سکھر ٹرین حادثات کی آماجگاہ کیوں؟ رپورٹ میں ریلویز کی کارکردگی کی قلعی کھل گئی

اردو نیوز  |  Nov 21, 2023

 رات کا آخری پہر شروع ہو چکا تھا، کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس میں گرمی کی شدت سے تھکے ہارے مسافر تقریباً سو چکے تھے کہ ان کی آنکھ اچانک ایک جھٹکے سے کھلی۔ ٹرین کی آٹھ بوگیاں الٹ چکی تھیں۔ 

ابھی مسافر اس حادثے سے سنبھلنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ان کے اوپر ایک اور قیامت گزر گئی۔

ملت ایکسپریس کی جو بوگیاں پٹڑی سے اتر کر مخالف ٹریک پر آگئی تھیں، دو منٹ بعد ہی سرسید ایکسپریس جو لاہور سے کراچی جا رہی تھی ان گرنے والی بوگیوں سے ٹکرا گئی۔ جس کے نتیجے میں 60 سے زائد مسافر ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔

یہ واقعہ منگل 8 جون 2021 کو پیش آیا۔ جس کی تحقیقات کرائی گئیں لیکن رپورٹ منظرعام پر نہ آ سکی۔

ایک اجلاس کے دوران پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو اس حادثے سے متعلق بتایا گیا تو کمیٹی نے استفسار کیا کہ اکثر حادثات سکھر ڈویژن میں ہی پیش کیوں آتے ہیں؟ جس پر مزید تحقیقات کا فیصلہ کرتے ہوئے کمیٹی نے پاکستان ریلویز سکھر ڈویژن کے پرفامنس  آڈٹ کا حکم دیا۔ 

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی رپورٹ مرتب کر لی جس میں کئی انکشافات سامنے آئے لیکن حسب معمول یہ رپورٹ بھی کسی تہہ خانے کی زینت بن گئی۔ 

اردو نیوز نے یہ رپورٹ حاصل کی تو معلوم ہوا کہ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جس ٹریک پر یہ حادثہ ہوا تھا اس ٹریک کا 2006 سے باضابطہ معائنہ تک نہیں کیا گیا تھا۔

ٹریک کی صورت حال یہ تھی کہ اس کے 6 ہزار 398 جوڑ ایسے تھے جنھیں ویلڈنگ کی ضرورت تھی۔  رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریلوے قواعد کے مطابق ہر تیسرے مہینے کی پندرہ تاریخ کو ٹریک کا معائنہ کر کے رپورٹ رجسٹر میں لکھنا ہوتی ہے لیکن جب حادثے کے بعد رجسٹر کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس ٹریک کا آخری معائنہ 2006 میں کیا گیا تھا۔

آڈٹ کے دوران پتہ چلا کہ حادثے کے بعد معائنہ رجسٹر کو ٹیمپر کرکے 2006 کو 2020 میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)یہ بھی پتہ چلا کہ حادثے کے بعد معائنہ رجسٹر کو ٹیمپر کر کے 2006 کو 2020 میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کا کوئی دوسرا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس ٹریک پر حادثہ پیش آیا اس کی مرمت کے لیے 6 کروڑ روپے بھی حاصل کیے گئے تھے لیکن یہ مرمت نہیں کی گئی۔ 

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹریک کے صرف جوڑ ہی ٹوٹے ہوئے نہیں تھے بلکہ ٹریک کے نیچے لوہے اور لکڑے کے بالے بھی پرانے اور بوسیدہ ہو چکے تھے۔ انھیں تبدیل کرنے کی ضرورت تھی لیکن چونکہ اس ٹریک کا معائنہ ہی نہیں کیا جا رہا تھا اس وجہ سے وہ بھی تبدیل نہ ہوئے۔ اسی وجہ سے ٹرین کی بوگیاں حادثے کا شکار ہوئیں۔ 

صرف یہی نہیں بلکہ جن 10 کلومیٹر کو چھ کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا اس کے لیے ناقص لکڑی اور لوہا استعمال کیا گیا تھا جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ اس سے نہ صرف انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالا گیا بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ 

رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ میں ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ سیکرٹری ریلوے نے اس رپورٹ کی منظوری دی تھی لیکن آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے شائع ہونے تک ان افسران کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی نہیں کی گئی۔ 

رپورٹ کے مطابق حیران کن طور پر صرف سکھر ڈویژن میں 153 حادثات پیش آئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریلوے میں احتساب کے نظام کی عدم موجودگی کے باعث اس طرح کے حادثات بار بار ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریلوے پر سالانہ ساڑھے چار کروڑ لوگ سفر کرتے ہیں۔ گذشتہ پانچ سال میں ریلوے ٹریک پر 1200 سے زائد حادثات ہوئے ہیں جن میں 550 سے زائد مسافر ہلاک جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ 

حیران کن طور پر صرف سکھر ڈویژن میں 153 حادثات پیش آئے ہیں۔ جس کی بڑی وجوہات میں جہاں ریلوے ٹریک کی ناگفتہ بہ صورت حال بتائی گئی ہے وہیں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ریلوے حکام نے ٹریک کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے حقیقی ذمہ داروں کے بجائے چھوٹے ملازمین جنھیں گینگ ورکرز کہا جاتا ہے ان پر چھوڑ رکھی تھی۔ 

اس سے قبل بھی مختلف حادثات میں 76 افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا جن میں سے  52 افسران اور ملازمین کے خلاف کوئی کارروائی مکمل نہیں کیا جا سکی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More