ھدىٰ بیوٹی کی مالک ھدیٰ قطان: ’بزنس شروع کیا تو لوگ مجھ سے بات کرنے کے بجائے میرے شوہر کو مخاطب کرتے‘

بی بی سی اردو  |  Nov 24, 2023

Getty Images

ھدیٰ قطان جب مقبول ہوئیں تو انھیں ان کے ایسے چاہنے والوں نے کچھ اس انداز سے خوش آمدید کہا جو عام طور پر فینز کسی خاص موسیقار یا ہالی ووڈ سٹارز کے ساتھ کرتے ہیں۔

اپنے کاسمیٹکس برینڈ ’ھدیٰ بیوٹی‘ کی دسویں سالگرہ کے موقع پر انھوں نے ایفل ٹاور کے قریب ہی انھوں نے ایک بلڈنگ خرید کر کے اس میں اپنے برینڈ کی ہر چیز لا کر رکھ دی ہے۔

وہاں میک اپ سٹیشنز پر ان کی ہاٹ پنک پروڈکٹ کی چیزوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جگہ جگہ محبت بھرے پیغامات اور خوش آمدید لکھا ہوا ہے اور ہر طرف لوگ ہی لوگ ہیں۔

ان کے فینز سڑکوں پر کھڑے ہو کر ان کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں اور جب وہ آئیں تو انھوں نے خوشی سے نعرے لگانا شروع کر دیے۔

جیسے ہی وہ سیڑھیوں سے چڑھ کر اندر آتی ہیں تو اس عمارت کے اندر مدعو کیے گئے انفلوئنسرز اور میک اپ کی دنیا سے جڑے افراد ھدیٰ ھدیٰ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔

لوگ قطار میں لگ کر ان کے ساتھ سیلفی بنا رہے ہیں۔۔۔ کچھ فینز جنھیں انھوں نے گلے سے لگایا وہ فرط جذبات میں رو رہے ہیں۔

اس سارے عرصے میں ھدیٰ قطان کی مسکراہٹ برقرار رہی۔

میک اپ انڈسٹری میں صنفی امتیاز

ھدیٰ قطان بی بی سی کی طرف سے دنیا بھر کی 100 متاثر کن اور بااثر خواتین کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ ان کا ایک ارب ڈالر سے زائد کا اپنا کاسمیٹکس کا کاروبار ہے اور انسٹاگرام پر بہت بڑا میک اپ برینڈ بھی ہے، جس کے فالوئرز کی تعداد 50 ملین سے زائد ہے۔

مگر وہ بیوٹی انڈسٹری اور سوشل میڈیا پر کڑی تنقید بھی شروع کر دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میری رائے میں بیوٹی انڈسٹری صنفی تعصب پر مبنی ہے اور یہ خواتین کو زیادہ تر غیرضروری طور پر ہی دلکش نظر آنے کی دوڑ میں شامل کرتی ہے۔ یہ خواتین کو ظاہری شکل و صورت کی بنیاد پر پرکھتی ہے، جو ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق وہ ایک ایسی خاتون ہیں جو دلکش نظر آنا چاہتی ہوں، میں جانتی ہوں کہ ظاہری شکل و صورت کی بنیاد پر کسی کے بارے میں رائے بنانا کتنا تکلیف دہ ہے۔

وہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ کسی کے بارے میں بہت جلد رائے بنانے کی غلطی عام ہو چکی ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جسے وہ خود بھی بہتر کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے مطابق جب وہ کاروباری شخصیت بنیں تو اس شعبے میں بہت سے لوگوں نے انھیں سنجیدگی سے قبول نہیں کیا۔

ان کے مطابق میں نے ’بہت تکیلف دہ جدوجہد کی۔‘ ھدیٰ کے مطابق اکثر ایسا ہوتا تھا کہ اجلاس کے دوران لوگ ان کو دیکھ کر بات کرنے کے بجائے ان کے شوہر کو مخاطب کر کے بات کرتے تھے۔

’میرے شوہر کا جواب ہوتا تھا کہ مجھ سے نہیں بلکہ ان سے بات کیجیے۔ مگر اس کے باوجود وہ میرے شوہر کو ہی دیکھ کر بات کرتے۔‘

Getty Images’بلیک پگمنٹ‘

وہ بیوٹی انڈسٹری کی اس وجہ سے بھی ناقد ہیں کہ اس شعبے میں سب کی نمائندگی کا تصور ابھی بھی کم ہے۔

انھوں نے عراق سے لے کر تیونس تک پناہ گزینوں کی بچیوں کی پرورش کی۔۔۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ انھیں ہمیشہ یہ باور کروایا گیا کہ وہ دلکش نہیں لگتیں۔

