Getty Images
انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے اترکاشی ٹنل میں پھنسے 40 مزدوروں کو نکالنے میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ ان کارکنوں کو وہاں پھنسے ہوئے 150 گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کھدائی کا کام روک دیا گیا ہے اور اب ان مزدوروں کو بچانے کے لیے نئے طریقے تلاش کیے جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ حادثہ دیوالی کے موقع پر اتوار کی صبح ہوا اور آج اس ریسکیو آپریشن کا ساتواں روز تھا۔ ابتدائی دنوں کی کوششیں ناکام ہوئیں کیونکہ ملبہ ہٹانے کے لیے وہاں استعمال ہونے والی مشینیں ملبہ نہیں ہٹا سکیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک سرنگ میں ملبے کو سامنے سے ڈرلنگ کر کے ہٹایا جا رہا تھا لیکن اب عمودی طور پر بھی ڈرلنگ کی مدد لی جارہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پہاڑ کی چوٹی سے درختوں کو ہٹا کر وہاں ڈرلنگ مشین رکھی جا رہی ہے۔
ان حکام کے مطابق نئی مشین کے شروع ہونے کے بعد سرنگ کے سامنے سے ملبہ ہٹانے کے لیے جو ڈرلنگ کی جا رہی ہے وہ بھی شروع ہو جائے گی۔
سامنے سے ملبے میں سوراخ کرنے کی تین کوششیں اب تک ناکام ہو چکی ہیں۔
اب حکام کا کہنا ہے کہ پھنسے ہوئے مزدوروں کو بچانے کے لیے کھدائی کے ساتھ ساتھ عمودی طور پر بھی سوراخ کرنا پڑے گا۔
ان کے مطابق اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو کارکنوں تک پہنچنے میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں۔
12نومبر یعنی دیوالی کی صبح اچانک زیر تعمیر سرنگ میں اوپر سے ملبہ گرنا شروع ہو گیا اور کچھ ہی دیر میں ملبہ اتنا بڑھ گیا کہ سرنگ میں پھنسے 40 مزدور باہر نہ آ سکے۔
Reutersکھدائی کا کام روک دیا گیا
اترکاشی کے سلکیارا گاؤں میں زیر تعمیر سرنگ میں پھنسے تقریباً 40 مزدوروں کو نکالنے کا کام فی الحال روک دیا گیا ہے، جس وجہ سے اندر پھنسے مزدوروں کے اہل خانہ میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اس سے پہلے اس مقصد کے لیے دہلی سے ایک مشین لائی گئی تھی۔ اندور سے ایک نئی مشین بھی لائی گئی ہے، جسے اب سرنگ کے اندر 200 میٹر تک لے جایا جا رہا ہے تا کہ رکے ہوئے کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔
اب تک سرنگ کے اندر 70 میٹر تک پھیلے ملبے میں 24 میٹر سوراخ ہو چکا ہے۔ لیکن حکام اب دوسرے آپشنز تلاش کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔
Reutersاب پہاڑ کی چوٹی سے کھدائی کی جائے گی
اب تک سرنگ میں ملبہ کو افقی طور پر یعنی سامنے سے ڈرلنگ کرکے ہٹایا جارہا تھا لیکن اب عمودی طور پر بھی ڈرلنگ کی مدد لی جارہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پہاڑ کی چوٹی سے درختوں کو ہٹا کر وہاں ڈرلنگ مشین رکھی جا رہی ہے۔
ان حکام کے مطابق نئی مشین کے شروع ہونے کے بعد ٹنل کے سامنے سے ملبہ ہٹانے کے لیے جو ڈرلنگ کی جا رہی ہے وہ بھی شروع ہو جائے گی۔
حکام کے مطابق ’اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو کارکنوں تک پہنچنے میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں۔‘
’حوصلے آہستہ آہستہ ٹوٹ رہے ہیں۔۔۔‘
مرتیونجے کمار پروجیکٹ میں لوڈر اور آپریٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم اندر پھنسے کارکنوں کو سمجھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں لیکن اب سات دن گزر چکے ہیں اور اب ان کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ خشک کھانا کھا کر کتنے دن زندہ رہیں گے۔
وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں۔ انھیں باہر نکالنے یا انھیں جھوٹی تسلی دینے کے لیے۔ وہ صحت مند ہیں لیکن اب ان کی ہمت آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہے۔‘
ٹنل کے اندر پائپ کے ذریعے مزدوروں کو آکسیجن دی جا رہی ہے۔ پانی کی بوتلیں بھیجی جارہی ہیں اور اسی پائپ کے ذریعے خشک پیک شدہ کھانا بھیجا جارہا ہے۔ اور وقتاً فوقتاً جن مزدوروں کو ادویات کی ضرورت ہوتی ہے ان کے پاس بھی بھیجی جاتی ہے۔ اور اس پائپ کے ذریعے دونوں طرف سے رابطہ ہوتا ہے۔
وکرم سنگھ اتراکھنڈ کے چمپور ضلع سے آئے ہیں۔ اس کا 24 برس کے چھوٹے بھائی سرنگ کے اندر پھنسے ہوئے ہیں۔
انھوں نے جمعے کو پائپ کے ذریعے اپنے بھائی سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’آواز دھیمی آ رہی تھی، اس نے کہا کہ وہ ٹھیک ہے لیکن وہ خوفزدہ ہے۔‘
’ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں۔۔۔‘
ٹنل کے اندر پھنسے مزدوروں کے اہل خانہ بار بار ہم سے شکایت کر رہے تھے کہ انتظامیہ یا ٹنل بنانے والی کمپنی نے ان کے رہنے اور کھانے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
گاؤں میں ہوٹل نہ ہونے کی وجہ سے خاندان کے افراد کو رہائش اور کھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
چنچل سنگھ بشت نے بتایا کہ وہ 600 کلومیٹر کا سفر کر چکے ہیں لیکن اب تک ان کے پاس ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ لواحقین سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں تھا، انھوں نے مزید کہا کہ حکام نے ہمیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔
سرنگ کی کھدائی
اس مشین کو تقریباً 70 میٹر تک پھیلے ملبے میں ڈرل کرنا ہے اور 900 ملی لیٹر کا پائپ لگانا ہے اور پھنسے ہوئے کارکنوں کو اس پائپ کے ذریعے باہر آنا ہے۔ اب تک صرف 24 میٹر تک ڈرلنگ کی گئی ہے۔
ریسکیو ٹیم کے ایک اہلکار نے سنیچر کی شام ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا تھا کہ سرنگ میں سوراخ کرنے کی وجہ سے اوپر سے مٹی اور ملبہ گر رہا ہے۔
حکومت کی ہائی وے اینڈ انفراسٹرکچر کمپنی این ایچ آئی ڈی سی ایل کا کہنا ہے کہ اندر سے دھماکے جیسی آواز سنی گئی، جس کی وجہ سے ڈرلنگ کرنے والے باہر نکل آئے۔
این ایچ آئی ڈی سی ایل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’سرنگ کے مزید گرنے کے امکان کے پیش نظر ریسکیو آپریشن کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔‘
Reutersریسکیو آپریشن کے دوسرے طریقے تلاش کر رہے ہیں
اس سرنگ سے ان پھنسے ہوئے مزدوروں کو نکالنے کے لیے پہلی دو کوششیں ناکام ہوئیں اور اب تیسری کوشش بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے اب حکام دیگر آپشنز بھی تلاش کر رہے ہیں اور اس پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔
سرنگ کے اندر پھنسے ہوئے کارکن اور باہر بیٹھے کارکن، جن سے ہم نے بات کی، یہ سب نیویگ انجینئرنگ کمپنی لمیٹڈ کے لیے کام کرتے ہیں، جو سرنگ اور ہائی وے بنانے والی کمپنی ہے۔
ٹنل بنانے والی اس کمپنی کے دو ذمہ داران نے ہمیں بتایا کہ اس سرنگ پر کام سنہ 2018 میں شروع ہوا تھا۔
