حملہ آور شمال کی جانب سے گھوڑوں پر سوار ہو کر آیا کرتے۔ یہ ماہر نشانہ باز طاقتور تیروں کی حیران کن حد تک بلکل ٹھیک نشانے پر بوچھاڑ کر دیتے۔ ان حملوں میں چین کی شمالی سرحدوں پر رہنے والے کاشتکاروں کی انتہائی احتیاط سے اگائی جانے والی فصلیں تباہ و برباد ہو جایا کرتیں۔
یہ 200 قبل از مسیح کی بات ہے۔ چین کے مقامی ہان باشندے ان حملہ آوروں کو ’زیونگنو‘ یعنی ’وحشی غلام‘ کہا کرتے جس سے بظاہر وہ ان کو خود سے کم تر دکھانا چاہتے تھے۔
لیکن حقیقت یہ تھی کہ مختلف قبائل پر مشتمل زیونگنو عسکری مہارت اور سیاسی تنظیم میں اپنے چینی ہمسائیوں سے بہت بہتر تھے۔ یہ دنیا کی سب سے پہلی خانہ بدوش سلطنت سے تعلق رکھنے والے حملہ آور تھے جو اتنے منظم اور طاقتور تھے کہ ان کے خوف سے ہی چین کے حکمرانوں نے آخرکار دیوار چین بنانے کا عزم کر لیا جسے ’دی گریٹ وال آف چائنہ‘ کہا جاتا ہے۔
اس قصے کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ زیونگنو کے ماہر تیراندازوں کے پیچھے ایک خانہ بدوش سلطنت کو جوڑ کر رکھنے والی شخصیات ان کی خواتین تھیں۔
اس خانہ بدوش سلطنت کی تاریخ کا سراغ لگانا کافی مشکل ہے کیوں کہ ان کی اعلی تنظیمی صلاحیت اور عسکری طاقت کے باوجود انھوں نے کبھی ایسی زبان ایجاد نہیں کی جس میں وہ اپنے کارنامے درج کرتے اور ایک تحریری تاریخ چھوڑ کر جاتے۔
میکس پلینک انسٹیٹیوٹ کے شعبہ آثار قدیمہ کی کرسٹینا ورینر کا کہنا ہے کہ زیونگنو کے بارے میں تمام حقائق ان کی قبروں اور دشمنوں سے حاصل ہوتے ہیں۔
اور یہ قبریں بھی ایک دلچسپ کہانی سناتی ہیں کیوں کہ ایک حالیہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ زیونگنو کے اعلی طبقے کی قبروں میں دفن ہونے والوں کی اکثریت خواتین کی تھی۔
ماہرین آثار قدیمہ نے منگولیا بھر سے ایسی قبروں کا معائنہ کیا ہے اور ان کے مطابق اس سلطنت کی سب سے مہنگی اور بہترین قبروں میں خواتین دفن ہیں۔ لیکن چند سال قبل جب میکس پلینک کی ٹیم نے جینیاتی تکنیک کا سہارا لیا تو اس بات کی وثوق کے ساتھ تصدیق ہو گئی اور اس تحقیق کو اپریل 2013 میں ایک عالمی جریدے میں شائع کیا گیا۔
نیشنل میوزیم منگولیا کے تحقیقی مرکز کے سربراہ جامسرانجاو بایارسائی خان کا کہنا ہے کہ ’ہماری جینیاتی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیونگنو معاشرے میں شہزادیاں ہی اہم سیاسی اور معاشی کردار ادا کرتی تھیں۔‘
ان معلومات سے سائنسدانوں کا مفروضہ بدلا ہے کہ کیسے اس خانہ بدوش سلطنت نے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کیا اور اس میں ان کی خواتین نے کتنا اہم کردار ادا کیا۔
ہم شاید جب کسی قدیم سلطنت کا گمان کرتے ہیں تو بڑے شہروں، محلات کے بارے میں سوچتے ہیں جن کے ذریعے انھوں نے راج کیا ہو گا لیکن کئی خانہ بدوش سلطنتیں بھی کافی ترقی یافتہ تھیں۔
زیونگنو کی سلطنت چنگیز خان کے زمانے سے ایک ہزار سال قبل وجود میں آئی اور پہلی صدی عیسوی تک جدید دور کے منگولیا سے لیکر روس تک راج کرتی رہی۔
