ڈنمارک کی پارلیمان نے مقدس کُتب کی ’بے حرمتی اور توہین‘ کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس قانون کو ملک میں قرآن قانون قرار دیا جا رہا ہے۔
اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو دو سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ پارلیمان میں اس قانون کے حق میں 94 افراد نے ووٹ دیا جبکہ 77 نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔
ڈنمارک میں ایک عرصے سے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری تھا جس کے خلاف مسلمان ممالک سراپا احتجاج تھے اور انھوں نے ڈنمارک سے اس سلسلے کو فوری روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ڈنمارک اور اس کے ہمسایہ ملک سویڈن میں ان واقعات پر متعدد مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں جس کے باعث سکینڈینیوین ممالک میں سکیورٹی خدشات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
179 سیٹوں پر مشتمل ڈنمارک کی پارلیمان فوکیٹنگ میں جمعرات کو اس بارے میں گرما گرم بحث جاری رہی اور متعدد اپوزیشن کے اراکین نے اس قانون کے خلاف بحث کی۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق انگیر سٹوجبرگ جو ڈنمارک ڈیموکریٹس کے سربراہ ہیں کا کہنا ہے کہ ’تاریخ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرے گی اور اس کی ٹھوس وجہ بھی موجود ہے۔۔۔ بات یہ ہے کہ کیا ہم بتائیں گے کہ آزادیِ اظہار کو کتنا محدود کرنا ہے یا اس میں بھی بیرونی مداخلت ہو گی۔‘
تاہم ملک کی سینٹر رائٹ اتحادی حکومت نے اس بات پر زور دیا کہ مذہب پر تنقید غیر قانونی نہیں ہو گی اور مجموعی طور پر اس قانون کا معمولی اثر ہو گا۔
اگست میں جب حکومت کی جانب سے ان تبیلیوں کے بارے میں تجاویز پیش کی جا رہی تھیں تو وزرا کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران 170 مظاہروں جن میں بیرونی ممالک میں قونصل خانوں کے باہر قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعات کے بعد دنیا کو ایک سگنل دینا چاہتے ہیں۔
https://twitter.com/JalilJilani/status/1732808939098808383
اس وقت ڈنمارک کی انٹیلیجنس سروس پی ای ٹی نے خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے واقعات ملک میں دہشتگردی کے خطرے میں اضافہ کر رہے ہیں۔
سویڈن میں بھی متعدد مرتبہ قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں اور اس کی سکیورٹی سروس نے سلامتی کی صورتحال بگڑنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ جولائی میں عراق میں سویڈش سفارت خانے کو مظاہرین نے نذرِ آتش کر دیا تھا۔
سٹاک ہوم میں حکومت ڈنمارک کے طرز کے ایک قانون پر کام کر رہی ہے۔ ڈنمارک اور سویڈن دونوں میں ہی توہینِ مذہب کے قوانین کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔
اس بارے میں پاکستان کے نگران وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ایک ٹویٹ میں اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ڈنمارک کی پارلیمان کا عقلمندانہ فیصلہ ہے۔ امید ہے کہ دیگر یورپی ممالک بھی ایسے قوانین پاس کریں گے۔ مقدس کتب کی بے حرمتی تمام مذاہب کے عقائد کے خلاف ہے چاہے یہ اظہارِ آزادی رائے پردے کے پیچھے ہی کیوں نہ کیا جائے۔‘
ایک صارف انجم عمارہ نے لکھا کہ ’مقدس کتب اور علامات کو عوامی طور پر نذرِآتش کرنا نفرت کی بنیاد پر کیا گیا جرم کے علاوہ کچھ نہیں اور یہ آزادی اظہارِ رائے کے خلاف ہے۔‘
Getty Images
تاہم ڈنمارک میں ہی اس قانون کے پاس ہونے پر حکومت پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ یہ قانون بھاری اکثریت سے پاس نہیں ہوا ہے اور حزبِ اختلاف کی جانب سے اس قانون پر بہت تنقید کی جا رہی ہے۔
ایک صارف لوائی احمد نے اس حوالے سے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قانون مشرقِ وسطیٰ میں کسی بھی غیر منظّم اور ناکام ریاست جیسا ہے۔ ڈنمارک کو انتہا پسندوں کے دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ کرنے پر شرم آنی چاہیے۔‘
صارف امتیاز محمود نے لکھا کہ ’ڈنمارک کا دہشتگردوں کو پیغام ہے کہ آپ جتنے پرتشدد ہوں گے ہم آپ کو اتنا خوش کریں گے آج دہشت کی آزادی پر فتح ہوئی ہے۔‘
پاکستانی صحافی حامد میر نے لکھا کہ ’یہ صحیح سمت میں درست قدم ہے۔‘
ایک صارف آریانا کراسنیکی کا کہنا ہے کہ ’میرے لیے تو یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ایسا کرنا ضروری بھی تھا۔‘
بینوے نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ بہت مضحکہ خیز ہے کہ مغربی حکومتوں نے یہ قوانین اور رعایتیں ایسی ثقافتوں اور ممالک کے لیے کیے ہیں جو جواب میں صرف نفرت اور عدم برداشت دیتے ہیں۔ مغرب اسی چھری کو تیز کر رہا ہے جو خود اس کے اپنے قتل کی وجہ بنے گی۔‘