Getty Images
حالیہ دہائیوں میں نوجوانوں میں بے چینی، ڈپریشن اور یہاں تک کہ خودکشی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور اس کا سامنا دنیا بھر کے کئی نوجوان کر رہے ہیں۔
امریکہ میں تو یہ بحران اتنا سنگین ہے کہ 2021 میں، امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس اور دیگر طبی تنظیموں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ بچوں کی ذہنی صحت کے لیے قومی سطح پر ایمرجنسی نافذ کریں۔
بوسٹن کالج میں نفسیات اور نیورو سائنس کے پروفیسر پیٹر گرے کے مطابق بچوں اور نوعمروں میں موجودہ ’سائیکو پیتھولوجی کی وبا‘ کا تعلق گذشتہ 50 سالوں کے رجحانات سے ہے جس میں بچوں کی آزادی کی سطح میں بتدریج کمی شامل ہے۔
ستمبر کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون میں پروفیسر گرے نے کہا کہ ’ذہنی امراض میں اضافے کی ایک اہم وجہ بچوں اور نوعمروں کے کھیل کود میں آزادی کی کمی ہے۔ بالغوں کی براہ راست نگرانی اور کنٹرول سے آزاد دیگر سرگرمیاں انجام دینے کے مواقع میسر نہ آنا، نوجوانوں میں بے چینی اور مایوسی بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔‘
پروفیسر گرے اور ان کے ساتھ تحقیق میں شریک دو دیگرمصنفین کے مطابق آزادانہ سرگرمیاں بچے کے لیے فوری طور پر اطمینان کو فروغ دیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ذہنی تندرستی میں بھی مدد کرتی ہیں۔
اس سے ان کے رویوں میں لچک پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے دباؤ سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی صلاحیت ابھرتی ہے۔
1960 کی دہائی میں تبدیلی کا آغاز
مصنفین کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ تجویز نہیں کرتے کہ نوجوانوں کی ذہنی صحت میں بگاڑ کی واحد وجہ یہ ہے تاہم یہ ایک اہم وجہ ضرور ہے۔‘
ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی 1960 کی دہائی میں شروع ہوئی۔ جن بچوں کو کبھی قابل، ذمہ دار اور لچکدار سمجھا جاتا تھا، ان کو بڑھتی ہوئی نگرانی اور تحفظ حاصل کرنے لگے۔
’انھوں نے کچھ پہلوؤں میں زیادہ خود مختاری حاصل کی مثلا کھانے یا لباس کا انتخاب لیکن انھوں نے ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی آزادی کھو دی ہے جن میں بالغوں سے دور ایک خاص حد تک خطرہ اور ذاتی ذمہ داری شامل ہوتی ہے۔‘
بی بی سی نیوز برازیل کے ساتھ ایک انٹرویو میں پروفیسر گرے نے بچوں کی خودمختاری میں کمی کی بنیادی وجوہات کے بارے میں بتایا کہ یہ تبدیلیاں ان کی موجودہ اور مستقبل کی ذہنی صحت پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں اور والدین اپنے بچوں کو زیادہ خود مختار بننے میں مدد کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
والدین میں بڑی تبدیلی
پروفیسر گرے سے پوچھا گیا کہ آپ کہتے ہیں کہ بچوں اور نوعمروں میں بے چینی، ڈپریشن اور خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کی ایک بڑی وجہ ان کے لیے بالغوں کی مداخلت کے بغیر، آزادانہ طور پر سرگرمیاں کرنے کے مواقع میں کمی ہے۔ ان دونوں رجحانات کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
’جس طرح سے بچے خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں، مسائل کو حل کرنے، اپنی زندگی پر قابو پانے، راستے میں حائل رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہونے کا احساس پیدا کرتے ہیں، وہ خود مختار کنٹرول (حالات پر) کے تجربے سے ہوتا ہے۔‘
لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ چونکہ ہم اب بچوں کو آزادی میں اس بتدریج اضافے کی پیشکش نہیں کرتے ہیں، اس لیے وہ مسائل حل کرنے کا احساس پیدا نہیں کر رہے ہیں، ایسا رویہ جو اضطراب اور افسردگی سے بچاتا ہے۔