ماہر جنگجوؤں کے علاوہ یہ لوگ پوری دنیا سے سامان آسائش اکھٹا کرتے اور قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعے تجارت کیا کرتے۔ چین کا ریشم، رومی شیشہ اور مصری سامان اس تجارت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ معاشرے میں خواتین اہم عہدوں پر براجمان ہوا کرتیں اور سیاست کا حصہ ہوتی تھیں۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو ان کی یہ با اختیار خواتین ہی وہ دھاگہ تھیں جس میں اس چلتی پھرتی سلطنت کو پرویا گیا تھا جس میں کوئی مستقل شہر نہیں تھا اور نہ ہی ان کے وجود پر مہر ثبت کرنے کے لیے کوئی شہر بنائے گئے۔
مشیگن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر برائن ملر کا کہنا ہے کہ ’زیونگنو خواتین کے پاس اعلی عہدے ہوتے تھے اور وہ روایات کی امین ہوتی تھی جو اقتدار کی جنگ کے ساتھ ساتھ شاہراہ ریشم کے نیٹ ورک میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ ان کی بہت زیادہ عزت ہوا کرتی تھی۔‘
کرسٹینا کا کہنا ہے کہ ان خواتین کی قبروں میں ایسی چیزیں بھی موجود ہیں جو ان کی طاقت اور رتبے کی علامت ہیں۔
مغربی منگولیا میں ایک قبرستان میں محققین کو ایسے عالیشان مقبرے ملے جو واضح طور پر ان خواتین کو عزت بخشنے کے لیے تعمیر ہوئے۔ زیونگنو کے سنہرے سورج اور چاند والے شاہی نشان سے سجے ان مقبروں میں ہر خاتون کے آس پاس عام مردوں کی سادہ قبریں موجود ہیں۔ ایک قبر میں چھ گھوڑے اور بگھی بھی موجود تھی۔
ایک اور قریبی قبرستان میں خواتین کی قبروں میں چینی شیشے، ریشمی لباس اور دیگر ایسا پرآسائش سامان موجود تھا جو ان کی زندگی میں ان کے رتبے کی علامت بتاتا ہے۔
یہ قبریں اہرام کی الٹی شکل میں ہیں جو اوپر سے چوکور اور زمین میں نیچے جاتے جاتے تنگ ہوتی جاتی ہیں۔ ارسلا بروسیڈر بتاتی ہیں کہ ’جب ان قبروں کو کھودا گیا تو یہ ایک الٹے اہرام کی مانند تھیں جو زمین میں 20 میٹر گہرائی تک جاتی ہیں۔‘
ماہرین آثار قدیمہ کو پتھر کے بنے جوہرات سے لدی بیلٹ بھی ملی ہیں جو معاشرے میں اعلی رتبے کی نشان دہی کرتی ہیں۔ ارسلا کے مطابق ’یہ ایسی نظر آتی ہیں جیسا کہ کرسمس کا درخت سجایا جاتا ہے۔‘
’یہ بیلٹ رتبے کی اہم علامت ہوا کرتی تھی جو روایتی طور پر صرف مردوں کے لیے مخصوص سمجھی جاتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ زیونگنو کے اس زمانے میں یہ بیلٹ صرف خواتین کو دی جاتی تھی، مردوں کو نہیں۔‘
زیونگنو میں گھڑ سواری اور تیر اندازی کو مرکزی صلاحیت مانا جاتا تھا۔ کرسٹینا بتاتی ہیں کہ ’کچھ لوگ گھوڑوں کو زمین کا بحری جہاز کہتے ہیں کیوں کہ صنعت کے وجود سے قبل بحری جہاز اور گھوڑے ہی سب سے تیز سفر کے کام آتے تھے۔‘
زیونگنو مقامی گھوڑے پالا کرتے تھے اور سواری کے دوران تیز اندازی بھی سیکھتے تھے جو دور تک مار کرنے میں مددگار ہوا کرتے تھے۔ چین کے ہان باشندے ان کا مقابلہ نہیں کر پاتے تھے۔ کرسٹینا کا کہنا ہے کہ ’جب انھوں نے آغاز میں دیوار چین بنائی تو اس کا فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ زیونگنو اس کے ارد گرد سے نکل جایا کرتے تھے۔‘
