مچھلی ان لوگوں کے لیے ایک مقبول کھانا ہے جو نان ویج کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے پکایا جاتا ہے۔
ندی کے تازہ پانی کی مچھلیوں سے لے کر سمندر کے نمکین پانی میں پائی جانے والی مچھلیوں تک، تمام اقسام کو اپنے مخصوص ذائقہ کی وجہ سے خوب شوق سے کھایا جاتا ہے۔
1600 کلومیٹر سے زیادہ کی ساحلی پٹی والی انڈین ریاست گجرات نے گلوبل فشریز کانفرنس 2023 کے دوران ایک مچھلی کو ’ریاستی مچھلی‘ قرار دیا ہے۔ ’گھول‘ نامی یہ مچھلی انڈیا کی سب سے مہنگی مچھلیوں میں سے ایک ہے۔
گھول مچھلی کو گجرات کی ریاستی مچھلی کے طور پر کیوں چُنا گیا؟
گجرات حکومت کے گاندھی نگر کے محکمہ ماہی پروری کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیتا شکلا نے بی بی سی کو بتایا کہ گھول مچھلی انڈیا میں سب سے مہنگی مچھلیوں میں سے ایک ہے۔
اس کے مہنگے ہونے کی بنیادی وجہ اس کا ہوا کا مثانہ یا ’ایئر بلیڈر‘ ہے۔ یہ مچھلی کا وہ حصہ ہوتا ہے جس میں ہوا بھری ہوئی ہوتی ہے اور یہ مچھلی کو پانی میں مطلوبہ سطح پر رہنے میں مدد کرتا ہے۔
گھول مچھلی میں آیوڈین، آئرن، ٹورین، میگنیشیم، فلورائیڈ، سیلینیم بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اسے ’سنہری یا سونے کے دل والی مچھلی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ برآمد کنندگان مچھلی کو خشک کر کے اس کے ائیر بلیڈر کو نکال دیتے ہیں۔
گھول مچھلیوں میں سے کچھ کے ایئر بلیڈر کی قیمت ایک لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ ان کی جلد کو پکایا بھی جاتا ہے یا انھیں کاسمیٹک پراڈکٹس یا میک اپ کی مصنوعات اور دوائیں بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کی جلد اور دیگر اعضا سے دوا ساز کمپنیاں حل ہو جانے والے ٹانکے (سٹیچز) اور شراب کی صفائی کے لیے محلول بناتی ہیں۔
گجرات سے ماہی گیری کی صنعت کو اس مچھلی کے اعضا کی فروحت سے خاصہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ بحر ہند اور بحرالکاہل میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور برما تک کے ساحلوں میں پائی جاتی ہے۔
اگرچہ یہ انڈیا کے سمندر میں دستیاب ہے تاہم اس کی مقدار اتنی وسیع نہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں جب بھی اسے انڈیا میں ماہی گیروں نے پکڑا ہے، اسے مبینہ طور پر ایک سے چھ لاکھ روپے کے درمیان فروخت کیا گیا۔
’ڈاؤن ٹو ارتھ میگزین‘ کے مطابق اس مچھلی کو بہترین اور مہنگی ترین اقسام میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اسے سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا، ہانگ کانگ اور جاپان کو برآمد کیا جاتا ہے۔
پہلی عالمی ماہی گیری کانفرنس یا گلوبل فیشریز کانفرنس 21 نومبر 2023 کو احمد آباد میں منعقد ہوئی۔
گجرات کے وزیر اعلی بھوپندر پٹیل نے گجرات سائنس سٹی، ہیبت پور، احمد آباد میں دو روزہ کانفرنس کا افتتاح کیا۔ مرکزی وزیر ماہی گیری پرشوتم روپالا بھی اس تقریب میں موجود تھے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے گجرات کے وزیر اعلی بھوپندر پٹیل نے کہا کہ ’گجرات کے پاس ملک میں 1600 کلومیٹر طویل ترین ساحلی پٹی ہے۔ گجرات ملک میں سمندری مچھلیوں کی پیداوار میں سب سے آگے ہے۔ گجرات سے 5000کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کی مچھلی برآمد کی جاتی ہے۔
’مچھلی کی برآمدات میں گجرات کا حصہ 17 فیصد ہے۔ ان کامیابیوں سے پتہ چلتا ہے کہ گجرات پہلی عالمی ماہی گیری کانفرنس کی میزبانی کے لیے سب سے موزوں ریاست ہے۔ بلیو اکانومی داخلی اور بین الاقوامی تجارت کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔‘
وزیر اعلی بھوپندر پٹیل نے کہا کہ ’ہمارے ملک میں تین کروڑ سے زیادہ لوگ اس شعبے سے جڑے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں ملک میں پہلی بار ماہی گیری کی وزارت شروع کی گئی ہے اور اس وزارت کے ساتھ ساتھ ماہی گیری اور آبی زراعت ترقیاتی فنڈ کے لیے بھی 75,000 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں اندرون ملک ماہی گیری کی صنعت کو بڑا فروغ ملا ہے۔ گزشتہ نو سالوں میں ماہی گیری اور زرعی پیداوار میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔‘
گجرات حکومت کے مطابق، مالی سال 22-23 میں 174 لاکھ ٹن مچھلی کی کل پیداوار کے ساتھ، انڈیا ماہی گیری کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے، جو عالمی سطح پر مچھلی کی پیداوار کا تقریبا آٹھ فیصد ہے۔
انڈیا آبی زراعت کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے۔