مزید یہ کہ یہ سرگرمیاں بچوں کو بے انتہا خوش بھی کرتی ہیں۔ کھیل خوشی کے اہم ذرائع میں سے ایک ہے۔ آزاد کھیلوں اور سرگرمیوں میں، جہاں وہ اپنے لیے کام کرتے ہیں، وہ اچھا، فخر اور پورا محسوس کرتے ہیں۔
جب ہم انھیں اس سے محروم کرتے ہیں، تو ہم انھیں خوشی اور اطمینان کے فوری احساس اور کردار کے خصائص پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر رہے ہیں، جیسے ہمتاوراپنی زندگی پر کنٹرولکی زمہ داری جس کے باعث آپ پیدا ہونے والے مسائل کوخود حل کر سکتے ہیں۔ یہی چیز بچوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور یہاں تک کہ بالغوں کو بھی زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
لہٰذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ ان آزادانہ سرگرمیوں کو ختم کرنے سے بے چینی، ڈپریشن اور یہاں تک کہ خودکشی کی بلند شرح جنم لیتی ہیں۔
بچوں کو دی جانے والی آزادی میں بتدریج کمی
پچھلے 50 سے 70 سالوں کے دوران، کم از کم امریکہ میںبچوں کو گھر سے باہر کھیلنے، تلاش کرنے، اور آزادانہ سرگرمیوں میں شامل ہونے ے لیے دی جانے والی آزادی میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔
اس زوال کی کئی وجوہات ہیں، 1950 کی دہائی میں ٹیلی ویژن کے مقبول ہونے نے بچوں نے خود کو گھر میں بند کر لیا اوریوں وہ کھیل کود کے ساتھیوں سے الگ تھلگ ہو گئے۔
’باہر جانے اور اپنے کھیل ایجاد کرنے کے بجائے اب بیشتر بچے ان کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں جن پر خود ان کا نہیں بلکہ بالغوں کا کنٹرول ہے۔ یہ سکول کی طرح ہے، کیونکہ وہ بالغوں کے ذریعہ بنائے گئے قوانین اور فیصلوں کی پیروی کر رہے ہیں۔ وہ اپنے فیصلے خود کرنا، آپس میں اختلافات کو دور کرنا، اپنے مسائل خود حل کرنا نہیں سیکھ رہے۔‘
ایک اور عنصر تعلیمی کامیابی پر بڑھتا ہوا دباؤ ہے۔ کئی دہائیوں کے دوران بچوں کے سکول میں یا ہوم ورک کرنے میں گزارنے والے وقت کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔
’خاص طور پر 80 کی دہائی سے، ہم نے بچوں کو بغیر کسی بالغ کے باہر جانے کی اجازت دینے کا مبالغہ آمیز خوف پیدا کر دیا ہے۔ اس وقت بچوں کے اغوا اور قتل کے دو واقعات نے بہت توجہ حاصل کی۔‘
1979 میں یٹن پیٹز اور 1981 میں ایڈم والش کے قتل نے بچوں کو اکیلے باہر بھیجنے کے رویہ کی مخالفت کو پروان چڑھایا ۔ اس قسم کا جرم اس وقت انتہائی نایاب تھا۔
رفتہ رفتہ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہ ایک عام بات ہے، جس کی وجہ سے بچوں اور یہاں تک کہ نوعمروں کو بھی اکیلے باہر جانے کا خوف پیدا ہو جاتا ہے۔
اس نے والدین کے انداز میں ایک زبردست تبدیلی کی نشاندہی کی۔ پہلے والدین اپنے بچوں کو گھر سے باہر بھیجتے تھے، محلے کے تمام بچے باہر جاتے، ایک دوسرے سے ملتے اور کھیلتے۔ اب، بہت سے لوگ اسے والدین کی غفلت سمجھتے ہیں۔
معقول آزادی کے قوانین
کیا ایسے والدین جو اپنے بچوں کو اکیلے باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں اس کے پیچھے بچوں کھو دینے کی سوچ بھی کارفرما ہوتی ہے؟
جی ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے، اور بہت سے ایسے معاملات میں ہوا ہے جس نے بہت سے ماں اور باپ کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ یہ ہے کہ کوئی بچہ سڑک پر ہو، شاید اکیلا سکول جا رہا ہو یا پارک میں کھیل رہا ہو اور کوئی پولیس کو کال کرے۔ کال کرنے والے کو یقین ہے کہ وہ یہ اطلاع دے کر ایک اچھا کام کر رہا ہے کہ ایک بچہ قریب میں کسی بالغ کے بغیر سڑک پر ہے اور شاید خطرے میں ہے۔
