پاکستان میں مکسڈ مارشل آرٹس کا رجحان: ’جب منھ پر ایک مُکا پڑتا ہے آپ سب پریشانیاں بھول جاتے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Nov 14, 2023

کرکٹ کے علاوہ پاکستان میں کسی بھی دوسرے کھیل کی طرح مکسڈ مارشل آرٹس (آیم ایم اے) کے بھی کچھ دیوانے ہیں جو محدود وسائل کے باوجود اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔

اب اُن کے نام بے شک بابر اور شاہین جتنے بڑے نہ ہوں لیکن احمد مجتبیٰ اور بشیر احمد کو کچھ پاکستانی ایم ایم اے کے فینز بے حد چاہتے ہیں۔

اس کھیل کو آپ ’ایک ماڈرن کُشتی‘ سمجھ لیں۔ یہ پہلی کوشش تھی ماہر نفسیات انسب خالد کی مجھے ایم ایم اے سمجھانے کی۔

وہ خود بھی ایم ایم اے کی ٹریننگ لیتے ہیں اور ان کے بقول اس کھیل میں مُکوں کے علاوہ لاتوں کا بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

ماڈرن ایم ایم اے کے چند شائقین سے ملاقات اور کچھ تحقیق سے پتا لگا کہ 20ویں صدی میں متعارف ہونے والے اس کھیل میں کومبیٹ سپورٹ کی کئی قسمیں شامل ہیں۔

جوڈو، جوجتسو، باکسنگ کے علاوہ دیگر مارشل آرٹس کے کئی ایسے کھیل ہیں جن کی تیکنیک کو اس گیم میں استعمال کیا جا سکتا ہے اس لیے اسے باقی کھیلوں کے مقابلے میں ایک پُرتشدد کھیل کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

لیکن گذشتہ ایک دہائی میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرنے والے یو ایف سی کی بدولت بھی اس کھیل کو پسند کرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یو ایف سی یعنی یونائٹڈ فائٹنگ چیمپیئن شپ مکسڈ مارشل آرٹس کی ایک معروف امریکی کمپنی ہے۔

’دل ٹوٹ گیا جب پتہ لگا کہ ریسلنگ فیک ہوتی ہے‘

انسب ان متاثرہ لوگوں میں سے ہیں جنھیں مجھ سمیت یہ لگتا تھا کہ ہمیں دکھائی جانے والی ریسلنگ کیا اعلیٰ پائے کی کُشتی ہے۔

’ہمارا دل ٹوٹ گیا جب پتا لگا کہ ریسلنگ فیک ہوتی ہے۔‘ ٹوٹِے دل کے ساتھ انسب نے یو ایف سی دیکھنا شروع کی اور باکسنگ دیکھنا شروع کی۔

دوسری جانب ورلڈ چیمپیئن شپ میں پاکستان کی پہلی خاتون ایم ایم اے فائٹر ایمان فیصل خان کا خیال کہ اس کھیل کا انتخاب انھوں نے اپنے آپ کو ’جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط رکھنے کے لیے کیا تھا۔‘

’اس سپورٹ سے پہلے میرے اندر بہت غصہ تھا‘ یہ سپورٹ ایک بہت اچھا ذریعہ ہے جس سے ایمان کے مطابق انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔

ایسے معاشرے میں جہاں بالخصوص ’پڑھائی اور شادی‘ پر توجہ دی جاتی ہے ایمان سمجھتی ہیں کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ انھیں ایک ایسا ماحول ملا جہاں ایم ایم اے کا انتخاب کرنے پر انھیں شاباشی ملی۔

ان کے مطابق ایم ایم کا کلچر بڑھ رہا ہے لیکن اس کھیل کا انتخاب زیادہ تر فٹنس کے لیے لوگ کر رہے ہیں نہ کہ پروفیشنل فائٹنگ کے لیے۔

’ایم ایم کا کلچر بڑھ رہا ہے مگر سست رفتاری سے‘

ایمان خان کا خیال ہے کہ بالخصوص خواتین میں لگن اس وقت کم ہو جاتی ہے جب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ فائٹر بننے کے لیے فٹنس اور نشوونما کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور خوب ٹریننگ کرنی پڑتی ہے۔

گذشتہ کچھ برسوں سے پرائیویٹ میڈیا چینلر اور دیگر کمپنیز نے ایم ایم اے کے ایونٹ منعقد کرائے ہیں اور اُن میں سے 64 میں میزبانی کے فرائض دانیال ناصر مرزا نے سر انجام دیے۔ دانیال اُسی جذبے سے فائٹر کا تعارف کراتے ہیں جیسے کسی دنگل سے پہلے کسی مشہور پہلوان کا کروایا جاتا ہے۔

کچھ سال پہلے انھوں نے ایک پوڈکاسٹ شروع کی جس میں ایم ایم اے کو پروموٹ کیا جاتا تھا۔