ھدیٰ قطان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ترجیح ہے کہ وہ گہری رنگت والی ’ڈیپر شیڈز پروڈکٹس‘ اور ’فاؤنڈیشنز‘ فروخت کریں جو بہت سے رنگوں والی جلد کے ساتھ اچھی لگتی ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ یہ انڈسٹری درست رستے پر چل رہی ہے مگر ان کے مطابق اس کی ترقی کی رفتار بہت ہی سست ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں مینوفیکچرز کو لیب میں جا کر یہ کہتی تھیں کہ مجھے ’رچر سکن ٹون پروڈکٹ‘ چاہییں۔ اور میں نے اپنی آنکھوں سے انھیں اس میں بلیک پگمنٹ ملاتے دیکھا ہے مگر لوگوں کی جلد تو مختلف ’ٹونز‘ کی حامل ہوتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں لوگوں کی سمجھ میں فرق ہے۔ ان کی رائے میں مینوفیکچررز اور کچھ برینڈز بھی اس متعلق کم معلومات رکھتے ہیں۔

سوشل میڈیا ایک جادو

ھدیٰ قطان کی کامیابی کا سہرا سوشل میڈیا کو بھی جاتا ہے، جہاں وہ اس متعلق لوگوں کو براہ راست میک اپ سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں اور اس کے علاوہ دبئی میں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ گزرے لمحات سے متلعق بھی بات کرتی ہیں۔

وہ بیوٹی بلاگر سے اب زندگی کے دوسرے پہلوؤں کی طرف بھی آئی ہیں، جو ان کے طرز زندگی کے مختلف پہلؤوں کا ظاہر کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے انھیں آغاز میں سوشل میڈیا سے محبت تھی۔ ھدیٰ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ یہ ایک بہت اچھی چیز ہے۔ آپ جانتے ہیں یہ آزادی اظہار رائے کے جمہوری حق کو یقینی بنایا۔ یہ ہر کسی کو اظہار کا موقع فراہم کیا۔ یہ وہ جگہ سمجھی جاتی تھی جہاں لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے تھے۔‘

مگر اس کے بجائے اب یہ لوگوں کی دھیان ایسے حاصل کرتا ہے کہ ان کی نظریں سکرین پر ہی اٹکی رہتی ہیں۔

اب وہ اس متعلق مختلف رائے رکھتی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا سے اپنے تعلق کو کچھ اس طرح سوال و جواب کی صورت میں بیان کرتی ہیں: ’کیا اب میں سوشل میڈیا سے متفق ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ کیا میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ مستقبل کے لیے اچھا ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں اب ایسا نہیں سوچتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ خواتین کو اس دباؤ میں رکھتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے ٹھیک نظر آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میری رائے میں معاشرہ ہمیشہ ہی خواتین کے لیے سخت معیارات مقرر کرتا ہے۔ مگر اب سوشل میڈیا کے دور میں امیدیں اور بھی زیادہ نامناسب ہو گئی ہیں۔

ھدیٰ قطان کے مطابق ’مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ جب میں سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا کہ میں دلکش نظر نہیں آ رہی ہوں۔ میں اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکی ہوں۔‘

وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ وہ خود اس مسئلے کی وجہ ہیں مگر ان کی رائے میں وہ سوشل میڈیا کی متاثرہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ ایسی شخصیت ہیں جو اپنے ظاہری حلیے کی وجہ سے مشہور ہیں تو ایسے میں کبھی کبھار آپ اپنی ظاہر شکل و صورت کے اسیر بن کر رہ جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ لوگ یہ امید لگاتے ہیں کہ ’اس کے ناخن، بال اور رنگت ہر لحاظ سے وہ ایک مکمل شخصیت ہو جو کہ حقیقت کی دنیا سے مختلف بات ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں طویل عرصے تک یہ سوچتی رہی کہ میں اپنے انسٹا گرام ہینڈل کی اسیر بن کر رہ گئی ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب میں عوام میں جاؤں گی تو میں ھدیٰ بیوٹی ہوں۔ مگر کبھی کبھار مجھے لگتا ہے کہ کہ میں ھدیٰ ugly (ہدصورت) ہوں۔‘

Getty Imagesسیاسی آواز

ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی وسیع رسائی کو دیکھتے ہوئے، قطان آن لائن جو کچھ بھی کہتی ہیں وہ توجہ حاصل کرتا ہے اور اُن کے فینز کے علاوہ بھی لوگ اس پر اپنے ردِ عمل اور رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جیسے جیسے ہماری آواز میں اثر پیدا ہوتا ہے، وہ ایک پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر جاتی ہے، مجھے کچھ معاملات اور چیزوں کے بارے میں اپنی رائے کے اظہار کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔‘

’میں ان چیزوں کے بارے میں پرجوش ہوں اور اُن معاملات کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں جو خواتین کو متاثر کرتی ہیں، نا صرف یہ بلکہ اُن چیزوں کے بارے میں بھی جو میری برادری پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔‘

