Getty Imagesکورونا کی وبا کے بعد بہت سارے لوگ کام کے متعلق اپنا نظریہ تبدیل کر رہے ہیں کیونکہ بہت ساروں کو محسوس ہوا وہ گھر سے بیٹھ کر زیادہ اچھا کام کر رہے تھے
ایک ہفتے میں ایک انسان کو کتنے گھنٹے کام کرنا چاہیے؟
یہ ایسا سوال ہے جس کے بارے میں گذشتہ چند دنوں سے انڈیا میں بحث جای ہے اور اس کی وجہ بنے برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کے ارب پتی بزنس مین سسر این آر نارائن مورتی۔ جنھوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لیے نوجوانوں کو ایک ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
انھوں نے کچھ دن قبل ایک پوڈکاسٹ میں کہا ’انڈیا کے کام میں پیداواری صلاحیت دنیا میں کم ترین ہے، جب تک ہم اپنی پیداواری صلاحیت بہتر نہیں کرتے۔۔۔ ہم ان ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتے جنھوں نے بہت ترقی کی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’لہذا میری گزارش ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو یہ کہنا پڑے گا کہ ’یہ میرا ملک ہے، میں ہفتے میں 70 گھنٹے کام کرنا چاہوں گا۔‘
نارائن مورتی کا یہ تبصرہ وائرل ہو گیا جس پر جہاں انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہاں لوگوں نے ان سے اتفاق بھی کیا۔ ان کی وجہ سے سوشل میڈیا اور اخباروں میں چھپنے والے تجزیوں پرکام کا ’زہریلا‘ ماحول اور آجروں کو نوکری پر رکھتے ہوئے اپنے ملازمین سے کیا توقعات رکھنی چاہیں جیسے موضوعات پر بحث شروع ہو گئی۔
کچھ تنقید ان لوگوں نے کی جنھوں نے نارائن مورتی کی انفوسیس سمیت انڈیا کی دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں میں انجنیئرز کی ابتدائی تنخواہ کی طرفتوجہ دلائی جو کہ کافی کم ہوتی ہے۔
باقی لوگوں نے اس پر بات کی کہ وقفے کے بغیر کام کرنا جسمانی اور زہنی تندروستی کے لیے اچھا نہیں ہے۔
بینگلور سے تعلق رکھنے والے کارڈیالوجیسٹ ڈاکٹر دیپک کرشنامورتی نے ایکس پر لکھا ’لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے لیے وقت نہیں، گھر والوں سے بات چیت کے لیے وقت نہیں، ورزش کے لیے وقت نہیں، تفریح کے لیے وقت نہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہ توقع کرتے ہیں کہ کام کے اوقات کے بعد بھی آپ ان کی ای میلز اور کالوں کا جواب دیں۔ پھر آپ سوچتے ہیں کہ نوجوانوں کو دل کو دورے کیوں پڑ رہے ہیں؟‘
اور کچھ لوگوں نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ دفتر اور گھر کو ملا کر زیادہ تر خواتین ہفتے میں 70 گھنٹوں سے زیادہ کام کرتی ہیں۔
یہ بچث اس وقت سامنے آ رہی ہے جب کورونا کی وبا کے بعد بہت سارے لوگ کام کے متعلق اپنا نظریہ تبدیل کر رہے ہیں کیونکہ بہت ساروں کو محسوس ہوا وہ گھر سے بیٹھ کر زیادہ اچھا کام کر رہے تھے جبکہ کچھ لوگ کام اور روزمرہ کی زندگی کے درمیان بہتر اور صحت مند توازن پر زور دے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے بہت فائدے ہیں اور یہ صرف ملازمین تک محدود نہیں ہیں۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے گذشتہ سال ایک رپورٹ شائع کی جس میں 45 امریکی کمپنیوں کا مطالعہ کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ’وہ کپمنیاں جو کام اور زندگی کے درمیان توازن کی پالیسی رکھتی ہیں انھیں موجودہ ملازمین کی برقراری، بہتر بھرتی، غیر حاضری کی کم شرح اور اعلیٰ پیداواری صلاحیت کی صورت میں فائدہ ہوتا ہے۔‘
Getty Imagesاین آر ناراین مورتی
آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق انڈینز پہلے ہی زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ کورونا کی وبا سے پہلے انڈین ایک سال میں اوسطًا دو ہزار گھنٹوں سے بھی زیادہ کام کرتے تھے جو کہ امریکہ برازیل اور جرمنی سے زیادہ ہے۔
آنٹرپینیور اور فلم پروڈیوسر رونی سکرووالا نے ایکس پر لکھا ’پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کا مطلب صرف کام کے اوقات کو بڑھانا نہیں ہے، اس کا مطلب ہے آپ اپنے کام میں بہتر ہوں۔ آپ کی صلاحیت میں اضافہ ہو، مثبت کام کا ماحول اور کام کے بدلے منصفانہ اجرت۔ کام کا میعار اچھا ہونا زیادہ دیر کام کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔‘
یہ موضوع انڈیا میں زیادہ حساس ہے۔ یہاں مضبوط مزدوری کے قوانین ہیں لیکن ایکٹوسٹس کا کہنا ہے کہ حکام کو اس کی عمل درآمد پر مزید کام کرنا ہوگا۔
اس سال مزدوروں اور حزب اخلاف کی جماعتوں کی طرف سے ہونے والے مظاہروں نے تمل ناڈو کی حکومت کو ایک بل واپس لینے پر مجبور کیا جو فیکٹریوں میں کام کے اوقات کو بڑھا کر 12 گھنٹے کرنے کی اجازت دے رہا تھا۔
نارائن مورتی پر 2020 میں بھی کافی تنقید ہوئی تھی جب انھوں نے کورونا کی وجہ سے معاشی سست روی کا ازالہ کرنے کے لیے انڈینز کو دو سے تین سال تک ہر ہفتے کم از کم 64 گھنٹے کام کرنے کی تجویز دی تھی۔
گذشتہ سال ایک اور سی ای او پر تنقید ہوئی تھی جب انھوں نے یہ تجویز دی تھی کہ کیریئر کے ابتدا میں نوجوان لوگوں کو ایک دن میں 18 گھنٹے کام کرنا چاہیے۔
لیکن انڈیا میں کچھ کاروباری لیڈرز نے ان کی اس تجویز سے اتفاق کیا۔
آئی ٹی کمپنی ٹیک مہیندرا کے سی ای او سی پی گرنانی نے کہا کہ نارائن مورتی نے تبصرے کو زیادہ جامع انداز میں لینے کا ارادہ کیا ہوگا۔
انھوں نے ایکس پر پوسٹ کیا ’میرا یقین ہے کہ وہ کام کی بات کر رہے ہیں، یہ کمپنی تک محدود نہیں ہے۔ یہ آپ کے اور آپ کے ملک تک پھیلا ہوا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ کمپنی کے لیے 70 گھنٹے کام کریں۔ کمپنی کے لیے40 گھنٹے کام کریں لیکن اپنے لیے 30 گھنٹے کام کریں۔ 10 ہزار گھنٹوں کی سرمایہ کاری کریں جس سے آپ اپنے مضمون کے ماہر بن جائیں۔ رات گئے محنت کریں اور اپنی فیلڈ کے ماہر بنیں۔‘
جے ایس ڈبلیو گروپ آف کمپنیز کے چیئرمین سجن جنڈل نے کہا ’ہمارے جیسے تیزی سے ہمارے سائز کی ترقی کرتی ہوئی قوم کی ضرورت پانچ دن کام کرنے کا کلچر نہیں ہے۔‘
انڈیا میں جب زیادہ گھنٹے کام کرنے پر بحث ہو رہی ہے تب کچھ ترقی پزیر ممالک میں چار دن کام کرنے پر تجربے ہو رہے ہیں۔
2022 میں بیلجیئم نے ملازمین کی تنخواہ میں کمی کے بغیر انھیں ہفتے میں چار دن کام کرنے کا حق دینے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی۔ ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ ایسا کرنے کے پیچھے وجہ ملک کو ’زیادہ متحرک اور پیداواری معیشت بنانا‘ ہے۔
پچھلے سال، برطانیہ میں کئی کمپنیوں نے چھ ماہ کی آزمائشی سکیم میں حصہ لیا۔ اس کا اہتمام ’4 ڈے گلوبل‘ کے ذریعے کیا گیا تھا، یہ ایک تنظیم ہے جو کہ ایک چھوٹے ہفتے کے لیے مہم چلاتی ہے۔ آزمائشی وقت کے اختتام پر اس میں حصہ لینے والی 61 کمپنیوں میں سے 56 نے کہا کہ وہ کم از کم ابھی کے لیے چار دن کے ہفتے کے ساتھ کام جاری رکھیں گے جبکہ 18 کا کہنا ہے کہ وہ یہ مستقل تبدیلی کر رہے ہیں۔
برطانیہ میں اس سکیم کے اثر کا جائزہ لینے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس کے ’وسیع فوائد‘ ہیں خاص طور پر ملازمین کی بہتری کے لیے۔
اس کے مصنفین نے لکھا کہ اس رپورٹ سے رویوں میں تبدیلی آ سکتی ہے تاکہ ہفتے کے وسط کا وقفہ یا تین دن کی چھٹیوں کو جلد ہی معمول کے مطابق دیکھا جائے۔
اسی طرح کا تجربہ اب پرتگال میں کیا جا رہا ہے۔