Getty Images
اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی فوج کی وسطی غزہ میں پناہ گزین کیمپوں کی جانب پیش قدمی کے باعث تقریباً ڈیڑھ لاکھ فلسطینی ان علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔
عینی شاہدین اور حماس کے عسکری ونگ کی جانب سے بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی ٹینک بوریج کیمپ کے مشرقی مضافات میں پہنچ چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے حال ہی میں اپنے زمینی حملے کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں بوریج، نصیرات اور المغازی پناہ گزین کیمپوں کو بھی شامل کیا ہے جہاں ہزاروں فلسطینی اس لیے مقیم تھے کیونکہ انھیں اسرائیل کی جانب سے سات اکتوبر کی جنگ کے آغاز کے بعد شمالی غزہ سے انخلا کا کہا گیا تھا۔
غزہ میں وزارت صحت نے بتایا ہے کہ جمعرات کو غزہ میں اسرائیلی بمباری سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ادھر مصر نے اعلان کیا ہے کہ اس نے لڑائی روکنے کے لیے تین مرحلوں پر مشتمل تجویز پیش کی ہے جس کا اختتام جنگ بندی کے ساتھ ہو۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 11 ہفتوں کی لڑائی کے دوران غزہ میں 21 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔
اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ کے علاقوں بشمول بوریج اور نصیرات کیمپوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور متاثرہ علاقوں میں تقریباً 90 ہزار افراد اور 61 ہزار بے گھر افراد کو جنوب کی طرف دیر البلاح قصبے کی طرف جانے کے لیے کہا گیا تھا۔
تاہم اقوام متحدہ نے جمعرات کو متنبہ کیا کہ دیر البلاح میں لوگوں کے لیے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ وہاں ’پہلے سے بہت زیادہ افراد پناہ لیے ہوئے ہیں‘۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رفح شہر جو پہلے ہی غزہ کا سب سے زیادہ گنجان آباد شہر بن چکا ہے - نے نئے علاقوں میں اسرائیلی زمینی افواج کی دراندازی کے درمیان حالیہ دنوں میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی منتقلی دیکھی ہے۔
60 سالہ عمر نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے 35 سے زائد افراد کے ساتھ بوریج سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
انھوں نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو فون پر بتایا کہ ’وہ لمحہ آ گیا ہے۔ کاش ایسا کبھی نہ ہوتا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ نقل مکانی ناگزیر ہو گئی ہے۔۔۔ اسرائیل کی اس وحشیانہ جنگ کی وجہ سے اب ہم دیر البلاح میں ایک خیمے میں ہیں۔‘
غزہ میں پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے ڈائریکٹر ٹام وائٹ نے کہا ہے کہ ’زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غزہ کے جنوب میں واقع شہر رفح جانے کے لیے دھکیلا جا رہا ہے۔‘
غزہ میں وزارت صحت نے جمعرات کو اعلان کیا کہ رفح میں ایک عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں 20 افراد ہلاک ہوئے جس میں بے گھر شہری رہائش پذیر تھے۔ المغازی پر ایسے ہی اسرائیلی حملوں میں 50 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
فلسطینی میڈیا کے مطابق ’مہلک ترین‘ واقعہ بیت لاہیا میں پیش آیا جہاں چار عمارتوں پر مشتمل ایک رہائشی کمپلیکس تباہ ہونے کے بعد 30 افراد ہلاک ہو گئے۔
صحافی باسل خیر الدین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کے خاندان کے 12 افراد عمارت کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گئے ہیں اور ان کے نو پڑوسی لاپتہ ہیں۔
فلسطینی ہلال احمر کے مطابق خان یونس میں الامال ہسپتال کے قریب ایک اپارٹمنٹ پر اسرائیلی گولہ گرنے سے 10 افراد ہلاک ہوئے۔ ہسپتال کے سامنے اسی طرح کے ایک واقعے کے ایک دن بعد فلسطینی ہلال احمر کے مطابق 31 افراد ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے بدھ کے روز صحافیوں کو بتایا کہ شہر (خان یونس) "حماس کے لیے دہشت گردی کا ایک بڑا مرکز ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ فورسز تیسرے دن بھی بوریج کے علاقے میں لڑ رہی ہیں، یہ بتاتے ہوئے کہ انہوں نے "بہت سے دہشت گردوں کو ختم کیا اور دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔"
رہائشیوں نے رائٹرز کو بتایا، "جمعرات کو شدید لڑائی جاری رہی جب اسرائیلی ٹینکوں نے شمال اور مشرق سے گنجان آباد بوریج کیمپ کی طرف پیش قدمی کی۔" حماس نے ایک ویڈیو کلپ بھی شائع کیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس کے جنگجو اسرائیلی فوجیوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اسے غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اتوار کو مغازی کیمپ پر فضائی حملے کے نتیجے میں "شہریوں کو پہنچنے والے نقصان" پر افسوس ہے۔
فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ لڑاکا طیاروں نے "دو قریبی اہداف پر بمباری کی جن کے قریب حماس کے کارکن موجود تھے۔"
اسرائیل میں، ہزاروں نوجوانوں نے - جو حماس کے حملوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں - نے ایک مارچ میں حصہ لیا تاکہ غزہ میں حماس اور دیگر مسلح گروپوں کے زیر حراست 100 سے زائد یرغمالیوں کی واپسی کے لیے نئے معاہدے کا مطالبہ کیا جا سکے۔
شیری خیالی نے بی بی سی کو بتایا: "میں کبوتز کفار عزہ سے ہوں۔ میں وہاں 7 اکتوبر کو تھا۔ میرے لوگوں کو اغوا کیا گیا تھا۔ ہم انہیں اب واپس چاہتے ہیں۔"
