BBCایلسکی عمر اس وقت 11 سال کی تھی جب اومیگل نے ایک پیڈو فائل کے ساتھان کا جوڑا بنا دیا تھا
’میں ذاتی طور پر فخر محسوس کرتی ہوں کہ اب اومیگل باڈی کاؤنٹ نامی ویب سائٹ پر مزید بچے تباہ نہیں ہو سکیں گے۔‘
یہ الفاظ ایک ایسی خاتون کے ہیں جو مقبول لائیو ویڈیو چیٹ ویب سائٹ اومیگل باڈی کاؤنٹ کو طویل جدوجہد کے بعد بند کروانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔
اس وڈیو پلیٹ فارم کو آف لائن کروانے کے بعد ایلس (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے عدالت سے باہر تصفیہ کے ایک حصے کے طور پر اس ویب سائٹ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سائٹ کو بند کروانا ایک ایسی چیز تھی جو میں عدالت میں حاصل نہیں کر سکتی تھی اس لیے مجھے مطلوبہ نتائج کو حاصل کرنے کے لیے یہ سب کرنا پڑا۔
’عدالت میں جو کچھ ہم نے کیا اور اب یہ نتیجہ حاصل کرنا ایسی چیز ہے جس پرشاید میں تمام عمر فخر کروں۔‘
ایلس نے سنہ 2021 میں اپنے ساتھ نو عمری میں جنسی تشدد روا رکھنے سے متعلق اپنا بنیادی مقدمہ شروع کیا تھا جب ان کو ڈیجیٹل جنسی غلام کے طور پر استعمال کرنے والے دو بچوں کے باپ ریان فورڈائس کو کینیڈا میں آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ایلس نے ایک پیڈو فائل کی جانب سے خود کو سالہا سال تک ڈیجیٹل جنسی غلام بنائے جانے کی عدالتی جنگ لڑنے کے بعد طویل عرصہ ہرجانے کی رقم وصول کرنے کی جدوجہد میں گزارا تاہم عدالت سے باہر تصفیے کے طور پر اس ویب سائٹ کو بند کروانے کے عمل نے ان کو بے پناہ اطمینان بخشا ہے۔
نوجوانی کی پریشانیوں سے اُلجھی ایلس جب 11 سال کی عمر میں اومیگل پر لاگ اِن ہوئی تھیں تو اسی وقت ان کا رابطہ کینیڈین پیڈوفائل ریان فورڈس سے ہوا تھا جس کے بعد تین سال تک وہ ڈیجیٹل جنسی غلام بن کر اس کے اشاروں پر چلتی رہیں۔
ایلس نے اس راز کو اپنی قبر تک لے جانے کا ارادہ رکھتی تھیں تاہم جب ریان فورڈائس کو سزا ہوئی تب ایلس نے اپنا مقدمہ لڑا اور آخر کار اپنے بچپن کو برباد کرنے والی اس ویب سائٹ کو بند کروانے میں کامیاب ہو گئیں۔
ایلس اس بات پر انتہائی مشکور ہیں کہ اب بہت سے لوگ اس ویب سائٹ کے بارے میں پریشان کن کہانیاں سامنے لا رہے ہیں۔
’مجھے وہ کام کرنے پر مجبور کرنے لگا جو ایک بچے کو نہیں کرنا چاہیے‘
ایلس نے گذشتہ سال نیویارک میں بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم اومیگل کے لیے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ وہ مقدمے کو جیوری کے سامنے لے جانا چاہتی ہیں جہاں سے انھیں 22 ملین ڈالر معاوضہ ملنے کی امید ہے۔
تاہم اب وہ کہتی ہیں کہ اس ماہ کے شروع میں عدالت سے باہر کسی نامعلوم رقم کے لیے تصفیہ کرنا ان کے اور دوسروں کے لیے بہتر تھا۔
فورڈیس نے ایلس کی اس وقت کی 220 تصاویر اور ویڈیوز اکٹھا کر رکھی تھیں جن میں اس کی عمر 11 سے 14 سال کے درمیان تھی اور اس میں انھوں نے فورڈیس کے دباؤ میں جنسی عمل کیے تھے۔
فورڈیس نے پانچ دیگر لڑکیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا جن میں سے تین لڑکیاں اومیگل پر ملی تھیں۔
’وہ فوری طور پر مجھے شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہو گیا، اور بہت جلد مجھے وہ کام کرنے پر مجبور کرنے لگا جو ایک بچے کو نہیں کرنے چاہییں۔‘
بدنام ویب سائٹ
اومیگل کو سنہ 2009 میں 18 سالہ لیف بروکس نے لانچ کیا تھا۔ یہ ویب سائٹ اپنے صارفین کے لیے ویڈیو چیٹس میں لوگوں کو جوڑا بنا کر ’اجنبیوں سے بات کرنے‘ کا موقع فراہم کرتی تھی۔
