پاکستان کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل جن کے کھانوں کی ترکیبیں کینیڈا کے ریستورانوں میں استعمال ہوتی ہیں

بی بی سی اردو  |  Nov 20, 2023

’ہاتھ کھڑا کریں اگر بی بی سی نے کسی سے اس کی ماں کے بارے میں کچھجاننے کے لیے رابطہ کیا ہو۔۔۔‘ 52 سالہکینیڈین اداکار اور ہدایتکار چنگیز جویری اپنی اس پوسٹ کے ساتھ یہ لکھتے ہوئے مجھے وہ بچے لگے جسے اپنی والدہ کی یادوں پر فخر ہے، جنھیں دوسروں کے ساتھبانٹنے میں اسے ویسی ہی آسودگی ملتی ہے جیسی ان کی زندگی میں ان کی آغوش میں ملتی ہو گی۔

چنگیز جویری کی والدہ رخشندہ خٹک نے 1960 کی دہائی کے اواخر سے لگ بھگ 20 سال تک پاکستان میں ہر بڑے برانڈ کی مصنوعات کی تشہیر کی۔

کہیں پینٹ ان کے ذریعے بِک رہا ہے، کہیں کوئی مشروب۔ کہیں ان کے چمکتے دانت کسی ٹوتھ پیسٹ کی فروخت کا باعث ہیں تو کہیں ان کی تابناک مسکراہٹ کسی پنج تارا ہوٹل کی نمائندگی کر رہی ہے۔

اخبار، میگزین، ٹیلی وژن، ہر جگہ لیکن کامیابی کا یہ سفر تھا البتہ مشکل۔

خٹک والد اور برمی والدہ سے ملی خوبصورت اور بلند قامت لیے رخشندہ نے جب کام شروع کیا تب پاکستان میں ایک’ٹاپ ماڈل‘ کے ایک شوٹ کا معاوضہ تقریباً 1000 روپے تھا (اس وقت اسے کافی زیادہ سمجھا جاتا تھا) جب کہ انھیں صرف 300 روپے ملتے۔ (تب ایک امریکی ڈالرپونے پانچ روپے کا تھا)

کراچی میں وکٹوریا روڈ (اب عبداللہ ہارون روڈ) پر کاروبارکرتے پاکستانی جیولر حسین جویری، جن سے رخشندہ کی شادی ہونے والی تھی ایک روز ان کے سیٹ پر چلے گئے۔

چنگیز جویری کے مطابق انھوں نے رخشندہ کی محنت دیکھی اور اس کے مقابلے میں کم معاوضہ تو انھوں نے ڈائریکٹر سے اسے بڑھانےکا مطالبہ کیا۔

’کتنا ؟‘ ڈائریکٹر نےپوچھا۔

حسین جویری نے جواب دیا کہ ’دس گنا۔۔‘

وہ تب تک اشتہاروں کی ضرورت بن چکی تھیں، سو ایسا ہی ہوا۔ رخشندہخٹک نے پاکستان میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ماڈل کے طور پر شوبز میں شہرت حاصل کی۔

پاکستانی صحافی رولنڈ بورجیس کا کہنا ہے کہ جب وہ کہیں داخل ہوتیں تو مرد کَن اَنکھیوں سے انھیں دیکھتے اور خواتین ان کے لباس اور انداز کا جائزہ لے رہی ہوتیں۔ وہ ساڑھی باندھتیں تو خواتین میں ویسا ہی ٹرینڈ چل پڑتا۔

زبانیں سیکھنے، ڈیزائنگ اور تیراکی کی شوقین

مگر رخشندہ صرف چہرہ نہیں تھیں۔ انھوں نے سنہ 1965 میں سینٹ میری، راولپنڈی سے سینیئر کیمبرج پاس کیا۔ انھیں زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ وہ فارسی، پشتو، اردو، انگریزی، پنجابی اور جرمن جانتی تھیں۔

چنگیز کے مطابق انھیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، خاص طور پر اگاتھا کرسٹی کو۔ کئی بار رات رات بھر جاگ کر ان کا ناول یا کوئی کتاب ختم کرتیں۔

بورجیس نے سنہ 1969 میں رخشندہ کے ایک انٹرویو میں لکھا کہ ’اگرچہ رخشی (جیسا کہ انھیں ان کے کچھ دوست جانتے ہیں) نے ڈیزائننگ یاگھریلو سجاوٹ کی کوئی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن وہ اپنے کپڑے خود ڈیزائن کرتی ہیں اور کچھ کی خود سلائی کرتی ہیں۔ گھر کو پیشہ ورانہ طور سے سجایا ہے۔ اور چاہے برمی ہو یا پاکستانیبہت ہی لذیذ پکوان بناتی ہیں۔‘

