Getty Images
ایک لاکھ سے زیادہ تماشائیوں کے سامنے اور ایک ارب 40 کروڑ لوگوں کی ’نیک خواہشات اور دعاؤں‘ کے باوجود آسٹریلیا نے ورلڈ کپ میں ناقابل تسخیر انڈین ٹیم کو فائنل میں شکست سے دوچار کیا اور ریکارڈ چھٹی بار ورلڈ کپ کی فاتح قرار پائی۔
اس میچ کو دیکھنے کے لیے ایک جانب جہاں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی بنفس نفیس اپنے نام سے منسوب ’نریندر مودی سٹیڈیم‘ میں براجمان تھے وہیں انڈین وزیر داخلہ امت شاہ اور آسٹریلیا کے نائب وزیر اعظم بھی وہیں موجود تھے۔
ٹیم انڈیا کی پورے ورلڈ کپ کی کارکردگی ایک طرف اور فائنل کا کھیل دوسری طرف نظر آتا ہے اس لیے لوگوں کے دلوں میں سوالوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہے کہ آخر انڈین ٹیم فائنل میں آ کر کیونکر ناکام ہوئی؟
آج سے لگ بھگ ایک ماہ قبل جب اسی سٹیڈیم میں انڈیا نے ورلڈ کپ کے ابتدائی میچوں میں پاکستان کو شکست سے دوچار کیا تھا تو مبصرین کی جانب سے ’سلو پچ‘ کی بات کی گئی تھی۔ اس کے بعد کے متعدد میچوں میں سلو پچ کی شکایت کی گئی اور الزام عائد کیا گیا کہ میزبان ملک اپنے سپنرز کے لیے سلو پچ تیار کر رہا ہے۔
ممبئی کے وانکھیڑے سٹیڈیم میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں بھی یہ بات سامنے آئی اور انڈیا کو اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا کیونکہ ٹیم انڈیا نے رنز کا ایسا پہاڑ کھڑا کیا کہ جس کے بوجھ تلے نیوزی لینڈ کی ٹیم دب گئی اور رہی سہی کسر محمد شامی کی تباہ کن بولنگ نے پوری کر دی جنھوں نے اس میچ میں ریکارڈ سات وکٹیں لیں۔
’سلو پچ کی حکمت عملی الٹی پڑی‘Getty Images
آسٹریلین کپتان پیٹ کمنز نے میچ سے قبل مبینہ طور پر سلو پچ کی شکایت بھی کی تھی لیکن ٹاس جیت کر انھوں نے ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا جو ان کی ٹیم کی شاندار فیلڈنگ اور درست لینتھ اور لائن پر بولنگ کی وجہ سے بار آور ثابت ہوا۔
میچ کے بعد پیٹ کمنز نے ایک مرتبہ پھر اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے جتنا سوچا تھا یہ پچ اس سے کچھ زیادہ سلو تھی۔ اور یہ اتنی سپن نہیں کر رہی تھی جتنا ہم نے سوچا تھا لیکن میرے خیال سے سب نے اس کے حساب سے خود کو تیار کیا اور درست لائن اور لینتھ پر بولنگ کی۔‘
آسٹریلیا کے سابق کپتان رکی پونٹنگ، جن کی کپتانی میں آسٹریلیا نے دو بار ورلڈ کپ جیتا، نے فائنل میچ کی کمنٹری کے دوران کہا کہ ’انڈیا اپنے بچھائے جال میں خود ہی پھنس گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آج حالات بہت ہی زیادہ بر صغیر جیسے تھے۔ اگر سچ کہیں تو انڈیا نے جو وکٹ تیار کی تھی شاید وہ اس پر الٹی پڑ گئی۔‘
جبکہ انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کپتان مائیکل وان اور ناصر حسین نے بھی کہا کہ آسٹریلیا نے کنڈیشن کا انڈیا کے مقابلے میں بہتر فائدہ اٹھایا۔
مائیکل وان نے کہا کہ آسٹریلینز زیادہ ہوشیار نکلے۔ ’انھوں نے وہی کیا جو پیٹ کمنس نے کہا تھا۔ انھوں نے بھیڑ (تماشائیوں) کو خاموش کر دیا۔ انھوں نے بہت شاندار انداز میں یہ کام کیا۔ میں کسی ایک شخص کو بھی نہیں جانتا جس نے یہ سوچا تھا کہ آسٹریلین ٹیم 43 اوورز میں ہی انڈیا کے خلاف ہدف کو باآسانی حاصل کر لے گی۔‘