ویب سائٹ پر نظر رکھنے والے ادارے سیمرش کے تجزیہ کاروں کے مطابق اس پلیٹ فارم پر ماہانہ تقریباً 73 ملین افراد آتے تھے جن میں بڑی تعداد امریکہ، برطانیہ، میکسیکو اور آسٹریلیا کے رہنے والوں کی تھی۔
اس ویب سائٹ میں عمر کی کوئی قید نہیں تھی اورکافی جدت لیے ہوئے تھی اس لیے اومیگل نے کھلے ڈھلے ماحول اور بعض اوقات جنسی مواد دستیابہونے کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔
تاہم بعض پریشان کن معاملات سامنے آنے کے بعد لیف بروکس نے ہوم پیج پر ایک انتباہ شامل کیا کہ ’اس سائٹ پر بچوں کو جنسی سرگرمیوں میں استعمال کرنے والے بھی آتے ہیں‘ تاہم اس کے علاوہ کوئی اور قابل توجہ تبدیلی نہیں کی گئی۔
سنہ 2020 میں عالمی وبا کووڈ کے لاک ڈاؤن کے دوران اومیگل کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ یاد رہے کہ یہ بی بی سی کی تحقیقات کا موضوع بھی تھا جس میں یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ اس میں نابالغ لڑکے اجنبیوں کے سامنے خود کو واضح طور پر چھوتے پائے گئے تھے۔
بی بی سی کی مزید رپورٹنگ سے پتا چلتا ہے کہ صارفین کو جنسی حرکات کرتے ہوئے ریکارڈ کیا گیا تھا۔ بچوں کی گھات میں شکاری فوٹیج کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو جنسی سرگرمی پر مجبور کرتے تھے۔
’ایلس نے اومیگل کےانسانی المیہ بن جانے پرمیری آنکھیں کھولیں‘
پچھلے دو سالوں میں اس سائٹ کا تذکرہ پیڈو فائلز کے خلاف 50 سے زیادہ مقدمات میں کیا گیا ہے تاہم اس سے قبل انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن اور اقوام متحدہ جیسے بچوں کے تحفظ کے خیراتی اداروں کے الرٹ کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
لیف بروکس نے اپنی چیٹ سروس بند کرنے کے کے ساتھ اپنا ایک طویل بیان بھی لکھا جس کے آخر میں انھوں نے ایج جملہ شامل کیا: ’میں ایلس کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے اومیگل کےانسانی المیہ بن جانے پرمیری آنکھیں کھولیں۔‘
قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ان کا اعتراف بھی ایلس کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا حصہ تھا۔
اس مقدمے میں جیت کے باوجود ایلس کہتی ہیں کہ وہ کبھی بھی معمول کی زندگی میں واپس نہیں آسکیں گی، لیکن وہ شکر گزار ہیں کہ اومیگل کا طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک میرے ذہن پر طاری ہونا ضروری نہیں ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’مجھے ہمیشہ کے لیے اس بات پر فخر ہے کہ جو کچھ میں نے حاصل کیا۔‘
بی بی سی کے نامہ نگارجو ٹائیڈی نے خصوصی طور پر بچوں کے ساتھ بدسلوکی سے بچ جانے والی ایلس اور اس کی قانونی ٹیم کے ساتھ گفتگوکی۔ جو ٹائیڈی ایک کیس بھی تیار کر رہے ہیں جو سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے نتیجہ خیز بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب اومیگل کی قانونی ٹیم نے کیس کو خارج کرنے کے لیے کئی بار کوششیں کیں تاہم ہر بار انھیں ناکامی کا سامنا رہا۔
اپنے بیان میں لیف بروکس نے اپنی چیٹ سائٹ کو بند کرنا انٹرنیٹ کی آزادی پر حملہ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
BBCایلس کے مقدمے کی قیادت کرنے والی کیری گولڈ برگتصدیقی نظام نہ ہونے سے ’جرائم پیشہ افراد کے لیے شکار گاہ‘
گذشتہ ایک سال کے دوران انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز کے خلاف پروڈکٹ کی ذمہ داری کے درجنوں دیگر مقدمات بھی شروع کیے جا چکے ہیں لیکن ایلس کا کیس سر فہرست ہے۔