’ایوننگ سٹار‘ کے لیے جی ڈی غوری کے سنہ 1970 میں ایک انٹرویو میں ’ایک ٹام بوائے کی طرح بڑی ہونے والی‘ رخشندہ کا کہنا تھا کہ ’میں اپنی ماں سے سب سے زیادہ پیار کرتی ہوں۔ انھوں نے مجھے گھر پر قرآن پڑھایا۔‘

’تیراکی کا شوق ہے۔ میں پینٹ بھی کرتی ہوں۔ کبھی کبھی میں گھنٹوں اس میں مصروف رہتی ہوں۔ مجھے رقص کا بھی شوق ہے۔ خود کو متحرک اور چست رکھنے کے لیے یہ ایک اچھی ورزش ہے۔‘

مسالے دار کھانوں کی کئی ترکیبیں اب بھی موجود

1970 ہی میں رخشندہ اور حسین کی شادی ہوئی۔ انگریزی جریدے ہیرالڈ نے تب لکھا تھا کہ رخشندہکے لیے گھریلو زندگی ایسے ہی تھی، جیسے بطخ کے لیے پانی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ بالکل سست ہے، ہر روز کچھ نہ کچھ دلچسپ ہوتا ہے۔‘

’میں اور حسین جب بھی ممکن ہو شکار کے لیے جاتے ہیں۔ہمارے پاس 60 لو برڈز، کافی تعداد میں گولڈ فش ہیں اور ظاہر ہے، مرغیاں بھی پالی ہوئی ہیں۔‘

’مرغیاں پالنے کا شوق حسین کو ہے جو کسان بننا چاہتے تھے مگر والد کے اصرار پر خاندانی کاروبار کی جانب آ گئے۔‘ مگر چنگیز کا کہنا ہے کہ وہ کاشت کاری بھی کرتے جس کے لیے انھوں نے ملازم رکھے ہوئے تھے۔

چنگیز کے مطابق پاکستان کے صفِ اوّل کے فوٹو گرافر (مصطفیٰ فارابی) ٹپو جویری کے والد حسن جویری ان کے تایا تھے اور کینیڈا میں مقیمیوسف جویری ان کے چچا ہیں۔

کراچی میں پیدا ہونے والے چنگیز نے مجھے بتایا کہ ’والد میری والدہ کے لیے انتہائی عمدہ زیورات بناتے تھے۔پاکستان میں وہ ہمیشہ یا تو پارٹیوں کے مہمان ہوتے یا میزبان۔ اکثر مہمان معززین کی بیویاں اس زیور پر تبصرہ کرتیں جو ماں نے پہن رکھا ہوتا تو والد اسے وہیں انھیں بیچ دیتے۔ ماں کو یہ اچھا نہ لگتا مگر والد کہتے کہ فکر نہ کرو، میں تمھیں اس سے بھی اچھا بنا دوں گا اور ایسا ہی ہوتا۔‘

چنگیز نے مزید بتایا کہ ’ہفتے میں کم از کم تین بار تو وہ باہر جاتے لیکن والد اور میرے لیے کھانا پکا کر ماں اپنی محبت کا اظہار کرتیں۔‘

’چائنیز اور بغیر مسالوں کے کھانے والد کے لیے بناتیں۔ کینیڈا میں ان کے مسالے دار کھانوں کی کئی ترکیبیں اب بھی یہاں کیلگری میں کئی ریستورانوں پر استعمال ہو رہی ہیں۔‘

مارشل آرٹس

بورجیس کے مطابق وہ کراٹے میں بلیک بیلٹ حاصل کرنے والی پہلی اور جیو جِتسو میں بلیک بیلٹ لینے والی دوسری پاکستانی خاتون تھیں۔

انھوں نے سنہ 1971 میں ’آپریشن کراچی، جین بانڈ 008‘ کے نام سے ایکشن سے بھرپور ایک فیچر فلم میں اپنے سٹنٹ خود کیے۔

طارق عزیز خان اپنی کتاب ’فیکا‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ بلیک اینڈ وائٹ فلم پاکستان اور ایران کی مشترکہ پیشکش تھی۔