جب یہ انٹرویو ہوا تب حماس کی قیادت میں 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی فورسز کی چڑھائی ہونا ابھی باقی تھے۔

اسرائیل پر حملوں میں 1200 افراد ہلاک اور 200 سے زائد یرغمال بنائے گئے تھے۔

حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے کی جانے والی جوابی کارروائی میں اب تک 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے ساڑھے چار ہزار سے زائد بچے ہیں۔

جوں جوں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ بڑھتا گیا، قطان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو فلسطین کی حمایت میں پوسٹ کرنے کے لیے استعمال کیا، جس پر مثبت تبصروں کے ساتھ ساتھ تنقید بھی کی گئی۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’میں کچھ سیاسی معاملات کے حوالے سے کُھل کر بات کرتی رہی ہوں۔‘

وہ جولائی میں بی بی سی 100 ویمن سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں سیاسی ماہر ہونے کا دکھاوا نہیں کرتی، لیکن اگر میں کچھ دیکھتی ہوں اور مجھے اس بارے میں کچھ معلومات ہوں تو میں یقینی طور پر اس بارے میں پوسٹ کرنا چاہتی ہوں جس میں میں اپنی رائے کا اظہار کرتی ہوں۔

اسرائیل اور غزہ کی موجودہ صورت حال پیدا ہونے سے پہلے ہی، قطان مشرق وسطیٰ کے مسائل کے بارے میں شعور اجاگر کرتی رہی ہیں اُن کا کہنا تھا کہ خطے میں سیاسی مسائل کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں کبھی کبھی واقعی پریشان ہو جاتی ہوں جب میں چیزوں کو ہوتا دیکھتی ہوں۔ کبھی کبھی مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ کیا میرے پاس صحیح معلومات ہیں؟ کیا میں اس کے بارے میں پوسٹ کرنے کے قابل ہوں؟ کیا میری سوچ اور انداز صرف ایک جانب دیکھ رہا ہے اور اُسی کے بارے میں میں سوچ رہی ہوں؟‘ لیکن میں ہمیشہ وہ پوسٹ کرنا چاہتی ہوں جو میں کر سکتی ہوں۔¬

Getty Imagesکمزور مقام

جب لوگ انھیں پیغام بھیجتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں کہ ’آپ کی زندگی اتنی مکمل کیسے ہے؟‘ تو وہ ایمانداری سے جواب دیتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ چاہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کی جگہ ’زیادہ کمزور اور نازک‘ ہو۔

قطان کا کہنا ہے کہ ’میں نہیں جانتی کہ یہ جگہ کہاں موجود ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ انسٹاگرام پر موجود ہے لیکن ہمیں اس کا تعین کرنا پڑے گا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ انھیں اکثر رابطہ منقطع کرنا پڑتا ہے، اپنے سکرین ٹائم کو محدود یا کم کرنا پڑتا ہے، اور اپنی 12 سالہ بیٹی کو سوشل میڈیا پر آنے کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتی۔

انھوں نے بتایا کہ ’وہ کبھی کبھار میری پیٹھ پیچھے چھپ چھپ کر سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہیں، لیکن ماں ہونے کے ناتے میں اپنی بیٹی کی بے چینی کی سطح میں فرق دیکھ سکتی ہوں جب وہ آن لائن نہیں ہوتیں یا جب وہ ہوتی ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ عوامی طور پر گزارنے کے باوجود، ایسی چیزیں ہیں جو وہ نجی رکھتی ہیں، جیسے ان کا مسلم عقیدہ۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں بڑی ہوئی تو زیادہ مذہبی نہیں تھیں، لیکن جیسے جیسے میں بڑی ہوئی، یہ بدل گیا۔ اب، دعا اس کے ’سب سے خوبصورت تجربات میں سے ایک‘ ہے۔

قطان کہتی ہیں کہ ’میں اس بارے میں بات نہیں کرتی کیونکہ میں ہمیشہ تنقید سے ڈرتی ہوں کیونکہ میں اس کا احاطہ نہیں کرتی۔‘ ’لوگ کہہ سکتے ہیں، ’اوہ، آپ کو یہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

ھدیٰ بیوٹی کو اب 10 سال ہو چکے ہیں، اور قطان کہتی ہیں کہ انھیں اُمید ہے کہ انھوں نے کچھ خواتین کو ترغیب دی یا متاثر کیا ہے۔

’لوگوں کو یہ احساس دلانا کہ وہ خوبصورت اور طاقتور بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، میرے لئے واقعی اہم ہے۔‘

’میں کبھی کبھی ٹینیسی میں مشرق وسطی کی اس چھوٹی بھوری لڑکی کے بارے میں سوچتی ہوں، دنیا میں اب بھی ان میں سے بہت سے موجود ہیں، اور شاید میرے جیسے کسی کو دیکھ کر، وہ اپنینمائندگی محسوس کرسکیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More