بڑھتی عمر میں آئی وی ایف کے ذریعے بچہ پیدا کرنے پر کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 07, 2023

Getty Images’آئی سی ایس آئی نے ان جوڑوں کے لیے والدین بننا آسان بنا دیا ہے، جنھیں مردوں کے سپرم کی کم یا ناقص معیار کی وجہ سے مسائل کا سامنا تھا۔

یوگینڈا کے دارالحکومت کمپالا میں 29 نومبر کو آئی وی ایف ٹیکنالوجی کی مدد سے جڑواں بچوں کو جنم دینے کے بعد 70 سالہ سفینہ نموکوایا کے منہ سے پہلا جملہ یہ نکلا ’یہ ایک معجزہ ہے۔‘

سفینہ اس افریقی ملک میں بچے کو جنم دینے والی معمر ترین خواتین میں سے ایک ہیں۔

انھوں نے ’وومین ہاسپٹل انٹرنیشنل اینڈ فرٹیلیٹی سینٹر‘ (WHI&FC) میں سیزیرین آپریشن کے ذریعے ایک لڑکی اور ایک لڑکے کو جنم دیا۔

اس ہسپتال میں فرٹیلیٹی (بچے پیدا کرنے کی صلاحیت) سے متعلق ڈاکٹر ایڈورڈ تمل سالی نے بی بی سی کو بتایا کہ سفینہ نے ان بچوں کو ڈونر کے انڈے اور اپنے شوہر کے سپرم کی مدد سے جنم دیا ہے۔

سفینہ نموکوایا نے تین سال پہلے 2020 میں اسی طرح کے عمل سے گزر کر ایک بچی کو جنم دیا تھا۔ اتنی بڑی عمر میں ماں بننے کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بے اولاد ہونے کے طعنوں سے پریشان تھیں۔

سفینہ کی طرح گجرات کی رہنے والی گیتا بین (فرضی نام) کو بھی اولاد نہ ہونے پر معاشرے کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑا۔

بالآخرانھوں نے آئی وی ایف کا سہارا لیا اور 2016 میں ایک بچے کی ماں بن گئیں۔

بچے نہ ہونے کے دُکھ کو ختم کرنے والی ٹیکنالوجیGetty Imagesآئی وی ایف ایک ایسا طریقہ ہے جس میں عورت کے ایگز کو مرد کے سپرم سے لیبارٹری میں فرٹیلائزکر کے جنین کو بچہ دانی میں ڈالا جاتا ہے

گیتا بین نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شادی کے 25 سال بعد ماں بنیں جس وقت ان کی عمر تقریباً 42 سال تھی۔

اب وہ اور اس کے شوہر منوج کمار (فرضی نام) اپنے سات سالہ بیٹے کے ساتھ بہت خوش ہیں۔

منوج کمار بتاتے ہیں کہ شادی کے اتنے سال گزرنے کے باوجود بچہ نہ ہونے پر لوگ انھیں بار بار ڈانٹتے تھے۔ اس سے پریشان ہو کر انھوں نے جاننے والوں اور رشتہ داروں سے بات کرنا چھوڑ دی یہاں تک کے قریبی شادیوں میں جانا تک چھوڑ دیا۔

یاد رہے کہ آئی وی ایف ایک ایسا طریقہ کار ہے جس کے دوران عورت کے ایگز (انڈوں) کو مرد کے سپرم سے لیبارٹری میں فرٹیلائز کیا جاتا ہے اور اس کے بعد جنین کو عورت کے رحم (بچہ دانی) میں ڈالا جاتا ہے۔

آئی وی ایف ٹیکنالوجی ہے کیا؟

اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر نینا پٹیل نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ طریقہ کار 1978 میں شروع ہوا، جب لیسلی براؤن ٹیسٹ ٹیوب بچے کو جنم دینے والی دنیا کی پہلی خاتون بنیں۔

گجرات کے آنند میں واقع اکانکشا ہسپتال اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر پٹیل کہتے ہیں کہ ’آئی وی ایف کا استعمال ان خواتین کے معاملے میں کیا جاتا ہے جن کی ٹیوبیں انفیکشن یا کسی اور وجہ سے خراب ہو جاتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید وضاحت کی، ’اس میں ہم لیب میں انڈے اور سپرم کو فرٹیلائز کرتے ہیں۔ جب ایمبریو(حیاتیات کی نشوونما کا ابتدائی مرحلہ یا جنین) تیار ہو جاتا ہے تو اسے عورت کے رحم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔

’اس ٹیکنالوجی نے بہت سے جوڑوں کو والدین بننے کی خوشی سے ہمکنار کیا ہے اور خواتین سے بانجھ پن کا لیبل دور کیا ہے۔‘

وہ اس انقلاب کے دوسرے مرحلے کے طور پر 1991 میں متعارف کروائی گئی انٹراسیٹوپلاسمک سپرم انجیکشن (ICSI) تکنیک کو قرار دیتی ہیں۔

ان کے مطابق، ’آئی سی ایس آئی نے ان جوڑوں کے لیے والدین بننا آسان بنا دیا ہے، جنھیں مردوں کے سپرم کی کم یا ناقص معیار کی وجہ سے مسائل کا سامنا تھا۔ اس ٹیکنالوجی نے ڈونر سپرم کی ضرورت کو بھی ختم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب اسے بلا جھجک اپنانے لگے ہیں۔‘

کیا یہ اتنا آسان ہے؟Getty Imagesآئی وی ایف کا سہارا لینے والی خواتین کو مالی مسائل کے علاوہ ذہنی، جسمانی اور سماجی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ایک بار جب بچہ اس کی گود میں آجاتا ہے تو وہ اپنی تمام مشکلیں بھول کر آسودہ ہو جاتی ہیں۔

لیکن سب کچھ اتنا آسان نہیں جتنا سننے میں لگتا ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں آئی وی ایف کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے لیکن ایسا ہر بار نہیں ہوتا کہ کوئی اس عمل کے ذریعے والدین بن جائے۔ کئی بار اس کے کیسز بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر پٹیل کہتے ہیں، ’کبھی کبھی جوڑے پہلی بار خوشی پاتے ہیں اور کبھی کبھی یہ عمل بہت طویل ثابت ہوتا ہے۔‘

گیتا بین بتاتی ہیں کہ آئی وی ایف سے پہلے بھی ان کا کافی علاج ہوا تھا۔ پھر آئی وی ایف کا سہارا لیا اور یہ بھی تقریباً دو سال بعد کامیاب رہا۔

آٹھ ناکام سائیکلوں کے بعد وہ نویں بار حاملہ ہوئیں لیکن چند ماہ بعد ان کا حمل ختم ہو گیا ۔ پھر دسویں چکر میں وہ ایک بچے کو جنم دینے میں کامیاب ہو گئیں۔

گیتا بین اتنے صبر کے ساتھ علاج کروانے میں اس لیےکامیاب ہوئیں کیونکہ ان کے شوہر منوج کمارنے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا۔ بہت سے معاملات میں ماں بننے کی خواہش مند خواتین کو اپنے خاندان کی حمایت نہیں ملتی۔

کیا یہ کامیابی کی ضمانت ہے؟

اس پر ڈاکٹر نینا پٹیل کا کہنا ہے کہ

35 سال سے کم عمر کی خواتین کے معاملے میں 80 فیصد کامیابی ملتی ہے۔ اگر خواتین کی عمر 35 سے 40 سال کے درمیان ہے تو بچہ پیدا ہونے کے امکانات 60 فیصد تک ہوتے ہیں۔ اگر عمر 40 سال سے اوپر ہے تو کامیابی صرف 18 سے 20 فیصد کیسز میں ملتی ہے۔جذباتی اتار چڑھاؤ ایک بڑا چیلنج

دہلی کے بلوم آئی وی ایف سینٹر کی آئی وی ایف ماہر ڈاکٹر سنیتا اروڑہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے لیے آنے والے جوڑے اکثر جذباتی طور پر تباہ ہو جاتے ہیں۔

بچہ نہ ہونے کے بعد لوگوں کو کس طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ منوج کمار کے اس تبصرے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار انھوں نے زہر کھا کر خودکشی کرنے کا سوچا تھا۔

ڈاکٹر اروڑا کا کہنا ہے کہ ’یہ بات ان کے ذہنوں اور دلوں پر حاوی ہے کہ یہ عمل مکمل طور پر فطری نہیں ہے۔

