اسلام آباد۔28دسمبر (اے پی پی):انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) میں جمعرات کو ”وسطی ایشیا اور آذربائیجان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات: علاقائی رابطوں کی ضرورت“ کے موضوع پر ایک گول میز مباحثہ کا انعقاد ہوا۔ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے مطابق اس موقع پر پشاور یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ایریا سٹڈی سنٹر پروفیسر شبیر احمد خان، انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈپلومیٹک سٹڈیز کی ڈاکٹر فرحت آصف اور چیئرمین سینٹرل ایشین سیلولر فورم خالد خان اور کمیونیکیشن سٹریٹجک انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز ریما شوکت نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مباحثہ کے کلیدی مقررسینئر فیلو (وسطی ایشیا اور یوریشیا) ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ برسلز ڈاکٹر نجم عباس تھے۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی سفیر سہیل محمود نے اپنے استقبالیہ کلمات میں خطے کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں شرکاءکو آگاہ کیا۔ انہوں نے ’وژن سنٹرل ایشیا‘ کے فریم ورک کے اندر کثیر جہتی تعاون پر روشنی ڈالی جس میں سیاسی اور سفارتی تعلقات سمیت تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات، توانائی اور کنیکٹوٹی، سکیورٹی اور دفاع اور لوگوں سے لوگوں کا تبادلہ شامل ہے۔ انہوں نے علاقائی روابط کی اہمیت اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے وژن اور اس کے حالیہ ’جیو اکنامکس محور‘ کی صف بندی پر زور دیا۔اس سے قبل اپنے تعارفی کلمات میں ڈاکٹر طلعت شبیر نے وسطی ایشیا اور آذربائیجان کے ساتھ پاکستان کی گہری ثقافتی اور تاریخی وابستگیوں کو واضح کرتے ہوئے آئی ٹی، فارماسیوٹیکل، تجارت، توانائی، نقل و حمل، زراعت اور ثقافت جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے سمیت دو طرفہ تعلقات کی جامع نوعیت کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر نجم عباس نے اپنے خطاب میں کنیکٹیویٹی کی ضرورت، اگلے پانچ سالوں کے رجحانات اور ترجیحات کی نشاندہی کی۔ انہوں نے خطے میں ابھرتے ہوئے حالات، تبدیلیوں اور اقدامات کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ڈاکٹر نجم عباس نے متبادل راستوں اور راہداریوں جیسے ‘مڈل کوریڈور’ اور انٹرنیشنل نارتھ۔سائوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور کا ذکر کرتے ہوئے عالمی مال برداری اور لاجسٹکس کی صلاحیت کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ انہوں نے خاص طور پر آذربائیجان، ایران اور دیگر کیسپین ممالک کے رابطوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر شبیر احمد خان نے علاقائی ڈھانچے کی طرف عالمی تبدیلیوں اور پاکستان کی سٹریٹجک پوزیشن کا ذکر کرتے ہوئے ایک اہم ٹرانزٹ حب کے طور پر علاقائی رابطے کی تجویز پیش کی۔ڈاکٹر فرحت آصف نے اپنے انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے شروع کیے گئے اقدامات کا ذکر کیا جس میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو پر توجہ مرکوز کی گئی اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط قائم کیے گئے۔ انہوں نے کاروباری اداروں کو درپیش چیلنجوں بشمول بینکنگ کی رکاوٹوں اور معلومات کے بہتر تبادلے کی ضرورت پر زور دیا۔ خالد خان نے کہا کہ آذربائیجان ایک متحرک ملک بن گیا ہے ، وسطی ایشیا ایک اہم خطہ ہے جس میں قابل استعمال صلاحیت ہے، پاکستان کو واضح فوائد کے لیے آذربائیجان کے ساتھ ہاتھ ملانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وسطی ایشیا کی 10 ٹریلین ڈالر کی مارکیٹ سے فوائد حاصل کرنے کے لیے مشترکہ منصوبے شروع کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ریما شوکت نے کہا کہ اس وقت چین اور وسطی ایشیائی جمہوریہ کی تجارت 70 بلین ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے جو پاکستان کے لیے ایک امید افزاء موقع ہے، آذربائیجان بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور چین پاکستان اقتصادی راہداری پر پاکستان کی ہنرمندانہ مہارت سے مستفید ہوسکتے ہیں، اسی طرح فلم انڈسٹری، میڈیا ہائوسز اور یوتھ انٹرپرینیورشپ میں بھی باہمی تعاون کے مواقع موجود ہیں۔وسطی ایشیا اور آذربائیجان کے ساتھ علاقائی روابط کی مکمل صلاحیتوں کا ادراک کرنے کے لیے عملی نفاذ، تاجروں اور مضبوط سفارتی تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق رائے کے ساتھ مباحثہ کا اختتام ہوا۔ جغرافیائی سیاسی حالات، سلامتی اور علاقائی استحکام کے پیش نظر بات چیت میں علاقائی روابط کے لیے چیلنجز اور مواقع کا جائزہ لیا گیا ۔ شرکاءنے بہتر انفراسٹرکچر، توانائی، تجارتی سہولتوں اور عوام سے عوام کے تبادلے کے بارے میں مثبت امید کا اظہار کیا۔