کیا روئی (کاٹن) اور نمکین سمندری پانی سے کبھی نہ ختم ہونے والی بیٹریاں بنائی جا سکتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Nov 13, 2023

ایک خفیف سی آواز آئی اور علاقے بھر کی بجلی چلی گئی۔ لیکن انڈیا کے اسی علاقے کی ایک سڑک پر ایک اے ٹی ایملگی ہے جو چلتی تو بجلی پر ہے مگر بجلی جانے کے باوجود لوگ یہاں سے پیسے نکال رہے ہیں۔

اور اس کا سہرا جزوی طور پر ہی سہی ’جلی ہوئی روئی‘ کے سر ہے۔ اس کیش مشین کے اندر ایک بیک اپ بیٹری لگی ہے اور اس بیٹری میں جلی ہوئی روئی رکھی گئی ہے جس سے کاربن ملتا ہے۔

بیٹری بنانے والی جاپانی کمپنی ’پی جے پی آئی‘ کے چیف انٹیلیجنس آفیسر انکیتسو اوکینا کہتے ہیں کہ ’ایمانداری سے کہوں تو اس کے کام کرنے کے طریقے کو بتایا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ راز کی بات ہے۔‘

وہ اس بارے میں واقعی مذاق نہیں کر رہے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس میں ’درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کا طریقہ بھی راز ہے اور اندر کا ماحول بھی راز ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ موجود دباؤ بھی راز ہی ہے۔‘

انکیتسو اوکینا البتہ یہ ضرور بتاتے ہیں کہ اس کے لیے 3,000 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ کہ ایک کلو کاٹن سے 200 گرام کاربن پیدا ہوتا ہے اور ہر بیٹری سیل کے لیے صرف 2 گرام کاربن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوکینا نے بتایا کہ کمپنی نے سنہ 2017 میں روئی کی ایک کھیپ خریدی اور ابھی تک اس کا پورا استعمال نہیں ہو سکا ہے۔

جاپان کے فوکؤکا کی کیوشو یونیورسٹی کے محققین کے ساتھ مل کر تیار کردہ اس کمپنی کی بیٹری میں کاربن کو اینوڈ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دو الیکٹروڈز میں سے ایک ہے جن کے درمیان آئنوں کا بہاؤ ہوتا ہے۔ جب بیٹری چارج ہو رہی ہوتی ہے تو آئن کا بہاؤ ایک سمت میں ہوتا ہے اور جب وہ توانائی دے رہی ہوتی ہے تو اس کا بہاؤ دوسری سمت میں ہوتا ہے۔

زیادہ تر بیٹریوں میں اینوڈ کے طور پر گریفائٹ کا استعمال ہوتا ہے لیکن پی جے پی آئی کا دعوی ہے کہ ان کا طریقہ کار زیادہ پائیدار ہے، کیونکہ وہ ٹیکسٹائل کی صنعت سے ضائع شدہ کاٹن کا استعمال کر کے اینوڈز بنا سکتے ہیں۔

الیکٹرک گاڑیوں اور توانائی کے ذخیرہ کرنے کے بڑے نظاموں کے اضافے سے آنے والے برسوں میں بیٹریوں کی بہت زیادہ مانگ ہونے والی ہے اور اس کے پیش نظر کچھ محققین اور کاروباری ادارے لیتھیئم اور گریفائٹ بیٹریوں کے ممکنہ متبادل تیار کرنے میں مشغول ہیں۔

پی جے پی آئی کی طرح ان کا کہنا ہے کہ وہ بیٹریوں کی پیداوار کے لیے زیادہ پائیدار اور وسیع پیمانے پر دستیاب مواد استعمال کر سکتے ہیں۔

Getty Images

زمین سے لیتھیئم کی کان کنی سے ماحول پر کافی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کمیاب دھات کو نکالنے کے لیے بڑی مقدار میں پانی اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ عمل زمین میں بڑے بڑے گڑھے چھوڑ سکتا ہے۔ اسے عام طور پر نکالنے والی جگہ سے بہت دور چین بھیجا جاتا ہے جہاں اس کی صفائی ہوتی ہے۔ گریفائٹ بھی کانوں سے نکالا جاتا ہے جو محجر ایندھن سے بنایا جاتا ہے، دونوں کے منفی ماحولیاتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔

ایس اینڈ پی گلوبل کموڈیٹی انسائڈ کے تجزیہ کار سیم ولکنسن کہتے ہیں: ’یہ تصور کرنا بہت آسان ہے کہ بیٹری کا مواد جس کان کنی اور نقل و حمل سے گزرتا ہے اس سے کاربن فوٹ پرنٹ واقعی بڑھ سکتا ہے۔‘

مثال کے طور پر کوبالٹ کو لیں۔ اس کا بہت سی لیتھیم آئن بیٹریوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہ بنیادی طور پر کانگو جمہوریہ میں نکالا جاتا ہے۔ لیکن وہاں پر کام کرنے کے خطرناک حالات کی اطلاعات ہیں۔

سمندری پانی سے لے کر بائیو ویسٹ اور قدرتی رنگ و روغن تک فطرت میں ممکنہ متبادل کی ایک طویل فہرست ہے جو بہت زیادہ وسیع پیمانے پر دستیاب بھی ہے۔ لیکن مشکل بات یہ ہے کہ کیا ان میں سے کوئی بھی مارکیٹ میں پہلے سے موجود بیٹریوں کا حقیقی طور پر متبادل ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ ہماری آلات سے بھری دنیا میں بظاہر بیٹری بہت ناگزیر ہے۔

پی جے پی آئی بیٹری کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بیٹریوں کو کاربن اخراج سے پاک بنانے کے امکان کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ اوکینا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے کاربن کا سطحی رقبہ گریفائٹ سے بڑا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کس طرح ان کی کیمبرین سنگل کاربن بیٹری میں موجود اینوڈ کی کیمسٹری ایسی بیٹری تیار کرنے کی اجازت دیتی ہے جو موجودہ لیتھیئم آئن بیٹریوں سے 10 گنا زیادہ تیزی سے چارج ہوتی ہے۔

بیٹری کا کیتھوڈ ’بیس میٹل‘ یا بنیادی دھات آکسائیڈ سے بنایا گیا ہے۔ اگرچہ اوکینا یہ بات بالکل نہیں بتائیں گے ان دھاتوں میں تانبا، سیسہ، نکل اور زنک جیسی کون سی دھاتیں شامل ہیں جو کہ لیتھیئم جیسی الکلائن دھاتوں سے زیادہ آسانی سے دستیاب ہیں اور کم رد عمل ظاہر کرتی ہیں۔

کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ دوہری کاربن الیکٹروڈ بیٹری پر کام کر رہی ہے، جہاں دونوں الیکٹروڈ پلانٹ پر مبنی کاربن سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کیوشو یونیورسٹی کے محققین کی تحقیق پر مبنی ہے۔ بہر حال ابھی اس بیٹری کے سنہ 2025 سے پہلے دستیاب ہونے کی توقع نہیں ہے۔

Getty Imagesزمین سے لیتھیئم کی کان کنی سے ماحول پر کافی اثر پڑ سکتا ہے

بیٹری کے تیزی سے چارج کرنے کے قابل ہونا اگرچہ کسی کیش مشین کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے لیکن یہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ آپ یہ چاہیں گے کہ جتنی دیر میں آپ چائے پیئيں آپ کی گاڑی کی بیٹری چارج ہو جائے۔

انھوں نے یہ بتایا ہے کہ چینی کمپنی گوکچیا نے ہتاچی کے ساتھ مل کر ایک الیکٹرک بائیک تیار کی ہے جو پی جے پی آئی کی تیار کردہ بیٹری استعمال کرتی ہے اور اسے 2023 کے اوائل میں جاپان میں فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہبائیک کی زیادہ سے زیادہ رفتار 50 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور آپ ایک بار چارج کر کے 70 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں۔

یہ ایسی واحد بیٹری نہیں ہے جو استعمال شدہ مواد سے کاربن کا استعمال کرتی ہے۔ فن لینڈ کے سٹورا اینسو نے ایک ایسا بیٹری اینوڈ تیار کیا ہے جو درختوں میں پایا جانے والے پولیمر لنگن سے کاربن استعمال کرتا ہے۔

چند محققین کا ماننا ہے کہ روئی کی مدد سے زیادہ بہتر اور مستحکم بیٹریاں بنائی جا سکتی ہیں۔ لیکن چند دیگر افراد قدرتی مواد میں اس سے بھی زیادہ بڑے اور نہ ختم ہونے والے توانائی کے ذرائع کی تلاش میں ہیں۔