’اس فلم میں جیمز بانڈ کی جگہ جین بانڈ کا کردار متعارف کروایا گیا جس کا کوڈ نام 008 تھا۔ یہ کردار اس زمانے کی مشہور پاکستانی سپر ماڈل رخشندہ خٹک نے ادا کیا تھا۔ فلم کے ہیرو اور بدایت کار رضا فاضلی ایران سے تھے۔‘

’فلم کے دیگر فنکاروں میں ترانہ، ساقی، کمال ایرانی، شرافت پاشا، شاہین ظہور انصاری اور نگو نمایاں تھے۔ فلم کی کہانی ایک برطانوی لیڈی ایجنٹ (رخشنده) کے گرد گھومتی ہے جو ایک قتل کی تفتیش کے لیے کراچی آتی ہے۔ یہاں اس کی ملاقات ایک ٹیکسی ڈرائیور (رضا فاضلی) سے ہوتی ہے۔ فلم میں ساقی ایک انڈر ورلڈ گینگ لیڈر ہیں جو جین بونڈ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ پوری فلم میں جین بونڈ اور ساقی کا گینگ ایک دوسرے کے خلاف ایکشن میں دکھائی دیتے ہیں۔‘

فلم میں صہبا اختر کا لکھا ہوا یہ گیت احمد رشدی کی آواز میں بڑا مقبول ہوا تھا ’اک اڑن کھٹولا آئے گا، اک لال پری کو لائے گا، کیا نام بتاؤں اس کا، کہ ایا یویو۔۔۔‘

یہ اس دور کی پہلی پاکستانی فلم تھی جسے ایران میں فارسی اور بیرونی دنیا میں انگریزی میں ڈب کر کے دکھایا گیا۔

سنہ 2012 سے لاس اینجلس اور کینیڈا میں پیشہ ور اداکار کے طور پر کامکرتے چنگیز کا کہنا تھا کہ ’جین بانڈ فلمکے وقت ماں کی عمر بہت کمتھی۔اور شاید انھوں نے اسے اسی طرحلیا جیسے ایک ماڈللیتی کہ آپ کو اس بات کا بہت خیال ہو کہ آپ کیسی نظر آتی ہیں۔‘

چنگیز نے خود بھی پاکستان میں رہتے ہوئے پانچ سال کی عمر ہی میں ایکٹنگ اور ماڈلنگ شروع کر دی تھی۔

تب کمپنیاں کیلنڈر چھاپتی تھیں۔ وہ ایک کمپنی کے 1978 کے کیلنڈر کا چہرہ بنے۔ ظاہر ہے اس کی تیاری اس سے پچھلے سال ہوئی ہو گی جب پاکستان میں جنرل ضیا الحق نے فوجی انقلاب کے بعد حکومت سنبھالی۔

’سیکھنا کبھی نہیں چھوڑا‘

چنگیز نے بتایا کہ ’ہم نے 1978 میں جون کے آخر میں پاکستان چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ ضیا اقتدار میں آ چکے تھے۔ (ان کے ہاتھوں معزول ہوئے وزیراعظمذوالفقارعلی بھٹو) میرے والد کے بہت اچھے دوست تھے۔ 1980 میں کینیڈا آنے سے پہلے ہم کچھ عرصہ لندن میں رہے۔‘

'کینیڈا میں آباد ہونا مشکل تھا، خاص طور پر ماں کے لیے۔ انھیں پاکستان اور خاص طور پر کراچی کی روشنیوں اور رونق بھری نائٹ لائف بہت یاد آتی۔ والد تو کسی بھی ماحول میں خود کو ڈھال لیتے۔ جب میں بچپن میں تھا تو دونوں والدین نے بہت کام کیا۔ انھیں فیئر مونٹ بی سی میں اپنے کیبن میں وقت گزارنا بھی اچھا لگتا۔‘

’والد نے جلد ہی فیصلہ کرلیا کہ وہ کینیڈا میں زیورات نہیں بیچ سکتے، اس لیے ہم نے پراپرٹی مینجمینٹ کمپنی شروع کی۔ ان ابتدائی برسوں میں ماں کپڑوں کا بوتیک چلاتے فیشن سے اپنی محبت کو اچھے استعمال میں لا رہی تھیں۔‘

’بعد کے برسوں میں والدہ نے سدرن البرٹا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کی اور کھانا پکانے اور بیکنگ میں اعزاز پایا۔ انھیں طالب علم ہونا اچھا لگتا اور انھوں نے سیکھنا کبھی نہیں چھوڑا۔‘