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں "غیر قانونی قتل" کا سلسلہ بند کرے۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ نے 7 اکتوبر سے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور آباد کاروں کے ہاتھوں 300 فلسطینیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے ترجمان نے اس رپورٹ کو "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ اسرائیلیوں کے لیے بڑے سیکورٹی خطرات کو "کم کرتی" ہے۔
غزہ کے المغازی کیمپ پر بمباری میں ’وسیع پیمانے پر عام شہریوں کو نقصان پہنچا‘، اسرائیل کا اعترافReuters
اسرائیلی فوج نے 24 دسمبر کو غزہ میں پناہ گزین کے المغازی کیمپ پر اپنے فضائی حملے میں معصوم شہریوں کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس ظاہر کیا ہے۔
اسرائیلی دفاعی فورسز کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اسے ’شہریوں کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس ہے۔‘
اسرائیلی فوج کے ایک اہلکار نے ملک کے سرکاری نشریاتی ادارے کو بتایا کہ حملے میں ’غلط ہتھیار استعمال کیا گیا‘ اور اس سے ’وسیع پیمانے پر کولیٹرل (شہریوں کو) نقصان پہنچا۔‘
گذشتہ اتوار کو اسرائیل نے مرکزی غزہ کے المغازی کیمپ پر بمباری کی تھی جس میں کم از کم 86 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حماس کے زیرِ انتظام فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران فضائی حملوں میں 210 فلسطینیوں کی اموات ہوئی ہیں۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فوج اسرائیل اور لبنان کے بیچ سرحد سے عسکری گروہ حزب اللہ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے گی اگر اس کے حملے جاری رہے۔
اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں صورتحال خراب ہو رہی ہے۔ اس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینیوں کی ’غیر قانونی ہلاکتیں بند کرے۔‘
7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے میں کم از کم 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور قریب 240 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
غزہ میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جوابی کارروائیوں میں 21320 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں۔
غزہ کے کیمپ پر بمباری میں شہری نقصانات پر اسرائیل کو ’افسوس‘
24 دسمبر کو غزہ کی پٹی کے مرکز میں واقع المغازی کیمپ پر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 86 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بمباری کے بعد درجنوں زخمی افراد کو المغازی کے قریب الاقصیٰ ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ فوٹیج میں دیکھا گیا کہ کچھ بچوں کے چہرے خون میں لت پت ہیں اور باہر لاشوں کے لیے کفن بچھائے گئے تھے۔
غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کے ترجمان کے مطابق اموات اس لیے زیادہ ہوئیں کیونکہ اس علاقے میں کئی خاندان مقیم تھے۔
تاہم اب اسرائیلی فوج نے اس واقعے میں شہری نقصانات پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ فضائی حملے میں غلط ہتھیار استعمال کیا گیا جس سے ’وسیع پیمانے پر شہری نقصانات ہوئے۔‘
اسرائیلی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں فوج کے اہلکار نے کہا کہ ’حملے کی نوعیت کے ساتھ ہتھیار مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس سے وسیع پیمانے پر کولیٹرل ڈیمیج ہوا جس سے بچا جاسکتا تھا۔‘
انھوں نے کہا ہے کہ واقعے کی مزید تحقیقات کی جا رہی ہے۔
بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر آئی ڈی ایف نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کو ’افسوس ہے کہ معصوم افراد کو نقصان پہنچا۔ ہم اس واقعے سے سبق سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کے طیاروں نے دو اہداف کا نشانہ بنانا چاہا جو آس پاس تھے لیکن اس کی زد میں دوسری عمارتیں بھی آگئیں۔
حملے کے روز غزہ میں وزارت صحت نے کہا تھا کہ اتوار کی شب اسرائیلی حملے میں تین گھروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ترجمان اشرف القدرہ کے مطابق بمباری سے گنجان آباد رہائشی بلاک تباہ ہوا ہے۔
حملے کی زد میں آنے والے ایک شخص نے کہا تھا کہ اس نے بمباری میں اپنی بیٹی اور نواسوں کو کھو دیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کا خاندان محفوظ پناہ حاصل کرنے کے لیے شمال سے مرکزی غزہ آیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک عمارت کی تیسری منزل پر مقیم تھے۔ ان پر دیوار گِر گئی۔ ’میرے نواسے، بیٹی اور ان کا شوہر، سب ہلاک ہوگئے۔‘
’ہم سب کو نشانہ بنایا گیا۔ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کوئی محفوظ جگہ نہیں۔ انھوں نے ہم سے غزہ شہر چھوڑنے کا کہا۔ اب ہم مرنے کے لیے مرکزی غزہ آئے ہیں۔‘
فلسطینی ہلال احمر نے کہا تھا کہ ’شدید‘ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے المغازی اور پناہ گزینوں کے دیگر دو کیمپوں البریج اور النصیرت کے درمیان سڑک بند ہوگئی ہے۔ ’اس سے ایمبولینسوں اور ریسکیو ٹیموں کی طرف سے مدد میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔‘
گذشتہ اتوار بی بی سی کو دیے بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اسے ’المغازی کیمپ کے واقعے کے حوالے سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔‘
’غزہ کے شہری علاقوں میں حماس کے دہشتگردوں کے آپریٹ کرنے سے پیدا ہونے والے چیلنجز کے باوجود اسرائیلی دفاعی فورسز شہری نقصانات کو کم رکھنے کے لیے ٹھوس اقدام لے گی اور بین الاقوامی قانون پر عملدرآباد کا عزم ظاہر کرتی ہے۔‘