Getty Images
جمود کو توڑنے کی یہ خواہش تو خوب ہے مگر اب یہ کاوش انتشار میں بدلتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ پاکستان یہاں اس جمود کو توڑنے میں منہمک ہے جو شاید سرے سے کہیں موجود ہی نہیں تھا۔
چونکہ یہ منیجمنٹ نئی ہے اور قیادت بھی نئی، تو کچھ نیا کرنے کی ایک منھ زور خواہش جڑ پکڑ چکی ہے۔ حالانکہ کچھ نیا کیے بغیر بھی یہ ٹیم اپنے پرانے رسوم و قیود پہ چل کر ہی ان نتائج کو ٹال سکتی تھی۔
ٹی ٹوئنٹی میں پاور پلے وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں عموماً میچ کا پلڑا متعین ہو جاتا ہے۔ شاہین آفریدی نے یہاں ٹاس جیت کر پھر بولنگ کو ترجیح بھی اسی بنا پر دی تھی کہ نئی گیند سے سوئنگ کھوجیں گے اور اس مضبوط کیوی بیٹنگ لائن کو لاچار کر چھوڑیں گے جو مچل سینٹنر کی واپسی سے مزید قوت پکڑ چکی تھی۔
لیکن نئی گیند کی سوئنگ بھی تبھی کار آمد ہو سکتی ہے جب گیند اس بہترین جگہ پہ گرائی جائے جہاں سے بلے باز کے لیے ہاتھ کھولنا دشوار ہو۔
Getty Images
پاکستانی بولنگ البتہ خود ہی وہاں جا گری جہاں سے فن ایلن کے لیے سب کچھ سہل ہوتا چلا گیا۔
پاکستانی تھنک ٹینک کی پلاننگ کا نمایاں نقص یہ رہا کہ وہ فن ایلن کی قوت بھانپنے سے قاصر رہی اور جو ان کی پسندیدہ لائن تھی، وہیں انھیں تر نوالے فراہم کرتی چلی گئی جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایلن بازی لے اڑے۔
ٹی ٹونٹی میں سپنرز کا کردار کلیدی ہوا کرتا ہے کہ پاور پلے کی مارا ماری کے فوری بعد رنز کے بہاؤ کو مسدود کریں تاکہ حریف ٹیم اپنے اہداف سے کچھ پیچھے بھٹکنے لگے۔ مگر اسامہ میر تاحال اس تعریف پہ پورا نہیں اتر پائے۔
Getty Images
اس کھیل میں مارجن اس قدر مختصر ہوتے ہیں کہ ذرا سی بھی خطا سارے رن ریٹ اور حساب کتاب کو تہس نہس کر سکتی ہے۔ اسامہ میر کی بولنگ میں بھی وہ بد نظمی تھی کہ جس کی بدولت کیوی بیٹنگ کو ایک آسان ہدف مہیا ہو گیا جسے نشانہ بنا کر وہ پلڑا اپنے حق میں جھکاتے چلے گئے۔
گو ڈیتھ اوورز میں پاکستانی بولنگ نے مثالی ڈسپلن کا مظاہرہ کیا اور حارث رؤف بھی اپنے بہترین پہ امڈ کر آئے لیکن تب تک میچ کیویز کے حق میں جھک چکا تھا کیونکہ پہلے دس اوورز میں وہ ڈسپلن پاکستانی اٹیک سے یکسر عنقا تھا۔
جبکہ اس کے برعکس کیوی بولنگ پہلے ہی اوور سے اس ڈسپلن پہ کار بند نظر آئی۔ ساؤدی آگاہ تھے کہ تجربات کے ہنگام یہ بیٹنگ لائن اپنی استعداد سے دو قدم آگے چلنے کی کوشش کر رہی ہے، سو وہ اسی کو اپنا ہتھیار بنا کر چلے اور پاکستان کے پلان نابود کرتے چلے گئے۔
سوشل میڈیا کے ٹرینڈز اور فینز کی وائب پہ فیصلہ سازی کی بدولت بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ پارٹنرشپ کو علیحدہ کر کے یہ واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ یہ پاکستانی ڈریسنگ روم جارحیت کو استحکام پہ فوقیت دے رہا ہے۔
Getty Images
لیکن جارحیت تبھی بار آور ہو سکتی ہے اگر وہ یکسر بے مغز نہ ہو۔ اور استحکام اگرچہ کبھی کبھار افسردہ نتائج پیدا کرتا ہے مگر بے معز جارحیت پے در پے مایوس نتائج کی پیداوار میں خود کفیل ہوا کرتی ہے۔
پاکستان کے سبھی بلے باز بھی جارحیت کی دوڑ میں ایک ہڑبڑاہٹ کا شکار نظر آئے گویا اپنے فطری کھیل سے ماسوا کچھ ثابت کرنے کا دباؤ ان پہ ٹھونس دیا گیا ہو۔ ایسی منصوبہ سازی کسی فرنچائز میچ یا نو آموز بولنگ کے خلاف تو موثر ہو سکتی تھی، اس کیوی اٹیک کے سامنے ہرگز نہیں۔
یہ دلیل بجا ہے کہ ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے پاکستان مختلف تجربات کے عمل سے گزر رہا ہے اور تجربات کے عمل میں کئی ناکامیوں کا بوجھ اٹھانا بھی ناگزیر ہوا کرتا ہے۔ لیکن ان تجربات کے موثر ہونے کو ضروری ہے کہ فیصلہ سازی خالص کرکٹنگ وجوہات کے بل پہ کی جائے، نہ کہ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کو پیشوا مان لیا جائے۔