’علاج کے دوران ہمیں سب سے اہم چیز جس کا خیال رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ والدین بننے کے خواہش مند مثبت جذبات کے حامل ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں، ’ویسے بھی دوران حمل جسمانی تبدیلیوں کی وجہ سے خواتین کے حوصلے بلند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر اپنی سطح پر کونسلنگ کرتے ہیں۔

’جذباتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کے مطابق ہر آئی وی ایف سینٹر کے لیے ایک کونسلر کا ہونا لازمی ہے۔‘

انڈیا میں بھی ایسے کئی معاملے سرخیوں میں تھے۔

قانون کے ذریعہ عمر کی حد مقرر کی گئی ہےGetty Imagesڈاکٹروں کے مطابق بڑی عمر میں خواتین کا جسم بچے کو جنم دینے کے لیے مکمل طور پر فٹ نہیں ہوتا

2021 میں انڈیا میں ایک نیا قانون اسسٹڈ ری پروڈکٹیو ٹیکنالوجی (ART) ایکٹ نافذ ہوا۔ ڈاکٹر سنیتا اروڑہ اس قانون کے تحت آئی وی ایف حاصل کرنے کے لیے ماں کی زیادہ سے زیادہ عمر 50 سال اور والد کی عمر 55 سال تک بڑھانے کی بھرپور حمایت کرتی ہیں۔

ڈاکٹر اروڑہ کے مطابق

’زیادہ سے زیادہ عمر مقرر کرنے کی ایک وجہ بچے کی پرورش سے متعلق ہے۔ فرض کریں جب بچہ 15-20 سال کا ہو جائے، والدین کی عمر 70 سال سے اوپر ہو، تو وہ اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کیسے نبھائیں گے۔

’لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 50 سال کے بعد ماں بننا صحت کے لحاظ سے آسان نہیں ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’45 سال سے زیادہ عمر کے آئی وی ایف کے معاملات میں، ہم طبی صحت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ حمل کے دوران دل کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور بلڈ پریشر بھی اوپر نیچے ہوتا ہے۔ کئی بار خواتین ایسی تبدیلیوں کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں۔‘

ڈاکٹر پٹیل بڑی عمر میں آئی وی ایف کا سہارا لینے کے بھی خلاف ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ بعض صورتوں میں ایک یا دو سال کی نرمی پر غور کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔

مثال کے طور پر،’اگر بیوی کی عمر 40-45 سال کے درمیان ہے لیکن شوہر کی عمر 56 سال ہے یا بیوی کی عمر 51 سال ہے اور شوہر کی عمر 53 سال ہے، تو ایسی صورتوں میں میڈیکل فٹنس کی بنیاد پر آئی وی ایف کی اجازت دینے پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘

ڈاکٹروں کے مطابق بڑی عمر میں خواتین کا جسم بچے کو جنم دینے کے لیے مکمل طور پر فٹ نہیں ہوتاحمل کے دوران دل کا دباؤ اور بی پی بڑھ جاتا ہے۔ کئی بار خواتین اسے برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتیںبڑی عمر میں بچے کی جسمانی اور مالی پرورش کی ذمہ داری کسی بڑے چیلنج سے کم نہیںاخراجات بھی ایک اہم عنصر ہیںGetty Imagesجذباتی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئےقانوناً ہر آئی وی ایف سینٹر کے لیے ایک کونسلر کا ہونا لازمی ہے

ڈاکٹر سنیتا اروڑہ کہتی ہیں کہ آئی وی ایف کے ایک سائیکل پر ڈیڑھ سے دو لاکھ (انڈین) روپے خرچ ہوتے ہیں۔

اگر عورت کی عمر 21 سے 35 سال کے درمیان ہے تو ایک یا دو سائیکلز میں بچہ پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

کئی بار کامیابی آئی وی ایف کے بعد ہی ملتی ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے، ایسی حالت میں جتنے زیادہ سائیکلز لگتے ہیں اور اتنی ہی ذیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔

ڈاکٹر پٹیل کا کہنا ہے کہ آئی وی ایف کا سہارا لینے والی خواتین کو مالی مسائل کے علاوہ ذہنی، جسمانی اور سماجی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ایک بار جب بچہ اس کی گود میں آ جاتا ہے تو وہ اپنی تمام مشکلیں بھول کر آسودہ ہو جاتی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More