بنگلہ دیش میں انتخابات سے قبل حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں شدت آتی جا رہی ہے، جبکہ پراسیکیوٹرز اور وکیلوں نے کہا ہے کہ گذشتہ دو دنوں میں حزب اختلاف کی پارٹی کے 139 سینیئر عہدیداروں اور کارکنوں کو سزا سنائی گئی ہے۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سزا پانے والوں میں ملک کی مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے متعدد کارکن شامل ہیں، جن کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد کرنے، آتش زنی اور پولیس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ انہیں چند ماہ سے لے کر ساڑھے تین سال تک کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ بنگلہ دیش میں 7 جنوری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جس میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد مسلسل چوتھی بار اقتدار میں رہنے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔بی این پی گذشتہ ایک برس سے حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنے اور غیر جانبدار حکومت کی جانب سے انتخابات کا انعقاد کروانے کے لیے احتجاج کر رہی ہے۔لیکن گذشتہ ماہ سے پولیس نے اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ بی این پی کی تقریباً پوری اعلیٰ قیادت اور اس کے ہزاروں کارکنوں اور حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔دو پراسیکیوٹرز نے اے ایف پی کو بتایا کہ بی این پی کے کم از کم 132 کارکنوں اور سینیئر عہدیداروں کو ملک کے دارالحکومت ڈھاکہ کی دو مجسٹریٹ عدالتوں نے اتوار اور پیر کو جیل بھیج دیا۔پراسیکیوٹر شاہد الدین نے بتایا کہ ’جج محمد عطاء اللہ نے پیر کو چار مختلف مقدمات میں بی این پی کے 70 کارکنوں اور رہنماؤں کو سزا سنائی۔ انہیں آگ لگانے اور پولیس کی ڈیوٹی میں رکاوٹ ڈالنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا۔‘انہوں نے کہا کہ سزا پانے والوں میں بی این پی کے یوتھ ونگ کے سربراہ سلطان صلاح الدین ٹوکو، دو سابق سٹوڈنٹ ونگ سربراہان اور ایک ضلعی ونگ کا سربراہ شامل ہے۔شاہد الدین نے کہا کہ ’یہ کیسز 2013-2018 کے ہیں جب اپوزیشن نے ہڑتالیں اور ناکہ بندی کی تھی۔ انہیں چھ ماہ سے لے کر دو سال تک قید کی سزا سنائی گئی۔‘ڈھاکہ کے چیف پبلک پراسیکیوٹر عبداللہ نے کہا کہ جج محمد شیخ سعدی نے 2018 کے ایک مقدمے میں بی این پی کے 62 مزید کارکنوں کو ساڑھے تین سال قید کی سزا سنائی۔بی این پی کے مزید سات کارکنوں کو بھی جج سعدی نے جیل بھیج دیا۔ وکیل نذر الاسلام کا کہنا تھا کہ ان میں بی این پی کے یوتھ ونگ کے سابق سربراہ سیف عالم نیروب بھی شامل ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ان کو 300 سے زائد عدالتی مقدمات کا سامنا ہے۔