ناصر حسین نے کہا کہ ’انڈیا اب بھی ایک عظیم ٹیم ہے لیکن پچ نے آسٹریلیا کے لیے کام کر دیا۔‘
انھوں نے کہا کہ پورے ٹورنامنٹ میں انڈیا کے بولروں کو بیٹنگ کا موقع نہیں ملا اور یہ ان کے لیے ڈراونا خواب ثابت ہوا اور یہی وجہ ہے کہ کوہلی اور راہل نے خطرہ مول لینے سے پرہیز کیا۔‘
’انڈین ٹیم اپنے ہی سوا لاکھ تماشائیوں کے دباؤ میں آ گئی‘Getty Images
سپورٹس صحافی معین الدین حمید نے کینیڈا سے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ انڈین ٹیم اپنے ہی سوا لاکھ تماشائیوں کے دباؤ میں آ گئی۔ انھوں نے کہا کہ ’آپ سوچ سکتے ہیں کہ آخری چالیس اوورز میں انڈین بیٹسمینوں نے صرف چار یا پانچ چوکے لگائے۔ کے ایل راہل خاص طور سے دباؤ میں نظر آئے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پچ تو دونوں ٹیموں کے لیے ایک ہی تھی لیکن آسٹریلیا نے اس پر اچھی بولنگ کروائی۔ انڈین بیٹسمینوں نے ہمیں مایوس کیا۔‘
اے آر وائی کے ورلڈ کپ سپیشل پروگرام ’دی پویلین‘ میں پاکستان کے سابق کپتان اور فاسٹ بولر وسیم اکرم نے کہا کہ ’اس قسم کی پچ پورے ٹورنامنٹ میں کہیں نہیں دیکھی گئی۔‘
’انڈیا کا اندازہ بالکل غلط نکلا۔ کم سکور کی وجہ سے انڈین بولرز دباؤ میں تھے۔ آسٹریلیا نے پہلے دو اوورز میں ہی 30 رنز بنا لیے تھے۔ پچ بہت خشک تھی جو 50 اوورز کے بعد مزید سست ہو گئی۔ آسٹریلیا کی جانب سے بولنگ مکمل طور پر حکمت عملی کے مطابق تھی۔ گیند جہاں بھی گئی آسٹریلوی کھلاڑی موجود تھے۔ بیٹنگ میں ٹیلنٹ کی ضرورت ہوتی ہے، بولنگ میں ٹیلنٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن فیلڈنگ میں فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے اور آسٹریلوی فٹنس پر بہت زور دیتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
ورلڈ کپ کی ناقابلِ شکست ٹیم انڈیا فائنل ہار گئی
راہل دراوڈ: وہ شخص جو کرکٹ ورلڈ کپ میں انڈیا کی مسلسل فتوحات کا ذمہ دار ہے
کیا پچ نے دھوکہ دیا؟Getty Imagesروہت شرما پچ دیکھتے ہوئے
اس سوال کے جواب میں وسیم اکرم نے کہا کہ ’پچ دونوں ٹیموں کے لیے یکساں تھی لیکن آسٹریلیا نے اندازہ زیادہ موثر انداز میں لگایا۔‘
وسیم اکرم نے کہا کہ ’اگر بیٹنگ پچ ہوتی تو یہ انڈیا کے حق میں ہوتی۔ پچ سے فرق پڑتا ہے۔ کم سکور کی وجہ سے انڈین گیند بازوں نے آزادانہ گیند بازی نہیں کی۔ وارنر نے پہلے ہی اوور میں مارنا شروع کر دیا۔ پہلی اور دوسری گیند پر ہی باؤنڈری لگانے لگے۔‘
کرکٹ کی سمجھ رکھنے والے سوشل میڈیا پر پچ کے سلو ہونے کی بات کہہ رہے ہیں۔
معروف صحافی اور کرکٹر دلیپ سردیسائی کے بیٹے راجدیپ سردیسائی نے پہلے ڈرنکس کے بعد لکھا کہ ’ورلڈ کپ فائنل کے لیے یہ کم مناسب سلو اور ڈرائی پچ رہی (آئی سی سی/ بی سی سی آئی کو اس بابت چند سوالات کے جواب دینے ہوں گے)۔ روہت کو سیٹ ہونے کے بعد بڑے سکور کے لیے جانا چاہیے تھا۔ آسٹریلینز نے شاندار فیلڈنگ کی ہے۔ ٹریوس ہیڈ کا ناقابل یقین کيچ، کمنز نے درست لینتھ پر بولنگ کی، کوہلی نے اپنے کھیل پر قابو رکھا ہوا ہے اور انھیں اس وکٹ پر جمے رہنا چاہیے۔۔۔‘