زیونگنو خواتین بھی گھڑسوار اور ماہر تیر انداز ہوتی تھیں لیکن کیا وہ ان جنگوں میں شریک ہوتی تھیں یا نہیں، یہ واضح نہیں ہے۔ چند قبروں میں گھڑ سواری کا سامان ملا ہے لیکن ماہرین وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ لڑی یا نہیں۔
ارسلا کا ماننا ہے کہ ’ہم اس نکتے کو خارج نہیں کر سکتے کہ یہ جنگجو خواتین بھی تھیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام خواتین فوج میں شامل ہوا کرتی تھیں لیکن وہ یقینا ماہر گھر سوار اور تیز انداز تھیں جو اس زمانے میں بہتر زندگی کے لیے ضرری ہوا کرتا تھا۔‘
جینیاتی تحقیق سے میکس پلینک کی ٹیم کو ایک اور دلچسپ بات بھی معلوم ہوئی۔ چین کے قریب اس خانہ بدوش سلطنت کی سرحد پر دفن ان خواتین کی جینیات باقی زیونگنو آبادی کی جینیات سے مختلف ہے۔ ان کی جینیات ایک ایسے شخص سے ملتی ہیں جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ زیونگنو کا بادشاہ تھا اور اس کی قبر 2013 میں وسطی منگولیا سے ملی۔
میکس پلینک ٹیم کا ماننا ہے کہ بادشاہ نے اپنی قریبی خواتین رشتہ داروں کی شادیاں سرحد پر بسنے والے قبائل سے کی تاکہ سیاسی اتحاد اور سلطنت مضبوط رہیں۔
بایارسائی خان کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ بادشاہ اپنی بیٹیوں کو سلطنت کے دیہی علاقوں میں بھجوا رہا تھا تاکہ اس کا سیاسی اور معاشی کنٹرول برقرار رہے۔‘
یوں یہ خواتین بادشاہ کی سفیر کے طور پر رہتیں اور شاہراہ ریشم پر روابط قائم رکھتیں۔ بایارسائی خان کہتے ہیں کہ ’یہ ایک اہم رواج تھا اور اس روایت کی کامیابی نے ہی بعد میں منگول سلطنت کی کامیابی کی بنیاد ڈالی۔‘
چنگیز خان نے بھی اسی روایت کے تحت اپنی سلطنت کی مضبوطی کے لیے شادی کی حکمت عملی کا استعمال کیا اور منگول ملکائیں اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے لیے جانی جاتی ہیں۔
برائن ملر کہتے ہیں کہ ’کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ مردوں کی بادشاہت کی شطرنج میں یہ خواتین صرف مہرہ تھیں لیکن ان کے مدفن بلکل الٹ بات کی نشان دہی کرتے ہیں۔‘
’اگر یہ خواتین صرف ایک مہرہ ہوتیں تو ان کی تدفین سادہ طریقے سے ان کے شوہروں کے ساتھ ہو جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ خواتین رشتہ ازدواج کے ذریعے بننے والے طاقتور اتحاد کا حصہ تھیںاور انھوں نے پوری سلطنت کو جوڑ کر رکھا ہوا تھا۔ ان کو شان و شوکت سے نہایت عزت و احترام سے دفنایا گیا۔‘
کیا زیونگنو ایک مختلف طرز کے صنفی قانون کو اپنانے والے منفرد لوگ تھے؟ ایسا ضروری نہیں۔ برائن ملر کا کہنا ہے کہ ’تحقیق کے مطابق وکٹوریئن دور میں خواتین سے منسوب کردار کو تاریخ کے ہر دور سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔‘
وہ زنگونیو کے بارے میں ایک کتاب تحریر کر رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے امید ہے کہ لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو کہ جدید دور سے پہلے کے معاشروں میں خواتین کے پاس بہت طاقت ہوا کرتی تھی۔‘