محمد شامی: امروہہ کا شرمیلا لڑکا ’سمی‘ جس نے کرکٹ کی دنیا میں کھلبلی مچائی

بی بی سی اردو  |  Nov 19, 2023

دہلی سے لگ بھگ ڈیڑھ سو کلومیٹر دور نیشنل ہائی وے 9 سے ایک پتلی سی بل کھاتی سڑک امروہہ کی جانب جاتی ہے۔

اس سڑک کے دونوں اطراف گنے کے کھیت ہیں۔ ہائی وے سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر اونچی سفید دیواروں میں گھرا ہوا ایک فارم ہاؤس خاصا نمایاں ہے۔

یہ انڈین کرکٹر محمد شامی کا گھر ہے لیکن یہ چار دیواری انھیں ملنے والی ناقابلِ یقین شہرت اور کامیابی کی کہانی بیان کرتی ہے۔

امروہہ کے پُرسکون گاؤں سہس پور علی نگر میں پیدا ہونے والے اور اپنا لڑکپن کچے میدانوں میں ٹینس گیندوں سے کرکٹ کھیل کر گزارنے والے محمد شامی آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں ہلچل مچا چکے ہیں۔

انھوں نے چھ میچوں میں بالترتیب پانچ، چار، پانچ، دو، صفر اور پھر ساٹ وکٹیں حاصل کی ہیں جو کل ملا کر 23 وکٹیں بنتی ہیں۔

یہ کسی بھی بولر کے لیے غیر معمولی کارکردگی ہے اور وہ مچل سٹارک کے ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 27 وکٹیں لینے کے ریکارڈ سے صرف چار وکٹیں دور ہیں۔

سہس پور علی نگر گاؤں میں اب صحافیوں کی بھیڑ ہے اور گاؤں والوں کے پاس بھی محمد شامی سے متعلق متعدد کہانیاں سنانے کو ہیں۔

گاؤں کے لوگ محمد شامی کو ’سمی بھائی‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ سمی جب چھوٹے تھے تو ان کے والد توصیف علی گاؤں میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔

BBCمحمد شامی کے گاؤں میں کھیلنے والے لڑکے کی تصویر

سہس پور کے رہنے والے محمد جمعہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس گاؤں میں کرکٹ لانے والے توصیف ہی تھے۔ ان دنوں ہم ریڈیو پر کمنٹری سنتے تھے، وہاں سے کرکٹ کا شوق پیدا ہوا، توصیف کرکٹ کِٹ لے کر آئے اور گاؤں میں ایک پچ بنائی۔‘

جمعہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سمی کو بہت چھوٹی عمر سے ایکسٹرا فیلڈر کے طور پر کھلایا جاتا تھا، وہ بہت تیز دوڑتے تھے۔ پھر انھوں نے بولنگ شروع کر دی، اگر کھیلنے کے لیے کوئی نہ ہوتا تو وہ اکیلے بولنگ کرتے تھے۔‘

گاؤں میں محمد شامی کے گھر کے بالکل ساتھ ایک پرانا قبرستان ہے۔ اب یہاں اونچی اونچی جھاڑیاں ہیں، لیکن جس زمانے میں شامی کرکٹ کھیلنا سیکھ رہے تھے، اس وقت یہاں قریب ہی ایک پچ ہوا کرتی تھی۔

شامی کی گیندیں اس کھردری زمین پر بنائی گئی پِچ پر تباہی مچاتی تھیں۔

BBCجمعہ کے مطابق شامی کے والد توصیف احمد نے سب سے پہلے گاؤں میں کرکٹ کھیلنا شروع کی۔

جمعہ ان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’گاؤں کی اپنی کرکٹ ٹیم تھی۔ شامی کے بڑے بھائی حسیب بھی آل راؤنڈر تھے۔ اس دور کے بچے پولیس اور فوج میں بھرتی ہونے میں دلچسپی رکھتے تھے، کرکٹ فٹنس کے لیے اچھی تھی، اس لیے ہماری ایک مضبوط ٹیم تھی۔‘

محمد شامی نے اپنی رفتار سے اپنی پہچان بنائی تھی۔ علاقے میں ہونے والے کرکٹ ٹورنامنٹس میں ان کا کھیل دیکھنے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے تھے۔