سابق کرکٹر آکاش چوپڑا نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’روہت کا ٹکے رہنا ضروری تھا کیونکہ یہ سلو پچ بڑے سکور کے لیے سازگار نہیں۔‘
اس سے قبل صحافی سگاریکا گھوش نے سیمی فائنل کے وقت لکھا تھا کہ ’انڈیا ورلڈ کپ 2023 میں برتر ٹیم رہی ہے تو پھر انڈیا کو پچ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کیا ضرورت؟ یقینی طور پر ورلڈ کپ کی نگرانی آئی سی سی کرتی ہے نہ کہ بی سی سی آئی؟ پھر کرکٹ پچ سے ’چھیڑ چھاڑ‘ کے الزامات کیوں؟‘
اوے وویک نامی صارف نے ٹویٹ کیا: ’میں اس کم ٹوٹل کے لیے روہت شرما کو ذمہ دار گردانتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ وہ خراب کھیلے، بلکہ اس لیے کہ انھیں سست پچ کو دیکھتے ہوئے حکمت عملی کے ساتھ اپنی بیٹنگ کرنا چاہیے تھا۔ کبھی کبھی اپنی پوری صلاحیت کے ادراک کے لیے فطری کھیل سے انحراف کرنا ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر ورلڈ کپ کے فائنل میں ان کا آؤٹ ہونا انتہائی اہم تھا۔‘
https://twitter.com/oyevivekk/status/1726263403399029086
آسٹریلین اخبار ہیرالڈ سن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ورلڈ کپ کا فائنل اسی پچ پر کھیلا گیا جس پر گذشتہ ماہ کھیلے گئے لیگ میچ میں انڈیا نے پاکستان کے خلاف سات وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔‘
’پیٹ کمنز نے بھی ایک دن پہلے پچ کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔ بالآخر گھاس کی پٹی نے آسٹریلیا کو ہدف کا بہتر تعاقب کرنے میں مدد کی۔‘
’تماشائیوں میں کھیل کے جذبے کی کمی‘Getty Imagesآسٹریلیا ریکارڈ چھٹی بار ورلڈ کپ کی فاتح بنی
ورلڈ کپ کے دوران انڈین شائقین کی جانب سے سپورٹس مین سپرٹ یعنی کھیل کے جذبے کی عدم موجودگی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
صحافی معین الدین حمید نے کہا کہ یہ فائنل اگر احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم کے بجائے ممبئی یا کوکلتہ میں ہوتا تو شاید وہاں کے شائقین آسٹریلین کھلاڑیوں کے اچھے کھیل، ان کی فیلڈنگ، بیٹنگ اور بولنگ کی تعریف و تحسین کرتے لیکن احمدآباد تو اس معاملے بالکل خشک ثابت ہوا۔‘
آسٹریلین اخبار دی ایج نے بھی اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ شور مچانے والے 90 ہزار سے زیادہ ناظرین سے بھرے سٹیڈیم میں وراٹ کوہلی کے وکٹ گرنے کی آواز کے بعد صرف آسٹریلیا کے 11 کھلاڑیوں کی پرجوش آواز سنائی دے رہی تھی۔‘
اخبار کے مطابق کوہلی کی وکٹ لے کر کمنز نے اپنی ٹیم کو فتح کے راستے پر ڈال دیا تھا اور پھر بقیہ کام ٹریوس ہیڈ اور مارنس لیبوشین کے درمیان 192 رنز کی شراکت نے پورا کر دیا۔
’خواہ کوہلی کی پچ سے رخصتی ہو، ہیڈ کی سنچری ہو یا فتح کا لمحہ، نریندر مودی سٹیڈیم میں چھائی ہوئی خاموشی کمنز اور ان کی ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے سنہری لمحہ تھی۔‘