اسلام آباد۔29دسمبر (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کو بتایا گیا کہ ہر سال مختلف گیس فیلڈز کے ذخائر سے 10 فیصد سے زائد گیس کم ہو جاتی ہے جبکہ گیس کی طلب میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، سوئی سدرن گیس لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) کو گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال 90 ایم ایم سی ایف ڈی کم گیس مل رہی ہے، یہ کمی گزشتہ 8 سے 10 سال سے مسلسل جاری ہے جس کے لئے ایک جامع منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ پالیسی کی جانچ پڑتال کی جاسکے، وزارت کے افسران نے ایل پی جی کے نرخوں پر بریفنگ دی اور وضاحت کی کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا ) پروڈیوسرز، مارکیٹنگ کمپنیوں(ایم سیز) اور صارفین کے لئے ایل پی جی کی قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔جمعہ کو سینیٹ سیکرٹریٹ کے میڈیا ڈائریکٹوریٹ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس سینیٹر محمد عبدالقادر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ کمیٹی اراکین نے صوبہ سندھ کے صنعتی یونٹس میں ہفتے میں دو دن گیس کی فراہمی معطل کرنے پر تبادلہ خیال کیا جس سے صنعتی پیداواری نقصان 28 فیصد تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ سپلائی کی تکمیل میں تاخیر بھی ہوتی ہے۔ وزارت توانائی(پیٹرولیم ڈویژن)کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہر سال مختلف گیس فیلڈز کے ذخائر سے 10 فیصد سے زائد گیس کم ہو جاتی ہے جبکہ گیس کی طلب میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ سوئی سدرن گیس لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) کو گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال 90 ایم ایم سی ایف ڈی کم گیس مل رہی ہے۔وزارت توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے سیکرٹری محسن آغا نے مزید کہا کہ یہ کمی گزشتہ 8 سے 10 سالوں سے مسلسل جاری ہے اور وہ ایک جامع منصوبے کے منتظر ہیں جس میں پالیسی سازی کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ کمیٹی کے ارکان نے گزشتہ برسوں کے دوران سپلائی اور گیس کی کمی کے اعداد و شمار کا تفصیلی جائزہ لیا۔انہوں نے وزارت توانائی کے افسران(پیٹرولیم ڈویژن)کو حتمی نتائج کے لئے خامیوں کو دور کرنے کی سفارش کر دی۔ مزید برآں، وزارت کے افسران نے ایل پی جی کے نرخوں پر بریفنگ دی اور وضاحت کی کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا ) پروڈیوسرز، مارکیٹنگ کمپنیوں(ایم سیز) اور صارفین کے لئے ایل پی جی کی قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔ قیمتیں مختلف پیرامیٹرز پر متعین ہوتی ہیں، بشمول پروڈیوسرز کی فی میٹرک ٹن قیمت ، جس کا تعین ماہانہ سعودی آرامکو معاہدے کی قیمت (40 فیصد پروپین: 60 فیصد بوٹین) کے مطابق کیا جاتا ہے۔ ڈسٹری بیوشن مارجن 35 ہزار روپے فی میٹرک ٹن مقرر کیا گیا ہے، جو 413 روپے فی سلنڈر کے مساوی ہے۔ مزید برآں، مقامی پیداوار پر 4669 روپے فی میٹرک ٹن ہے جس پر پیٹرولیم لیوی فی سلنڈر55 روپے عائد ہے ۔ جی ایس ٹی، جو پہلے 17 فیصد تھا اور اب فروری 2023 سے بڑھ کر 18 فیصد ہو گیا ہے،مذکورہ پیرامیٹرز پر لاگو ہوتا ہے۔ افسروں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان اعداد و شمار کو جمع کرنے سے صارفین کی قیمت بنتی ہے۔ مزید برآں، وزارت توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے سیکرٹری نے مزید کہا کہ وہ فعال طور پر مقامی ذرائع کی تلاش کر رہے ہیں اور گیس کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کی اپنی کوششوں میں بنیادی ڈھانچے کی رکاوٹوں کو دور کریں گے۔چیئرمین اوگرا مسرور خان نے کمیٹی اراکین کو تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات پر بریفنگ دی۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے نشاندہی کی کہ سلنڈر کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ عوام پر عائد ٹیکسز ہیں۔قائمہکمیٹی کے چیئرمین محمد عبدالقادر نے تجویز پیش کی کہ افسران بندرگاہوں اور بڑے بحری جہازوںکو گیس کی تلاش اور نقل و حمل کے لئے بروئے کار لائیں تاکہ بڑھتی ہوئی قیمتوں میں کمی لائی جا سکے، جس سے بڑھتی ہوئی لاگت سے نبرد آزما بڑی آبادی کو فائدہ ہوگا۔ اوگرا کے چیئرمین نے کہا کہ ان کا ایف بی آر میکانزم پہلے ہی سمندری سرحد پر کام کر رہا ہے۔ تاہم اس وقت بڑے بحری جہازوں پر کام کرنا ممکن نہیں ہے اور کراچی کی بندرگاہوں پر ایل پی جی آپریشنز میں اضافے کا تعین کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ آخر میں کمیٹی کے چیئرمین محمد عبدالقادر نے سفارش کی کہ وزارت توانائی (پیٹرولیم ڈویژن)کے افسران بین الاقوامی کمپنیوں تک پہنچیں اور انہیں سرمایہ کاری کی ترغیب دیں۔انہوں نے کہا کہ 2015 سے وزارت ایل این جی خرید رہی ہے جو دنیا بھر میں متعدد بولی دہندگان کے باوجود 2 سے 3 بولی دہندگان تک محدود ہے۔ نجی اداروں کو اجازت دینے سے قیمت زیادہ مسابقت ہوسکتی ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ متعدد سرکاری اور نجی کمپنیاں معمولی تنازعات کی وجہ سے غیر فعال ہیں ۔ انہوں نے تجویز دی کہ وزارت کو مثبت اجتماعی نتائج حاصل کرنے کے لئے چھوٹے موٹے معاملات کو حل کرنا چاہئے۔ وزارت توانائی (پٹرولیم ڈویژن)کے سیکرٹری نے کمیٹی ممبران کو یقین دلایا کہ وہ ایک جامع منصوبے اور پالیسی کے جائزے کے منتظر ہیں اور چند ہفتوں میں نتائج میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس موقع پر سینیٹر سعدیہ عباسی، سینیٹر عطاالرحمان، سینیٹر فدا محمد، سینیٹر محسن عزیز، سیکریٹری پیٹرولیم ڈویژن، چیئرمین اوگرا اور وزارت توانائی(پیٹرولیم ڈویژن)کے سینئر حکام بھی موجود تھے۔