جمعہ کہتے ہیں کہ ’ان کھلاڑیوں کے لیے گاؤں کے میدان چھوٹے ہوتے جا رہے تھے۔ شہر کی ٹیموں کے خلاف میچ کھیلے جانے لگے۔

’مراد آباد کے سوناک پور سٹیڈیم میں کھیلتے ہوئے ایک دن کوچ بدرالدین کی توجہ شامی پر پڑی اور انھوں نے شامی کو سٹیڈیم میں پریکٹس کے لیے بلا لیا۔‘

یہ محمد شامی کے کریئر کا اہم موڑ تھا۔ اب ان کے پاس ایک میدان، ایک کوچ اور اگلی منزلیں طے کرنے کے لیے ایک بھرپور خواب تھا۔

کوچ بدرالدین بھی شامی کی رفتار سے متاثر ہوئے۔ انھوں نے ہی شامی کو مزید تربیت کے لیے کولکتہ جانے کی ترغیب دی۔

لیکن آج بدرالدین بھی شامی کی کارکردگی دیکھ کر حیران ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بدرالدین کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ شامی آگے بڑھیں گے لیکن کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ آج شامی دنیا کے بہترین بولر ہیں۔‘

شامی کی کامیابی کی وجہ بتاتے ہوئے بدرالدین کہتے ہیں کہ ’وہ بہترین سیم پوزیشن کے ساتھ گیند کر رہے ہیں۔ ان کی سیم پوزیشن اس وقت دنیا میں سب سے بہترین ہے۔‘

’ان کا طریقہ کار سادہ ہے، جو ان کی سب سے بڑی طاقت ہے، اور وہ اسی پر توجہ دے رہے ہیں۔ وہ گیند کو ایک ہی جگہ پھینکتے ہیں اور وہاں سے انھیں سوئنگ حاصل ہوتی ہے۔

’ان کی گیند کو سیم اور سوئنگ دونوں مل رہے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا کے بہترین بلے باز بھی ان کے سامنے خاصے الجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔‘

بدرالدین شامی کی تاریخی کارکردگی کا سہرا ان کی محنت کو دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے پریکٹس کرنا کبھی نہیں چھوڑی، وہ ہمیشہ محنت کرتے رہے۔ ورلڈ کپ میں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ اسی محنت کا نتیجہ ہے جو وہ کئی سالوں سے کر رہے ہیں۔‘

BBCشامی کے بڑے بھائی حسیب خود بھی کرکٹ کھیلتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے والد کرکٹ کھیلا کرتے تھے، انھیں دیکھ کر ہم دونوں بھائی کرکٹ کے دلدادہ ہو گئے۔‘

سہس پور علی نگر گاؤں کے باہر بنائے جانے والے پولی ٹیکنیک کالج کا گراؤنڈ بھی گاؤں کے بچوں کے لیے کھیل کا میدان ہے۔ سبز گھاس اور فلیٹ پچ کے اس میدان میں گاؤں کے بہت سے لڑکے دوپہر کو کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں۔

محمد شامی نے نوجوانوں کی پوری نسل کو متاثر کیا ہے اور اس میں ان کے گاؤں کے لڑکے بھی شامل ہیں۔

منیر بھی فاسٹ باؤلر ہیں اور انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سمی بھائی کو دیکھ کر ہم بھی کھیل رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر وہ کمال کر سکتا ہے تو ایک دن ہم بھی کر سکتے ہیں۔‘

گاؤں میں یہ واحد گراؤنڈ ہے لیکن اب ایک نئی عمارت بنانے کے لیے اس میں گڑھے کھودے جانے لگے ہیں۔

یہاں ابھی تک کھیلوں کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ منیر کا کہنا ہے کہ سہولیات ہوں یا نہ ہوں ہم کھیلیں گے اور اگر ہم سمی بھائی کی طرح بولنگ کریں گے تو ہمیں بھی کہیں نہ کہیں جگہ ملے گی۔

ورلڈ کپ میں محمد شامی کی شاندار کارکردگی کے بعد اب امروہہ ضلع انتظامیہ یہاں سٹیڈیم بنانے جا رہی ہے۔