’ہم نے ایک ایسے سپورٹ کے بارے میں بات کرنا شروع کی جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں تھا۔۔۔ سچ بتاؤں تو بہت بُرا آئیڈیا تھا کسی کو نہیں کرنا چاہیے۔‘

لیکن ساتھ ہی انھوں نے بتایا کہ مقصد ایم ایم اے فائٹرز کی کہانیوں کو منظر عام پر لے کر آنا تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔

کیا لوگ اس کھیل پر پیسہ خرچ کرنے کو تیار ہیں؟

دانیال کہتے ہیں کہ وہ آہستہ آہستہ ہوگا۔ ’میں سپانسرز کی بات کر رہا ہوں، میں بڑی کمپنیز کی بات کر رہا ہوں، میں میڈیا چینلز کی بات کر رہا ہوں، لوگوں کو دکھائی دے رہا ہے کہ فائٹرز ہیں، کم ہیں مگر ہیں۔‘

دانیال کے مطابق آہستہ آہستہ چیزیں بڑھ رہی ہیں اور بہتر ہو رہی ہیں اور اس سے زیادہ ’ہم کچھ مانگ نہیں سکتے۔‘

’بہت زیادہ فائٹرز پچھلے دس بارہ سال میں ضائع ہوئے ہیں۔‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے دانیال نے کہا کہ کئی ایسے فائٹرز ہیں جنھوں نے کسی بھی سطح پر حمایت نہ ملنے کے باعث لڑنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

وسائل کی عدم دستیابی کے باعث بہت سے فائٹرز اپنی ہی کمیونٹی میں ہیروز تلاش کر کے شوق پورا کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔

ایمان فیصل خان کے مطابق انیتا کریم ان کی رول ماڈلز میں سے ایک تھیں جنھیں دیکھ کہ انھوں نے کہا کہ ’یہ میں بھی کر سکتی ہوں۔‘

نوجوان بھی اس کھیل کی طرف راغب ہو رہے ہیں

’نوجوانوں کو اس کھیل میں آتا دیکھ کر مجھے بہت حوصلہ ملتا پہ۔ بچوں کا یہی خواب ہوتا ہے کہ میں پاکستان کی طرف سے کرکٹ کھیلوں اسی طرح سے ہمیں ایم ایم اے میں بھی اس طرح کے بچے چاہیں جو یو ایف سی کا خواب دیکھتے ہوں۔‘

پاکستان کے بڑے شہروں میں اب کچھ روایتی جمز میں بھی ایم ایم اے کی ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ نوجوان بھی اب اس کھیل کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔

او لیولز کے طالب علم زین امجد کے مطابق انھیں اس کھیل کا شوق یو ایف سی کی ایک فائٹ دیکھ کر ہوا جس کے بعد انھوں نے اس کی باقاعدہ ٹریننگ لینا شروع کی۔

وہ کہتے ہیں ’پہلے تو یہ کھیل وہ اعتماد پیدا کرتا ہے کہ آپ کسی سے کم نہیں اور آپ کو کوئی تنگ نہیں کر سکتا۔‘

زین نے تلقین کی کہ ویسے تو لڑائی کبھی کرنی نہیں چاہیے لیکن ’اگر آپ کسی ایسی صورتحال میں پھنس جائیں جہاں کوئی آپ پر حملہ کرے تو آپ کو پتا ہے کہ آپ خود کو بچا سکتے ہیں۔‘

’جب منھ پر مکا پڑتا ہے تو آپ سب پریشانیاں بھول جاتے ہیں‘

بہت سے کھیلوں کی طرح یہ بھی انسان کو جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ رہنے میں مدد کرتا ہے۔

کام پر پریشانی ہو یا گھر پر مسائل چل رہے ہوں ماہر نفسیات انسب خالد کے مطابق ’جب منھ پر ایک مُکا پڑتا ہے آپ سب پریشانیاں بھول جاتے ہیں اور اپ فوکس کرتے ہیں کہ موجودہ وقت میں کیسے رہا جائے اور اپنے آپ کو کیسے بچایا جائے۔‘

دانیال ناصر کے مطابق صرف کُشتی دیکھنے سے بھی آپ اپنے بارے میں اتنا کچھ جان سکتے ہیں جو شاید باقی کھیلوں سے آپ نہ جان سکیں۔

’آپ ایک فائٹر کے اندر جب دیکھتے ہیں کہ وہ کتنی شدت سے ایک ٹائٹل جیتنا چاہتا ہے، کتنی شدت سے اپنا نام بنانا چاہتا ہے تو آپ کو اپنے بارے میں بھی تھوڑا سوچنا پڑتا ہے کہ کیا میں بھی اپنے شعبے میں اُتنی ہی محنت کر رہا ہوں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More