ان میں سے ایک نے بتایا کہ سرنگ پر کام شروع ہونے سے تھوڑا پہلے اسی جگہ پر مٹی کے تودے گرنے سے نقصان ہوا تھا، جہاں اتوار کو لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹنل کا ایک حصہ منہدم ہو گیا تھا۔ تب اسے بنانے میں چھ مہینے لگے تھے۔ لیکن شاید ’یہ مضبوطی سے نہیں بنایا گیا تھا۔‘
چاردھام پروجیکٹ
ہم نے کمپنی کے سائٹ آفس کے حکام سے اس کی تصدیق کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے مطابق وہ میڈیا سے بات نہیں کرتے۔
زیر تعمیر سرنگ چاردھام کے پرجوش منصوبے کا حصہ ہے، جو بدری ناتھ، کیدارناتھ، یامونوتری اور گنگوتری کے ہندو یاتری مقامات سے رابطے کو بڑھانے کے لیے ایک اقدام تھا۔
یہ ایک متنازع منصوبہ ہے اور ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے جو کہ یہاں پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
Reuters
بی بی سی کے ایسوسی ایٹ صحافی آصف علی نے بتایا کہ جمعے کی دوپہر دو بجے سے سنیچر کی صبح دس تک صورتحال جوں کی توں تھی۔ جبکہ سرنگ میں پھنسے مزدوروں کے لواحقین انتہائی پریشان اور بے چین نظر آرہے ہیں۔
اجازت کے بعد وہ سرنگ میں پائپ کے ذریعے اپنے رشتہ داروں سے بات کرتے رہتے ہیں۔
بہار کے ایک شخص نے سرنگ میں پھنسے اپنے بھائی سے بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ’اندر پھنسے تمام لوگوں کی حالت اب ٹھیک نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کے ان کے بھائی نے انھیں بتایا: ’لگتا ہے آخری وقت آ گیا ہے۔‘
بہار سے آئے ایک اور شخص دیواشیش نے بتایا کہ ان کے بہنوئی بھی سرنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
انھوں نے پائپ کے ذریعے جب اپنے بہنوئی سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی حالت خراب ہے۔ اب وہ وہاں گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔
ٹنل بنانے والی کمپنی ’نو یک انجینیئرنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے دو نگرانوں نے بتایا کہ اس سرنگ پر سنہ 2018 میں کام شروع ہوا تھا۔
ان میں سے ایک نے کہا: ’سرنگ پر کام مکمل ہونے سے تھوڑا پہلے، اسی جگہ پر مٹی کے تودے گرنے سے نقصان ہوا تھا جہاں اتوار کو لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹنل کا ایک حصہ گر گیا ہے۔ اس وقت اسے پھر سے بنانے میں چھ مہینے لگے تھے۔ لیکن شاید 'یہ مضبوطی سے نہیں بنایا گیا تھا۔‘
BBCاندر پھنسے مزدوروں کے لواحقین باہر پریشان ہیں
انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ میں ہمالیہ پہاڑی سلسلے میں سرنگ کی تعمیر سے منسلک ایک اور حادثے میں 12 نومبر سے 40 مزدور ایک زیر تعمیر سرنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ساڑھے چار کلومیٹر لمبی یہ سرنگ مرکزی حکومت کے ایک اہم ہائی وے پروجیکٹ کا حصہ ہے جس کا مقصد ریاست میں مشہور ہندو مذہبی مقامات کے درمیان رابطے کو بہتر بنانا ہے۔
اس پہاڑی ریاست میں جہاں کہ کئی ہمالیائی چوٹیاں اور گلیشیئرز واقع ہیں ہندوؤں کے کئی مقدس ترین مقامات ہیں۔
سرنگ کا یہ حصہ 12 نومبر کی صبح پانچ بجے گر گیا، اور یہ مزدور سرنگ کے منھ سے تقریباً 200 میٹر کے فاصلے پر پھنس گئے۔
ریسکیو مشن میں شامل افسران کا کہنا ہے کہ ’مزدور محفوظ ہیں اور انھیں پائپ کے ذریعے کھانا پانی اور آکسیجن فراہم کیا جا رہا ہے۔‘
حکام کی جانب سے محض چند دنوں میں ان مزدوروں کو باہر لانے دعوے کے باوجود ریسکیو مشن جاری ہے جو کہ اس میں سامنے آنے والی مشکلات کو اجاگر کرتے ہیں۔