امروہہ کے ضلع مجسٹریٹ راجیش کمار تیاگی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے حکومت کو محمد شامی کے گاؤں میں ایک چھوٹا سٹیڈیم بنانے کی تجویز بھیجی ہے اور منظوری ملتے ہی اس کے لیے کام شروع کر دیا جائے گا۔

’ہم نے زمین کی نشاندہی کر لی ہے اور ضلعی حکام کو یہ بات بتائی گئی ہے۔ گاؤں کا دورہ بھی کیا ہے۔‘

منیر جیسے کھلاڑی خوش ہیں کہ محمد شامی کی وجہ سے گاؤں میں سٹیڈیم بنے گا اور دیگر سہولیات میسر آئیں گی۔

BBCشامی کی والدہ انجم آرا کو کرکٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اپنے بیٹے کی کامیابی پر خوش ہیں اور فائنل میچ سے قبل دعائیں مانگ رہی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں اس گاؤں میں کھیلوں کی سہولیات کو ترقی دینے کے اعلانات بھی کر رہی ہیں۔ راشٹریہ لوک دل کے رہنما جینت چودھری نے کہا ہے کہ وہ اپنے پارلیمانی فنڈ سے محمد شامی کے گاؤں میں کھیلوں کی سہولیات تیار کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب محمد شامی کے گھر پر خوشی کا ماحول ہے۔ دہلی سے درجنوں صحافی یہاں پہنچ چکے ہیں اور ایک ایک کر کے شامی کے گھر والوں کا انٹرویو کر رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شامی کے بڑے بھائی حسیب کا کہنا ہے کہ 'جب شامی نے پانچ وکٹیں لیں تو میں دل میں سوچتا تھا کہ کاش کسی دن یہ چھ یا سات وکٹیں لے، اب شامی نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے، اس پر پورا علاقہ خوش ہے۔‘

حسیب خود بھی کرکٹ کھیلتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے والد کرکٹ کھیلا کرتے تھے، انھیں دیکھ کر ہم دونوں بھائی کرکٹ کے دلدادہ ہو گئے، شامی کی رفتار تھی، گھر والوں نے اس کی تربیت پر توجہ دی، دو بھائیوں میں سے صرف ایک کو بھیجا جا سکا، شامی چلا گیا اور آج نتائج سامنے آ رہے ہیں۔‘

حسیب میچ دیکھنے وانکھیڈے سٹیڈیم نہیں جا سکے کیونکہ انھوں نے فائنل دیکھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

حسیب کہتے ہیں کہ ہمیں یقین تھا کہ ’انڈیا میچ جیتے گا، اس لیے ہم احمد آباد جانا چاہتے تھے، لیکن اب ہمیں وانکھیڈے میں سیمی فائنل نہ دیکھنے کا افسوس ہے۔ ہم میدان میں یہ تاریخی کارکردگی نہیں دیکھ سکے۔‘

حسیب اب اپنی فیملی کے ساتھ میچ دیکھنے احمد آباد چلا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں شامی پر اتنا ہی فخر ہے جتنا آج ہر انڈین کو ہے۔‘

اپنی ذاتی زندگی میں اتار چڑھاؤ کے باوجود محمد شامی نے کھیل پر توجہ مرکوز رکھی اور کسی بھی حالت میں اپنی پریکٹس نہیں چھوڑی۔

حسیب کہتے ہیں کہ ’وہ ہر روز دوپہر دو بجے سے رات 10 بجے کے درمیان پریکٹس کرتا ہے، اس دوران وہ کسی سے بات نہیں کرتا۔ کچھ بھی ہو جائے، وہ اپنی پریکٹس کو کبھی ترک نہیں کرتا۔ یہ مسلسل، نہ رکنے والی محنت ہی اس کی کامیابی کی وجہ ہے۔‘

محمد شامی کی شخصیت بہت شرمیلی ہے، وہ لوگوں سے بہت کم بات کرتے ہیں۔ حسیب کہتے ہیں کہ ’وہ بولتا نہیں، بس مسکراتا ہے۔ یہاں تک کہ جب یہاں آتا ہے تو کم ہی باہر نکلتا ہے۔‘

شامی کی والدہ انجم آرا کو کرکٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اپنے بیٹے کی کامیابی پر خوش ہیں اور فائنل میچ سے قبل دعائیں مانگ رہی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More