جرمنی کے ہیلم ہولٹز انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر سٹیفانو پاسارینی کہتے ہیں کہ دنیا کے وسیع سمندروں میں بیٹریوں کے لیے نہ ختم ہونے والا مواد موجود ہے۔

Getty Images

ان کا ڈیزائن ایک ایسی بیٹری کا ہے جو سمندر کے پانی میں سے سوڈیئم نکال کر دھاتی سوڈیئم کا ذخیرہ کرتی ہے۔ اس کام کے لیے ان کی ٹیم نے ایک خصوصی پولیمر الیکٹرولائٹ بنایا ہے جس میں سے سوڈیئم ایونز گزر سکتے ہیں۔

سمندر کا پانی کیتھوڈ کا کام کرتا ہے لیکن اس میں کوئی اینوڈ نہیں ہے۔ پاسارینی کا کہنا ہے کہ اضافی ہوا یا سولر توانائی کے ذریعے سوڈیئم اکھٹا کیا جا سکتا ہے جو ضرورت پڑنے پر استعمال ہو سکتا ہے۔

’جب آپ کو توانائی کی ضرورت ہو گی تو صرف اس عمل کو الٹا کر دیں اور بجلی بنا لیں۔‘

لیکن یہ کام آسان نہیں ہے۔ لیتھیئم کی طرح سوڈیئم بھی پانی سے مل کر متحرک ہو جاتا ہے۔ پاسارینی کے مطابق ایک دھماکہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سوڈیئم کے ذخیرے تک سمندر کا پانی نہ پہنچے ورنہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔

چند محققین کیتھوڈ کے محفوظ متبادل کی تلاش میں انسانی ہڈیوں اور دانتوں میں موجود قدرتی مواد کی جانچ بھی کر رہے ہیں یعنی کیلشیئم۔ مثال کے طور پر کیلشیئم کو سیلیکون سے ملا کر، جو کیلشیئم ایونز کی نقل و حرکت میں مدد دے سکتا ہے، مستقبل کی بیٹری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ایسے مواد کی طویل فہرست موجود ہے۔ سٹی یونیورسٹی نیو یارک کے جارج جان اور ان کے ساتھیوں نے پودوں میں موجود مواد پر بھی تحقیق کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کا خواب ہے کہ ایک ایسی بیٹری تیار کی جائے جو توانائی میں خود کفیل ہو۔

وہ بتاتے ہیں کہ جس بیٹری ڈیزائن پر وہ کام کر رہے ہیں اس سے شایدالیکٹرک گاڑیاں تو نہ چل سکیں لیکن کسی دن یہ چھوٹے آلات میں کام آ سکیں گی۔ شاید ایسے آلات جن کی مدد سے ذیابطیس کے مریض اپنی شوگر چیک کر سکیں۔

چند محققین مکئی اور بیج پر بھی تحقیق کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں ان کی مدد سے بیٹریوں کے الیکٹروڈ بنائے جا سکیں۔ اس تحقیق میں بھی مسئلہ یہ ہے کہ ان بیٹریوں کو اتنی زیادہ تعداد میں تیار کرنا مشکل ہے کہ وہ صنعتی مانگ کو پورا کر سکیں۔

مجموعی طور پر سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے کہ کیسے بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کیا جائے۔ لیتھیئم یا گرینائٹ بیٹری ٹیکنالوجی کو ہی لیں۔ اگر ہم اس تکنیک کا استعمال کرتے رہے تو 2030 تک سالانہ دو میگا ٹن گرینائٹ درکار ہو گا۔ یہ تخمینہ تجزیہ کار میکس ریڈ نے لگایا ہے۔ اس وقت یہ مانگ سالانہ 700 کلو ٹن کی ہے۔

میکس ریڈ کا کہنا ہے کہ ’یعنی مانگ میں تین گنا اضافہ ہو گا۔‘ ان کے مطابق کسی بھی نئے مواد کے لیے اتنی تعداد تک پہنچنا نہایت مشکل ہو گا۔

دوسری جانب پیداواری عمل کو گرینائٹ سے کسی اور مواد پر منتقل کرنا بھی ایک مہنگا کام ہو گا۔ کیلیفورنیا کی بیٹری سائنسدان جل پسٹانا کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک کمرشل رسک بھی ہو گا۔‘

فی الحال ان کو بیٹری کے حوالے سے ہونے والی نئی کوششوں سے زیادہ امید نہیں ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More