کچھ لوگوں کا مفاد ہے کہ وہ بے یقینی پھیلائیں۔انہوں نے کہا کہ نگران کابینہ نے 17 اگست 2023ءکو حلف اٹھایا اور اس کے بعد سے ہم مستقل مزاجی سے کہہ رہے ہیں کہ انتخابات الیکشن کمیشن کی دی گئی تاریخ پر ہوں گے، الیکشن کمیشن کی طرف سے تاریخ کے اعلان کے بعد ہم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ انتخابات جمعرات 8 فروری 2024ءکو ہوں گے، اس حوالے سے کسی کے ذہن میں شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جس دن نگران کابینہ نے حلف اٹھایا اس دن انٹر بینک میں ڈالر کی قدر 296 روپے تھی اور اوپن مارکیٹ میں قیمت 350 تھی، یہ کہا جا رہا تھا کہ ڈالر کی قدر 500 سے اوپر جائے گی، آج ڈالر کی قدر 280 سے نیچے ہے۔انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کیا، ہم نے آئی ایم ایف کے دیئے گئے ٹارگٹ سے زیادہ کام کیا، ہمارا وعدہ ہے کہ جس حالت میں ملک ملا تھا اس سے بہتر حالت میں ملک کے منتخب نمائندوں کو دے کر جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ جو بھی حکومت منتخب ہوگی، اس کے لئے ملکی معیشت کو بہتر کرنا سب سے بڑا ہدف ہوگا، ملک کو سیاسی عدم استحکام، عدم برداشت، گورننس کی بہتری، خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کے استحکام جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان کے عوام پر اعتبار ہے کہ وہ ایسی قیادت منتخب کریں گے جو اس طرح کے چیلنجز کا سامنا کر سکے گی۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ تنقید پر کوئی پابندی نہیں، فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن اداروں کی کردارکشی، ان کے خلاف مہم چلانا آزادی اظہار رائے میں نہیں آتا، اس پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