یہ ریسکیو مشن اتنا مشکل کیوں ہے؟
اس پروجیکٹ پر کنسلٹنٹ کے طور کام کرنے والی برنارڈ گروپ نامی آسٹریئن جرمن کمپنی کے مطابق یہ شروعات سے ہی ایک مشکل پروجیکٹ تھا۔ کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ یہ سرنگ کے پروجیکٹ کے آغاز سے ہی ٹینڈر دستاویزات میں پیش گوئی سے زیادہ چیلنجنگ ثابت ہوا ہے۔
ارضیاتی لحاظ سے ہمالیہ ایک نیا پہاڑی سلسلہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ نسبتاً کم مستحکم ہے۔ اس کے وجہ سے یہاں مناسب اقدامات اور بے حد احتیاط کے بغیر کوئی بھی تعمیر مزید تباہی اور خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
اس سرنگ کو کئی حصوں میں تعمیر کیا جا رہا ہے تاہم اس کے گرنے کی اصل وجہ تحقیقات کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔
ہمالیہ میں سرنگوں کے احتیاطی تدابیر کے ماہر معظم ظہیر ملک کا کہنا ہے کہ ’سرنگ گرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ارضیاتی عدم استحکام، سرنگ پر متوقع بوجھ، اس کے اندر بنائی گئی سپورٹ سسٹم کا ناقص ہونا، اس کے اندر پانی کا جانا یا انسانی غلطیاں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق اس حادثے کے بنیادی وجہ ارضیاتی عدم استحکام ہی نظر آ رہی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ ہے کہ اگر پہاڑ کی چٹانیں غیر مستحکم ہیں تو یہ سرنگ اوپر کے وزن سے یا بیرونی عوامل جیسے زلزلے یا شدید بارش کی وجہ سے گر سکتی ہیں۔‘
ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی وجوہات ہیں اور انسانی کنٹرول سے باہر ہیں۔ یہ عمل ملبے کے مسلسل طور پر گرنے سے نمایاں ہوتا ہے، جس کہ وجہ سے امدادی کارروائیوں میں تاخیر کا سامنا ہے۔
سرنگ میں پھنسے مزدوروں کو بچانے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟
حکومت کے مطابق امدادی کارکنان اندر پھنسے مزدوروں کو نکالنے کے لیے ’ہائیڈرولک جیک‘ کی مدد سے 900 ملی میٹر قطر کے سٹیل پائپ کو اندر تک پہچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن ریسکیو مشن کے لیے سب سے اہم اور پہلا مرحلہ مزدوروں تک مناسب خوراک اور آکسیجن کی فراہمی تھی۔
ملک کا کہنا ہے کہ ’مزدورں جہاں پھنسے ہوئے ہیں، اس کے بعد سرنگ کے تعمیر شدہ حصے کی لمبائی تقریباً دو کلومیٹر ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس فی الحال کافی آکسیجن موجود ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ لیکن حکام احتیاطی اقدام کے طور پر پائپ کے ذریعے مزید آکسیجن فراہم کر رہے ہیں۔
حالانکہ سرنگ کے اس طرح کے منصوبوں میں ہنگامی صورتحال کے لئے آکسیجن اور کھانے پینے کی فراہمی کے انتظامات اور ہنگامی راستوں جیسے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ سرنگ ابھی زیر تعمیر ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس طرح کے حفاظتی انتظامات ابھی لیے گئے تھے یا نہیں۔
ریسکیو آپریشن کے انچارج کرنل دیپک پاٹل کا کہنا ہے کہ ’سرنگ کی چوڑائی بہت زیادہ ہے اور اس میں 400 میٹر کی ایک موٹی ’لائننگ‘ ہے۔ (سرنگ کے گرنے سے بچنے کے لیے ’لائننگ‘ سپورٹ کے طور پر کام کرتا ہے)۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرنگ میں زیر تعمیر ’دو کلومیٹر کے اندر کافی روشنی ہے اور مناسب ہوا موجود ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لہٰذا انھیں سرنگ سے نکالنے میں اندر کوئی مسئلہ نہیں ہو گی۔ ہم اندر اور ہوا پمپ بھی کر رہے ہیں۔‘