جب پولیس کو اس قسم کی کال موصول ہوتی ہے تو وہ تحقیقات کرنے کے پابند ہیں۔ اس کے بعد پولیس والدین کا انٹرویو کرتی ہے، جو والدین اور بچے دونوں کے لیے بہت خوفناک ہوتا ہے۔ اور کچھ ریاستوں میں، پولیس کو کیس کو بچوں کی حفاظتی خدمات کے حوالے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تحقیقات کے لیے قانون بھی ضروری ہے۔
بعض اوقات وہ بچوں کو ان کے والدین سے الگ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اگر والدین متوسط طبقے کے سفید فام ہیں تو امکان ہے کہ وہ اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گے اور جیت جائیں گے۔ لیکن غریبوں کے لیے اکثر نسلی اقلیتوں سے اپنے بچوں کی تحویل سے محروم ہونے کا حقیقی امکان ہوتا ہے۔
اسی تناظر میںوہ والدین جو اپنے بچوں کو زیادہ آزادی دینے اور اکیلے باہر جانے دینا ایک اچھا خیال سمجھتے ہیں وہ بھی اس مداخلت کے باعث ایسا کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں بچے کو اکیلا دیکھ کر کوئی پولیس کو نہ بلا لے۔
’میں ایک تنظیم کا حصہ ہوں جسے لیٹ گروو کہا جاتا ہے، اور ہم کئی ریاستوں میں کام کر رہے ہیں تاکہ ہم آزادی کے معقول قوانین بنائیں، جو بنیادی طور پر یہ کہتے ہیں کہ یہ والدین پر منحصر ہے کہ خطرناک سرگرمیوں کے استثنیٰ کے ساتھ اس بات کا تعین کریں کہ ان کے بچے کے لیے کیا محفوظ ہے کیا نہیں۔‘
محققین کا یہ مضمون نہ صرف آزادانہ کھیل کے مواقع میں کمی کا حوالہ دیتا ہے بلکہ خاندان اور برادری میں بچوں کے تعاون میں بھی کمی کا ذکر کرتا ہے۔
ان کے مطابق ’یہ بات صرف باہر کھیلنے اور تلاش کرنے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ نوجوانوں کے لیے اب پارٹ ٹائم ملازمتوں کے مواقع بھی کم ہیں۔‘
’ماضی میں بچے یا والدین صبح کے وقت اخبار پہنچانے کا کام کرتے تھےیا اسکول کے بعد پڑوسیوں کے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرتے تھے، لان کی گھاس کاٹتے تھے، اور اس کا معاوضہ لیتے تھے۔ اب یہ سب تریبا ناپید ہے۔آج کل لوگ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو اس قسم کا کام کرنے دینا محفوظ نہیں ہے۔‘
Getty Imagesکھیلنا وقت کا ضیاع نہیں
آپ کہتے ہیں کہ ذہنی صحت کے بحران کی وجوہات کے بارے میں بات کرتے وقت بچوں کی کم ہوتی ہوئی خودمختاری کو اب بھی مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ اس رشتے پر زیادہ توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟
’لوگوں کے اس سے زیادہ واقف نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تبدیلی بہت آہستہ آئی ہے۔‘
مثال کے طور پر آج کی نوجوان مائیں اور باپ ایسے وقت میں پروان چڑھے جب ان کی آزادی ان کے دادا دادی کے مقابلے میں پہلے ہی بہت محدود تھی۔ اس لیے وہ تبدیلیوں کی شدت کا احساس نہیں کرتے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ تبدیلیاں نیک نیتی سے لائی گئی ہیں۔ مائیں اور باپ، اور عام طور پر معاشرہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ بچوں کے لیے حفاظت بہت ضروری ہے۔ ماضی کی نسبت آج حفاظت پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ، امیر اور غریب کے درمیان عدم مساوات اور دیگر پہلوؤں میں زبردست اضافے نے ماؤں اور باپوں کو اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں مزید فکر مند بنا دیا ہے۔ انھیں یقین ہو گیا ہے کہ ان کے بچوں کا کالج جانا بہت ضروری ہے، ورنہ وہ بے گھر ہو سکتے ہیں۔
یہ خیال پیدا کیا گیا کہ جب بچہ اپنے آپ کو کھیلنے تک محدود کر لیتا ہے تو وہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہوتا ہے، وہ ایسا کچھ نہیں کر پاتا جسے وہ اپنے ریزیومے پر رکھ سکے، جو اسے مستقبل میں یونیورسٹی تک رسائی میں مدد دے سکے۔
