یہ سنہ 1804 کا ذکر ہے۔ ہندوستان کی جنگِ آزادی ہونے میں ابھی 53 برس باقی ہیں مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہندوستان کے مختلف علاقوں کی جانب پیش قدمی جاری ہے۔کمپنی کی حکومت فی الحال پنجاب تک نہیں پہنچی جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کو ایک طاقتور حکمران کے طور پر ابھرے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ان دنوں ہی ایک چھوٹے سے قصبے اور 40 دیہات پر مشتمل پٹوڈی کی شاہی ریاست قائم ہوتی ہے۔ یہ قصبہ اس وقت انڈین ریاست ہریانہ کا حصہ ہے۔ریاست پٹوڈی کے پہلے نواب فیض طلب خان تھے جو ایک افغان پشتون اور بریخ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جنہیں یہ جاگیر ایسٹ انڈیا کمپنی کا دوسری اینگلو مراٹھہ جنگ میں ساتھ دینے پر انعام کے طور پر دی گئی تھی۔فیض طلب خان کے آباؤاجداد 16ویں صدی میں لودھی عہدِ حکومت میں ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے تھے۔ریاستِ پٹوڈی کے آٹھویں نواب افتخار علی خان پٹوڈی 1917 سے لے کر 1952 تک پٹوڈی کے نواب رہے۔ سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد یہ ریاست آزاد ہندوستان میں شامل ہو گئی مگر انڈین حکومت نے پٹوڈی ریاست کے شاہی خاندان کو بہت سی رعایتیں دیں جن میں نواب آف پٹوڈی کا خطاب استعمال کرنے کی اجازت بھی شامل تھی۔ یہ خطاب نواب افتخار علی خان نے 1952 میں اپنی وفات تک استعمال کیا۔ریاست کے ساتویں نواب ابراہیم علی خان کی وفات کے بعد نواب افتخار علی خان کو پٹوڈی کا نواب منتخب کیا گیا۔ ان کے بھائی نواب زادہ شیر علی خان پٹوڈی انڈین فوج میں کمیشنڈ افسر کے طور پر بھرتی ہوئے جنہوں نے زاں بعد نو آزاد شدہ ملک پاکستان کی نظریاتی بنیادیں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس خاندان کا ایک اہم حوالہ کرکٹ بھی ہے۔ نواب افتخار علی خان کرکٹ کی تاریخ کے وہ واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے اس کھیل میں انگلینڈ اور ہندوستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران چھ ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں سے تین میں انگلینڈ جبکہ باقی تین میچز میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔وہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان بھی تھے جس نے سنہ 1946 میں انگلینڈ کا دورہ کیا۔ انہوں نے 33-1932 کی ایشز سیریز میں سڈنی میں اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سینچری سکور کی اور انگلینڈ یہ ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب رہا۔نواب افتخار علی خان پٹوڈی 1917 سے لے کر 1952 تک پٹوڈی کے نواب رہے۔ (فوٹو: آواز)نواب افتخار علی خان کے بیٹے نواب منصور علی خان پٹوڈی کا شمار انڈین کرکٹ ٹیم کے عظیم ترین کپتانوں میں کیا جاتا ہے۔ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’نواب منصور علی پٹوڈی (یا ٹائیگر پٹوڈی) کی شاہی حیثیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے ننھیال بھوپال کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔‘بھوپال اس وقت انڈیا کی ایک بڑی ریاست تھی۔مضمون کے مطابق ’وہ ہندوستان میں ضم ہونے والی بھوپال کی شاہی ریاست کے آخری اور 13ویں نواب حمیداللہ خان کے نواسے تھے۔‘’نواب منصور علی خان کی والدہ ساجدہ سلطان نواب حمیداللہ خان کی جانشین تھیں جس کے باعث نواب منصور علی خان بھوپال کی شاہی ریاست کے ایک اہم ُرکن قرار پائے۔‘ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’ساجدہ سلطان اپنی بہن عابدہ سلطان کے تقسیم کے وقت پاکستان منتقل ہو جانے کی وجہ سے اپنے باپ کی جانشین بنیں جن کی شادی ’کوروائی‘ کے نواب سرور علی خان سے ہوئی تھی۔ عابدہ سلطان نے پاکستان میں اہم سفارتی عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ ان کے صاحبزادے شہریار خان 1990 سے 1994 تک پاکستان کے سیکریٹری خارجہ رہے۔‘یوں شہریار خان نواب منصور علی خان کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے جبکہ 2016 میں ایشین کرکٹ کونسل کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ساجدہ سلطان بھوپال کی شاہی ریاست کے نواب حمیداللہ خان کی جانشین تھیں۔ (فوٹو: پنٹریسٹ)نواب افتخار علی خان 1952 میں نواب منصور علی خان کی سالگرہ کے دن پولو کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔نواب منصور علی خان نے 1971 میں 26ویں آئینی ترمیم تک نواب کا خطاب استعمال کیا جس کے بعد انڈین حکومت کی جانب سے یہ خطاب ختم کر دیا گیا۔وہ اپنے والد کی طرح کمسنی میں ہی ریاستِ پٹوڈی کے نواب بن گئے تھے اور کرکٹ کا شوق انہیں ورثے میں ملا تھا۔ وہ کور میں چیتے کی سی پھرتی سے فیلڈنگ کرنے کے باعث ٹائیگر پٹوڈی کے نام سے مشہور ہوئے۔انہوں نے محض 21 برس اور 77 دنوں کی عمر میں ٹیسٹ کھیلنے والی کرکٹ ٹیم کا کم عمر ترین کپتان ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور یہ ریکارڈ ایک طویل عرصے تک نہ توڑا جا سکا۔ وہ انڈین ٹیم کے اب تک کے سب سے کم عمر اور کامیاب ترین کپتانوں میں سے ایک ہیں۔نواب منصور علی پٹوڈی نے چھ سینچریوں کی مدد سے 46 ٹیسٹ میچوں میں 2793 رنز سکور کیے۔ انہوں نے فرسٹ کلاس میں 15 ہزار 425 رنز سکور کیے۔نواب منصور علی خان پٹوڈی کی انڈین کرکٹ ٹیم کا کپتان بننے سے کچھ عرصہ قبل ہی انگلینڈ میں کار کے ایک حادثے میں ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ان کی اپنے عہد کی مشہور اور حسین اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے شادی بھی خبروں کی زینت رہی۔ ان دونوں کی شاہی شادی اور شاہانہ دعوت کئی دنوں تک عام گفتگو کا موضوع بنی رہی۔ ان دونوں کی شادی 43 برس تک برقرار رہی اور 2011 میں نواب منصور علی خان پٹوڈی کا انتقال ہو گیا۔نواب منصور علی خان پٹوڈی اور شرمیلا ٹیگور کا 43 برس کا ساتھ رہا۔ (فوٹو: فلم فیئر)شرمیلا ٹیگور نے ’کپل شرما شو‘ میں نواب منصور علی خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میری کسی نہ کسی طرح نواب پٹوڈی سے ملاقات ہو گئی۔ وہ کچھ روز قبل ہی برطانیہ کے دورے سے واپس لوٹے تھے اور ان کے انگریزی زبان کے لہجے کو سمجھنا میرے لیے آسان نہیں تھا۔ وہ خود ہی لطیفہ سناتے، خود ہی ہنستے تھے کیوںکہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔‘شرمیلا ٹیگور بنگال کے مشہور ٹیگور خاندان کی رُکن ہیں اور وہ نوبیل انعام یافتہ مصنف رابندر ناتھ ٹیگور کی دور کی رشتہ دار ہیں۔انہوں نے کپل شرما شو میں اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پیرس میں تھے جہاں شہری آزادی کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے۔ وہ (نواب منصور علی پٹوڈی) کسی فلمی منظر کی طرح اپنے گھٹنوں پر جھکے اور مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟‘ میں نے کچھ یوں جواب دیا ’کیا بول رہے ہو؟ سنائی نہیں دے رہا۔‘انہوں نے تب بلند آواز میں اپنا جملہ دہرایا تو میں نے جواب دیا، ’ہاں، میں آپ سے ہی شادی کروں گی۔‘ان دونوں کی اولاد میں بالی وڈ کے اداکار سیف علی خان، اداکارہ سوہا علی خان اور جیولری ڈیزائنر صبا علی خان شامل ہیں۔سیف علی خان کی بیٹی سارہ علی خان بھی بالی وڈ کا ابھرتا ہوا چہرہ ہیں جبکہ ان کی دوسری بیوی کرینہ کپور فلمی انڈسٹری کے معروف کپور خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ سوہا علی خان کے شوہر کنال کھیمو بھی اداکار ہیں۔سیف علی خان کی بیٹی سارہ علی خان بھی بالی وڈ کا ابھرتا ہوا چہرہ ہیں۔ (فوٹو: ٹائمز آف انڈیا)اب کچھ ذکر نواب منصور علی خان کے چچا اور نواب افتخار علی خان کے بھائی میجر جنرل شیر علی خان پٹوڈی کا ہو جائے جنہوں نے تقسیم کے بعد پاکستان میں آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ برٹش انڈیا آرمی سے منسلک تھے اور جنرل یحییٰ خان کے دور میں ملک کے وزیرِ اطلاعات بھی رہے۔سابق وزیراعظم فیروز خان نون کے دور میں ان کے کمانڈر ان چیف بننے کے واضح امکانات موجود تھے مگر اس وقت کمانڈر ان چیف ایوب خان کی مخالفت کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکا۔معروف کالم نگار اور دانشور قیوم نظامی اپنی کتاب ’قائداعظم بحثیت گورنر جنرل‘ میں لکھتے ہیں، ’سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائداعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس پر قائداعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا: ’میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔‘اس وقت بریگیڈیئر نواب شیر علی خان پٹوڈی ایوب خان کے لیے سفارش کرنے کی غرض سے جنرل فرینک میسروی سے ملاقات کے لیے کراچی سے راولپنڈی گئے مگر ان کی سفارش جنرل ایوب خان کے کام نہ آ سکی۔سینیئر صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں سابق سینیئر سول سرونٹ اور سابق وفاقی وزیر برائے احتساب روئیداد خان کے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’شیر علی خان پٹودی نے یحییٰ خان کے نام ایک خط میں پاکستان میں اقتدار کے ڈھانچے میں فوج کے کردار کا فلسفہ بیان کیا تھا۔‘وجاہت مسعود کے مطابق نظریہ پاکستان کی اصطلاح میجر جنرل شیر علی خان پٹوڈی کی عطا کردہ ہے۔ (فوٹو: نیشنل تھیوری فیس بک)یاد رہے کہ شیر علی خان اور جنرل یحییٰ خان 1948 میں جنرل میسروی کی قائم کردہ اس دو رکنی کمیٹی میں شامل تھے جسے پاکستانی فوج کا طویل مدتی بیانیہ مرتب کرنا تھا۔شیر علی خان نے صدر یحییٰ کو لکھا کہ ’ایوب خان کے بعد فوج کے اقتدار سنبھالنے کی وجہ اس کی فائر پاور نہیں تھی۔ ہم تو ڈھاکہ میں نواب پور روڈ پر بھی قبضہ نہیں کر سکتے تھے۔ فوج کی طاقت اس کے کرشماتی تاثر میں ہے۔ یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے جو ایک دفعہ کھو دیا گیا تو دوبارہ حاصل کرنا بہت مشکل ہو گا۔‘انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ’فوج کو اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے کی بجائے ایک منقسم پارلیمنٹ اور باہم دست و گریبان سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔‘لمحۂ موجود میں بھی حقیقت اس سے کچھ مختلف نہیں کیوںکہ یہ وہ بیانیہ ہے جسے آج تک استعمال کیا جا رہا ہے۔وجاہت مسعود نے اپنے ایک دوسرے کالم میں لکھا کہ ’نظریہ پاکستان کی اصطلاح شیر علی خان کی عطا کردہ ہے۔ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی سے مخاصمت نیز جماعت اسلامی کے ساتھ جنرل صاحب کی شیفتگی کوئی راز نہیں تھی۔‘ان کی اس فکر کو تفصیل سے کسی اور موقع پر بیان کریں گے۔ یہ ذکر کرنا فی الحال ازبس اہمیت کا حامل ہے کہ شیر علی خان پٹوڈی کے بیٹے میجر جنرل اسفند یار علی خان پٹوڈی آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔میجر جنرل اسفند یار علی خان پٹوڈی آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ (فوٹو: ایکس)سنہ 2012 میں جب اس وقت ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کی ریٹائرمنٹ کی مدت قریب تھی تو انڈین اور قومی میڈیا میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ بالی وڈ کے اداکار سیف علی خان کے چچا آئی ایس آئی کے سربراہ بن سکتے ہیں۔پٹوڈی خاندان ان منقسیم خاندانوں میں سے ایک ہے جو تقسیم کے وقت الگ ہوئے۔ انڈیا میں بالی وڈ میں پٹوڈی خاندان کی شہرت برقرار ہے تو پاکستان میں پٹوڈی خاندان کے ارکان نے فوج میں غیرمعمولی خدمات انجام دی ہیں جن کے تذکرے کے بغیر دونوں ملکوں کی تاریخ ادھوری رہے گی۔