اسلام آباد۔7جنوری (اے پی پی):نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ نومئی کے واقعات کی تحقیقات جاری ہیں ، ان واقعات میں ملوث لوگوں کو قانون کے مطابق سز ا ملنی چاہئے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کیا۔ نگران وزیراعظم کے طور پر اپنے انتخاب کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے قائد ایوان اور قائد حزب اخلاف نے میرے نام پر اتفاق کیا۔وزیراعظم ہائوس کی جانب سے مجھ سے رابطہ کیا گیا تھا کہ بطور نگران وزیراعظم میرے نام پر اتفاق ہوا ہے ۔ 9 مئی کے ذمہ داروں کے فوجی ٹرائل کے بارے میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ اس حوالہ سے کہا جاتا رہا کہ نہیں ہونے چاہئے لیکن اب اس کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ ذمہ داروں کے فوجی ٹرائل ہونے چاہئیں ۔انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے ۔کاغذات نامزدگی مسترد ہونے یا سیاسی رہنمائوں کے روپوش ہونے کے سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بہت سے لوگ جو روپوش ہیں ، وہ 9 مئی کے الزامات کے حوالہ سے روپوش ہیں، اگر انہوں نے قانون کا سامنا کیا ہوتا اور قانون کے سامنے سرنڈر کیا ہوتا تو ان کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے جو قانونی عمل ہے۔انہوں نے کہا کہ جب ملزمان خود کو قانون کے سامنے پیش نہیں کریں گے تو ان کی سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹیں سامنے آئیں گی۔ انہوں نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے کون سی راہ اپنانی ہے۔ نگران وزیراعظم نے کہا کہ ایسی کوئی چیز ہوگی تو الیکشن کمیشن اپنا کردار ضرور ادا کرے گا۔ انتخابات کے نتائج اور حکومت کی منتقلی کے حوالہ سے نگران حکومت کے ردعمل کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کے عوام نے کرنا ہے۔وہ جو بھی فیصلہ کریں گے آئینی طور پر حکومت بنانے والی جو بھی جماعت ہوگی اس کو حکومت منتقل کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی حکومت بنے گی ہم اس کو اقتدار منتقل کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کسی سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ انتخابات ہونے ہیں ،اس طرح کی افواہیں انتخابی نتائج کے بعد خود بخود ختم ہوجائیں گی اور بے یقینی ختم ہوجائے گی۔ بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جہاں جہاں اختلافات پیدا ہوئے وہاں پر بات چیت اور جنگ کے ذریعےتنازعات کے خاتمہ کی کوشش کی گئی۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان کی صورتحال بھی ضرور بہتر ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ بنیاد یہ ہے کہ بلوچستان میں چند مسلح تنظیمیں تشدد پر مائل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ جتنی بھی تنظیمیں ہیں ان کو امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور چین کے اداروں نے ان کودہشت گرد قرار دے رکھا ہے ۔ یہ تمام ممالک ان کو دہشت گرد تسلیم کرتے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ پورے ملک میں دہشتگردی میں 90 ہزار لوگ مارے جاچکے ہیں ۔انہوں نےکہا کہ نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ اے پی ایس کا سانحہ ہوا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ شہید ہوئے، عام لوگ، سیاستدان شہید ہوئے، بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں۔ اس کے علاوہ کئی اہم افراد شہید ہوئے لیکن ابھی تک انکے قاتلوں کو سزا نہیں دی جاسکی ۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے ضرور ی قانون سازی پارلیمنٹ کاکام ہے۔ ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں بہتری کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہئے، ایک اصول ووٹ کے ذریعے حکومت کی تبدیلی ہے جبکہ طاقت کے زور پر حکومت حاصل نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ حکومت بنانے کے لئے جو مروجہ طریقہ کار ہے وہ ووٹ کا ہے ، جس کے ذریعہ حکومت تبدیل کی جائے اور پرامن انتقال اقتدار ہو ۔ انہوں نے کہاکہ اس کے ساتھ ساتھ اس نظام نے کارکردگی بھی دکھانی ہے ،ہمیں جمہوری اصولوں کو دیکھنا ہو گا ۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ میں مکمل جمہوری نظام کا حامی ہوں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپ میں جمہوری عمل نے ایک طویل سفر طے کیا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت سی جگہوں پر ہم فوج سے مدد لیتے ہیں ، جس میں معاشی ، ڈیٹابیس ، سپیس ٹیکنالوجی ، تعلیم وغیرہ کے مسائل شامل ہیں ۔ ایس آئی ایف سی کے حوالہ سے انہوں نے کہاکہ یہ کونسل بنائی ہی وزیراعظم کےلئے گئی ہے جس میں ملک کے تمام اداروں کے نمائندے موجود ہیں ۔جو سرمایہ کاری کے حوالہ سے وزیراعظم کو آگاہ کر سکتے ہیں اور وزیراعظم ایک بہتر فیصلہ کر سکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ معیاری معلومات کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ ہی بہتر ہوتا ہے ۔اپنی پسندیدہ گلو کارہ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب پر نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ بیگم اختر فیض آبادی میری پسندیدہ گلو کارہ ہیں ۔ابتدائی زندگی کی مشکلات اور تعلیم کے حصول کے بارے میں سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میری زندگی میں چیلنجز رہے اور جدوجہد جاری رہی۔ اللہ نے مجھ پر اپنا کرم رکھا ، مجھے زندگی میں اچھے دوست ملے، ایسے رشتہ دار ملے جنہوں نے مختلف مواقع پر جگہ جگہ جہاں مجھے رہنمائی کی ضرورت تھی اپنا کردار ادا کیا۔اس کے علاوہ مجھے بہت اچھے اساتذہ ملے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ میری زندگی میں میرے اساتذہ مجھ پر مہربان رہے۔ اساتذہ میں کیڈٹ کالج میں رانا امان اللہ مرحوم میرے ہائوس ماسٹر تھے، جنہوں نے میرے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