BBC
مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ حکام نے مناسب قطر کے پائپوں کو اندر پہچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کے ذریعے وہ خوراک اور آکسیجن پہنچا رہے ہیں۔
اس سرنگ کو ’نیو آسٹرین‘ طریقہ استعمال کرتے ہوئے کھودا جا رہا ہے، جس کے تحت سرنگ بنانے کی تکنیک میں ضرورت کے حساب سے ترمیم کی جاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمالیہ میں کئی ارضیاتی چیلنجز موجود ہیں جو کہ سرنگ بنانے کے کام کو یا اس میں پھنسے لوگوں کے نکالنے کے کام کو مشکل بناتی ہیں۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق سرنگ کی تعمیر کا کام نصف سے تھوڑا زیادہ مکمل ہو چُکا ہے، جس کی وجہ سے اندر پھنسے ہوئے مزدوروں کے لیے مناسب جگہ ہے، اور حالات مزید خرابے ہونے کی صورت میں وہ محفوظ مقام پر پناہ لے سکتے ہیں۔
لیکن فی الحال سرنگ کے باہر موجود امدادی کارکُنوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج سرنگ میں پھنسے ہوئے مزدوروں تک پہنچنا۔
ڈرلنگ مشینوں کے استعمال کے علاوہ ریسکیو مشن نے ایکسکیویٹر کے ذریعے ملبے کو ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوششیں بھی ناکام رہیں۔
اس سے نمٹنے کے لیے ملبے پر ’شاٹ کریٹنگ‘ کیا گیا، جس کے تحت ملبے کو مستحکم کرنے کے لیے کنکریٹ یا مارٹر کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
لیکن ان اقدامات کے ناکافی ہونے کے بعد مزید صلاحیت والی ایک مشین کو بالآخر بدھ کو دہلی سے ہوائی جہاز سے روانہ کیا گیا۔
ریسکیو مشن میں شامل انجینئر اور ڈرلنگ ماہر آدیش جین کا کہنا ہے کہ ’12 نومبر سے ملبہ کئی دفع گر چکا ہے اور اس کا حجم بڑھ کر 70 میٹر ہو گیا ہے۔۔۔ میری مشین صرف 45 میٹر تک کام کر سکتی ہے اسی لیے حکومت نے تقریباً 70 میٹر تک پہنچنے کی صلاحیت رکھنے والی ایک بڑی مشین کا بندوبست کیا ہے۔‘
انھوں نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ ’ہم نے نئی مشین کو بہتر انداز سے کام کرنے میں مد دینے کے لیے ایک بنیادی ڈھانچے کو تیار کر دیا ہے۔ تاکہ تمام مزدوروں کی جان کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
فی الحال حکام پھنسے ہوئے مزدوروں تک پہنچنے کے لیے درکار تقریبا 60 میٹر میں سے 20 میٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ مقامی لوگ اور ماہرین ماحولیات ’ہمالیہ‘ میں اس طرح کے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے تعمیراتی کامپہاڑوں کی نازک ماحولیاتی نظام کو غیر مستحکم کر رہے ہیں، جس کہ وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب جیسی آفات کی شرح اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔
جبکہ ریاست کے وزیر اعلیٰ پشکر دھامی سمیت کئی افسران نے کہا ہے کہ سرنگ میں پھنسے ہوئے افراد کو ایک دو دنوں میں بچا لیا جائے گا، اترکاشی کے ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر کیرتی پنوار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ناروے اور تھائی لینڈ کی خصوصی ٹیموں سے مدد لی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ 2018 میں 12 فٹ بالرز شمالی تھائی لینڈ کی ایک غار میں پانی بھر جانے کی وجہ سے 18 دن تک پھنسے رہے تھے۔