مسکولر ڈسٹروفی: ’بچے مجھے وہیل چیئر پر دیکھ کر مختلف ناموں سے پکارتے، اُن کے لیے میرا وجود عجیب شے تھی‘

بی بی سی اردو  |  Nov 29, 2023

BBC

کہتے ہیں کہ بچپن کی یادیں ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتی ہیں کیونکہ اُس عمر میں انسان چلنا پھرنا اور لوگوں سے رشتے اور تعلق قائم کرنا سیکھتا ہے لیکن اگر کسی بچے کا بچپن ہی تکلیف دہ بن جائے اور وہ چلنے پھرنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھے تو ساری عمر وہ احساسِ کمتری میں کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ وہ باقی بچوں کی طرح کھیل کود اور چل پھر نہیں سکتا۔

کچھ ایسا ہی کراچی سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ آمنہ کے ساتھ بھی ہوا۔ آمنہ ’مسل ڈیسٹورفی‘ نامی بیماری کا شکار ہوئیں جس کی وجہ سے اب وہ چل پھر نہیں سکتی ہیں۔

آمنہ ایک بین الاقومی کمپنی میں بطوربرانڈ مینجر کام کر رہی ہیں مگر اُن کا کہنا ہے کہ دیکھنے والے لوگ اُن کی صلاحیتوں کو نہیں اُن کی ویل چیئر کو دیکھتے ہیں۔

’میں دنیا کے سامنے آنے کا سوچتی بھی نہیں تھی، میں کھبی سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں نہیں لگاتی تھی کیونکہ مجھے پتا تھا کہ لوگ مجھے نہیں بلکہ وہ میری ویل چیئر دیکھیں گے۔‘

آمنہ کی کہانی جاننے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’مسل ڈیسٹورفی‘ نامی بیماری ہے کیا؟

مسکولر ڈسٹروفی کیا ہے؟

مسکولر ڈسٹروفی نامی پٹھوں کی اس بیماری کی کئی اقسام ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔

اس بیماری کا شکار ہونے والے افراد میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں اُن میں ’پٹھوں کا کمزور ہونا اوروقت کے ساتھ ساتھ نقل و حرکت میں کمی پیدا ہونے لگتی ہے۔ جس سے روزمرہ کے کام کاج میں مُشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مسکولر ڈسٹروفی کی تشخیص کے طریقہ کار میں مریض کی علامات، میڈیکل ہسٹری اور خاندان میں پہلے سے اس بیماری جیسے مسائل کو پرکھا جاتا ہے۔

ابتدا میں پاکستان میں اس بیماری سے متعلق اتنا شعور اور آگاہی نہیں تھی اور شعور کی اس کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ اس بیماری کے بارے میں یہ گمان کرتے تھے کہ یہ پولیو ہے۔

آمنہ کے ساتھ بھی کُچھ ایسا ہی ہوا، جب ابتدا میں انھیں مسائل کا سامنا ہوا تو پاکستان میں چند ڈاکٹروں نے اُن کے والدین کی بتایا کہ اُن کی بیٹی کو پولیو ہے۔

بیرونِ مُلک علاج کا فیصلہ

آمنہ بتاتی ہیں کہ ’میرے والدین تعلیم یافتہ تھے اور اُنھیں ڈاکٹروں کی یہ بات مناسب نہیں لگی اور وہ میری حالت اور بیماری کو دیکھ کر یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ یہ پولیو ہے۔

’اس سب کے بعد میرے والدین نے مُجھے علاج کے لیے امریکہ لے جانے کا فیصلہ کیا جہاں ڈاکڑوں نے انھیں بتایا کہ مجھے مسکولر ڈسٹروفی ہے۔‘

آمنہ میں اس بیماری کی تشخیص اُس وقت ہوئی جب وہ فقط دو سال کی تھیں اور جب وہ بارہ سال کی ہوئیں تو اس بیماری نے اُن سے چلنے پھرنے کی صلاحیت چھین لی مگر آمنہ کی مشکلات یہاں ختم نہیں ہوئیں۔

اس کے بعد اُن میں ایک اور مرض کی تشخیص ہوئی جسے ’سائکوڈوسز‘ کہا جاتا ہے یا طب کی زبان میں اس کا دوسرا نام ’ملٹی سسٹم ڈس آرڈر‘ بھی ہے۔

اس بیماری کی علامات میں بخار، کھانسی، جسم میں تھکاوٹ کے عنصر کا حاوی ہونا اور تیزی سے وزن کم ہونا شامل ہیں۔ طبی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد 90 فیصد لوگوں میں سب سے پہلے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔

آمنہ جب ’سائکوڈوسز‘ کا شکار ہوئیں تو اس بیماری نے اُن کی ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا اور وہ ٹیڑھی ہونے لگی۔ جیسا کے ’سائکوڈوسز‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری مختلف لوگوں پر مختلف انداز میں اثر کرتی ہے۔ بعض صورتوں میں یہ ریڑھ کی ہڈی اتنی شدید متاثر ہوتی ہے کہ دونوں ٹانگیں مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔

’سکول میں داخلہ ملا تو بچوں نے مجھے ویل چیئر پر دیکھ کر مختلف ناموں سے پکارا‘

آمنہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے عام بچوں کی طرح ’کرالنگ‘ (پیٹ اور گھٹنوں کے بل چلنا) کی ہو، میں اپنا ہاتھ اُٹھانے کی کوشش بھی کرتی تھی تو وہ بے جان محسوس ہوتے تھے۔‘

عام بچوں کے مقابلے میں آمنہ کا بچپن مختلف تھا، انھیں اپنی اس بیماری سے لڑنا سیکھنا تھا، یا سوچنا تھا کہ اس بیماری کے ساتھ اُن کی زندگی کیسے گُزرے گی، نہ صرف یہ بلکہ اُنھیں یہ بھی سمجھنا تھا کہ وہ دوسرے بچوں سے مختلف کیوں ہیں۔

’وہ وقت انتہائی تکلیف دہ اور مشکل تھا، کیونکہ مجھے میرا بچپن کبھی ملا ہی نہیں۔‘

اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آمنہ کی اصل زندگی اُس دن سے شروع ہوئی جس دن اُنھوں نے یہ سیکھ لیا کہ اس بیماری کے ساتھ زندگی کیسے گزارنی ہے۔ اکثر ترقی پزیر مُمالک میں شعور کی کمی ان بچوں کے لیے مُشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

’سکول میں داخلہ ملا تو بچے مجھے ویل چیئر پر دیکھ کر مختلف ناموں سے پکارنے لگے کیونکہ اُن کے لیے میرا وجود ایک عجیب شے تھی۔‘

وہ وقت بہت مشکل تھا مگر آمنہ نے آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ نکالا اپنی بیماری، جسمانی کیفیت اور حالت کو قبول کیا اور لوگوں کو اس بارے میں شعور دینا شروع کر دیا۔

آمنہ کی زندگی یونیورسٹی پہچنے تک کسی کچھ سنبھل چُکی تھی، مگر بیماری کی وجہ سے تکلیف کا سامنا انھیں اب بھی تھا۔ بس فرق تھا تو اس بات کا کہ وہ اس سب کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ چُکی تھیں۔

BBCتعلیمی میدان میں کامیابی اور ’مس میچ‘ کا آغاز

تعلیمی میدان میں آمنہ نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا بی بی اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کے لیے مثال قائم کی اور یہ باور کروایا کہ ویل چیئر پر آنے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے خوابوں کو پورا نہ کر سکے۔

آج کل آمنہ ملازمت کے ساتھ ساتھ فیس بک پر ’مس میچ‘ کے نام سے ایک گروپ چلا رہیں ہیں، جہاں اُن جیسے دیگر افراد موجود ہیں۔

آمنہ کا کہنا ہے کہ وہ اس گروپ کی مدد سے بیماریوں کے شکار لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد سے یہ سیکھاتی ہیں کہ وہ اچھی ملازمت کیسے حاصل کر سکتے ہیں، یا اگر کسی نے کوئی ہنر سیکھنا ہے تو وہ اپنا یہ خواب کیسے پورا کر سکتا ہے۔

اس گروپ کو آمنہ نے رواں سال جون میں شروع کیا تھا، جس کے بعد آہستہ آہستہ لوگ اس میں شامل ہوتے گئے۔ پاکستانی معاشرے میں چلنے پھرنے میں مشکلات سے متعلق مختلف طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں، بعض کیسز میں تو لوگ اس چیز کو چھپاتے ہیں، جس کا اظہار اس گروپ میں موجود کئی لوگوں نے آمنہ سے کیا۔

آمنہ کے والدین اس بیماری کے بعد اُنھیں چلنا تو نہیں سکھا پائے مگر اُنھوں نے آمنہ کو بغیر پروں کے اُڑنا ضرور سکھا دیا اور اُنھیں آزادی دی کہ وہ جا کر معاشرے کے منفی رویوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے والدین نے کہا نکلو اور اپنے خواب پورے کرو، اور اگر کوئی ٹھوکر لگے تو گھبرانے کی ضروررت نہیں، ہم آپ ہر ہر لمحے آپ کے ساتھ ہوں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کے اعتماد کی میرے جیسے ہر فرد کو ضرورت ہوتی ہے تاکہ انسان کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔‘

اب اگر آمنہ کی کامیابی کی بات کی جائے تو وہ کئی بین الاقومی مواقعوں پر اپنی بیماری کو لے کر بات کر چکی ہیں اور لوگوں میں شعور اور آگاہی پھیلنے کا کام کر رہی ہیں کیونکہ اُنھیں لگتا ہے کہ کہ جو سہولتیں انھیں ملیں اور جیسے اُن کے والدین نے اُن کی مدد کی اعتماد دیا ویسا بہت سے لوگوں کو میسر نہیں۔ اسی وجہ سے آمنہ ان لوگوں کی آواز بن رہی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More