اس سب نے تیزی سے اس یقین کو جنم دیا ہے کہ کھیلنے کے لیے باہر جانا نہ صرف وقت کا ضیاع ہے، بلکہ آپ کو پریشانی میں بھی ڈال سکتا ہے جو یقیناً سچ ہے۔وہ مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ بڑے ہونے کا حصہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہےتو اسے حل کرنے کا طریقہ معلوم کرنا۔
بہت سے ماہرین بچوں اور نوعمروں کی ذہنی صحت کی خرابی میں سوشل نیٹ ورکس کے اثر و رسوخ کا حوالہ دیتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اس بحران میں اہم کردار ادا کرتے ہیں؟
’میں نے پچھلے کچھ دن مضمون لکھنے کے لیے اس موضوع میں ڈوب کر گزارے ہیں، اور تحقیق بالکل واضح ہے: اس بات کا کوئی قابلِ یقین ثبوت نہیں ہے کہ نوجوانوں میں بے چینی، ڈپریشن اور خودکشی میں اضافے کا نتیجہ انٹرنیٹ یا سوشل نیٹ ورک کا استعمال ہے۔‘
میں اس سے انکار نہیں کرنا چاہتا کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں مسائل ہیں، لیکن اس کے فوائد بھی ہیں۔ کچھ تجربات میں جب نوجوانوں سے کچھ عرصے کے لیے سوشل میڈیا کو ترک کرنے کے لیے کہا گیا، تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ تنہا محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں سے رابطہ نہیں رکھ پاتے۔
میری رائے میں یہ دلیل کہ بے چینی اور ڈپریشن میں اضافہ سوشل میڈیا کا نتیجہ ہے جس کی اصل وجہ میں سمجھتا ہوں اس سے خلفشار ہے۔ مزید یہ کہ جو لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں وہ یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ بے چینی اور ڈپریشن میں اضافہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا (کی مقبولیت) سے پہلے تھا۔
Getty Imagesبڑوں کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں
ماں اور باپ اپنے بچوں کو زیادہ خود مختار بننے اور زیادہ ذہنی تندرستی حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
پہلا قدم یہ ہے کہ آپ اپنی ترجیحات کا جائزہ لیں اور یہ سمجھیں کہ آپ کے بچوں کو آہستہ آہستہ مزید آزادی کی ضرورت ہے۔
ہماری تحقیق کے مقصد کا ایک حصہ ماہرین کو والدین سے آزادی کی ضرورت کے بارے میں بات کرنے پر راضی کرنا ہے۔
لیکن صرف اپنے بچوں کو باہر جانے کا بتانا کام نہیں کرے گا، ان تمام وجوہات کی بنا پر جن پر ہم نے بات کی ہے۔ کوئی پولیس کو بلا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سڑک پر کھیلنے کے لیے دوسرے بچے نہ ہوں، ایسی صورت میں وہ شاید اپنے فون پر رہنے کو ترجیح دیں گے۔
آپ کو اپنے بچوں اور دوسرے بچوں کے لیے بالغوں کی مداخلت کے بغیر اکٹھے ہونے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔ ایک چیز جو والدین کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ پڑوس میں دوسرے والدین کے ساتھ اکٹھے ہوں اور بچوں کو سکول کے بعد ایک ہی وقت میں چھوڑنے کا انتظام کریں جہاں شاید ان کے فون بھی نہ ہوں تو بہتر ہے۔
تاہم ان کی حفاظت کے لی، وہاں ایک بالغ موجود ہونا چاہیے، لیکن صرف ایک جو ان کے درمیان مداخلت نہیں کرےتاوقتیکہ کوئی خطرناک واقعہ پیش نہ آ جائے۔
لیٹ گروو نامی ہماریتنظیم ایک ایسے پروگرام کو فروغ دیتی ہے جس میں بچوں کو سکول کے بعد گلیوں میں کھیلنے کی جگہ فراہم کی جاتی ہے۔ اس کا صرف ایک اصول ہے وہ یہ کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں یا کسی قیمتی چیز کو تباہ نہ کریں۔
ہمارا ایک ساتھی انھیں دیکھنے کے لیے وہاں موجود ہوتا ہے لیکن اسے صرف سنگین معاملات میں مداخلت کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، لڑائی جھگڑے یا گھٹنے کی معمولی چوٹ کی فکر نہ کریں۔