ایلس کی وکیل کیری گولڈ برگ کا کہنا ہے کہ ’امریکہ میں کمیونیکیشن شائستگی ایکٹ کی دفعہ 230 موجود ہے جس کی وجہ سے آن لائن پلیٹ فارم پر مقدمہ کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔‘
قانونی ٹیم کا استدلال ہے کہ اومیگل بے ترتیب میچنگ سسٹم اور انتباہ یا عمر کی تصدیق کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ’جرائم پیشہ افراد کے لیے شکار گاہ‘ بن گیا تھا۔
کیس کی قیادت کرنے والے اٹارنی کیری گولڈ برگ کہتے ہیں کہ ’ایلس کا کیس درحقیت پہلا کیس ہے جہاں پلیٹ فارمپر ایک صارف سے دوسرے کو نقصان پہنچایا گیا اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پروڈکٹ کے ڈیزائن میں خرابی تھی جس کے باعث انھیں نقصان کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔
اس کیس کے مندرجات سامنے آنے کے بعد انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز کے خلاف ایک سال کے دوران کئی شکایات سامنے آ گئی ہیں۔
بچوں کی سمگلنگ
ایلس کے معاملے نے امریکی قانون میں بھی ایک نئی مثالقائم کر دی ہے جس میں بچوں کی سمگلنگ کے واقعات پر سماجی پلیٹ فارم کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
ایلس کی وکیلگولڈ برگ کہتی ہیں کہ ’سمگلنگ کے منصوبے کے طور پر ہم نے اس مقدمے میں دلائل دیے۔ ہمیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اومیگل کو اس مخصوص شکاری کے بارے میں پہلے سےعلم تھا بلکہ اس کے بجائے یہ کافی ہونا چاہیے کہ انھیں علم ہے کہ ان کے پلیٹ فارم پر بچوں کے جنسی شکاری موجود ہیں اور وہ ان سے مالی طور پربھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ عدالت نے ہماری دلیل سے اتفاق کیا۔‘
انٹرنیٹ سے بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کو ہٹانے والے خیراتی ادارے انٹرنیٹ واچ فاونڈیشن نے اس ویب سائٹ کو خطرناک قرار دیا ہے اور اس کے بند ہو جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔ فروری میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس کے تجزیہ کار ایک ہفتے میں تقریباً 20 اومیگل ویڈیوز سے نمٹتے ہیں۔
’شکاریوں نے بچوں سے زیادتی کے لیے اومیگل کا استعمال کیا اور ہم نے مجرموں کو آپس میں سائٹ کے استعمال پر بحث کرتے ہوئے دیکھا اور اس کو بچوں کی جنسی شکار گاہ کے طور پر جانا۔
آئی ڈبلیو ایف کی سربراہ سوسی ہارگریوز کہتی ہیں۔
’ان تک پہنچنے کی ہماری کوششوں کے باوجود اومیگل نے اس سے نمٹنے کے لیے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا۔‘
بی بی سی نے اومیگل کے مالک اور بانی لیف بروکس سے 2021 سے کئی بار ریکارڈ شدہ انٹرویو کی درخواست کی تاہم انھوں نے اس کے لیے حامی نہیں بھری۔
انھوں نے 2016 کے بعد سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا بند کر دیا تھا اورنہ ہی کہیں عوام سطح پر بات کی۔
ویب سائٹ کی تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر، بی بی سی نے لیف بروکس سے فلوریڈا میں جھیل کے کنارے واقع ان کے گھر کا دورہ کیا،وہاں موجود عملے نے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا، لیکن بعد میں ای میل کے تبادلے میں اسرار کیا کہ اس نے اپنی سائٹ کی حفاظت کے لیے فریق ثالث کمپنی کو ادائیگی کی ہے۔
اس سے قبل لیف بروکس نے بی بی سی کو ایک بیان بھیجا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کہ اومیگل نے مصنوعی ذہانت اور انسانی ماڈریٹرز کے ذریعے اعتدال پسندی کے ساتھ صارفین کی حفاظت کو انتہائی سنجیدگی سے لیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بچوں کے آن لائن استحصال کو روکنے کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی مدد کی ہے۔