1983 میں جویری خاندان کینیڈین شہری بن گیا۔

ڈاکو کی پٹائی

چنگیز کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنا ویڈیو سٹور کھولا، جو 20 سال سے زیادہ عرصہ چلا۔ یہی سٹور ایک شام ایک شخصلوٹنے آ گیا۔‘

’میں اور میرے والد کہیں گئے ہوئے تھے۔ میری ماں سٹور پر اکیلی تھیں۔ جب وہ آدمی کاؤنٹر کے پاس آیا تو میری ماں کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ یہ سوچیں کہ اسے پیسے دینا ہیں یا اسے مار بھگانا ہے۔ انھوں نے مار بھگانے کا انتخاب کیا۔‘

’ایک ہاتھ سے اس کی کلائی قابو کرتے ہوئے، دوسرے ہاتھ اور لاتوں سے اس کی پٹائی کرنے لگیں۔ تھوڑیہی دیر میں چاقو اس کے ہاتھ سے گر گیا اور اس نے دکان سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ ماں گلی میں اس کا پیچھا کرتی رہیں اور وہاں اکٹھے ہونے والے لوگوں کے سامنے اسے مارتی رہیں۔‘

’والد اور مجھے ان پر بہت فخر تھا۔ خوشی تھی کہ انھیں کوئی چوٹ نہیں آئی اور اس شخص نے سٹور سے باہر پٹائی کے الزامات نہیں لگائے۔ (قانون کے مطابق سٹور سے باہر اسے مارا پیٹا نہیں جا سکتا تھا)۔

کینیڈا منتقلی کے وقت رخشندہ خٹک کل وقتی ماڈلنگ سے کنارہ کش ہو گئی تھیں لیکن اکثر شاید 30 برسوں میں 20 بار، جب وہ پاکستان جاتیں تو کوئی نہ کوئی کام ان کا منتظر ہوتا۔ وہ جب بھی جاتیں تو لامحالہ اخبارات میں ان پر مضمون چھپتے۔

شاعر اور صحافی کلیم عمر نے سنہ 1986 میں اپنے مضمون ’دی کراٹے گرل از بیک‘ میں لکھا کہ ’محترمہ خٹک حقیقت میں آئی ہیں لیکن گذشتہ ہفتے کراچی واپسی کے بعد سے محترمہ خٹک نے کم و بیشلو پروفائل رکھا ہوا ہے، جو ان کے لیے بالکل آسان نہیں۔ ہم یہ کہہ کر بہت خوش ہیں کہ ویلکم ہوم، رخشندہ۔‘

رخشندہ خٹک کی وفات ان کی 62ویں سالگرہ کے دس روز بعد 17 دسمبر 2011 کو کیلگری میں ہوا۔

بورجیس نے لکھا کہ ’ان کے اس دنیا سے جانے پر مجھجیسے پرستار اس میراث کا جشن مناتے ہیں جو انھوں نے چھوڑی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رخشندہ خٹک پاکستان کی پہلی سپر ماڈل تھیں۔‘

چنگیز نے شہر کے ارد گرد کچھ میورل ڈیزائن کیے اور بنائے ہیں، سب سے بڑا چائنا ٹاؤن کی 100ویں سالگرہ کےجشن کے موقع پر بنایا گیا جو 67 فٹ لمبا میورل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’حال ہی میں نہ صرف میری ماں بلکہ اس دور کی دوسری خواتین کا کام بھی لوگوں کے لیے مشعلِ راہ بنا ہے۔ ان لوگوں کے کاموں پر روشنی ڈالنا آج کے کسی بھی نوجوان کو راہ دکھائے تو ماں کو اچھا لگے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ابھی سدرن البرٹا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں فلم اور ٹیلی ویژن پروگرام کے ذریعے ان کے نام سے ایک برسری شروع کی ہے۔ اس سے اگلی نسل کو اپنا راستہ خود بنانے میں مدد ملے گی۔‘

چنگیز نے بات سمیٹتے ہوئے کہا کہ ’جب ان کا انتقال ہوا تو مجھے ان کے ہاتھوں کی طرف دیکھنا یاد ہے، جن میں کئی برسوں تک مارشل آرٹس کرنے اور کھانا پکانے کی وجہ سے درد ہوتا تھا۔ میں نے ان ہاتھوں کو دیکھا اور سوچا کہ ان ہاتھوں نے میری حفاظتکرنے اور مجھے محبت دینے کی پوری کوشش کی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More