صبح کے چار بجے تھے جب احمد کی اچانک آنکھ کھل گئی۔ احمد کو شدید بے چینی کا احساس ہوا اور انھیں لگا کہ کچھ نہ کچھ غلط ہے۔
جب سے غزہ پر اسرائیل کے حملے شروع ہوئے تھے تب سے ہی لندن میں رہنے والےاحمد غزہ میں رہنے والےاپنے خاندانکی خیریت جاننے کے لیے فیملی واٹس ایپ گروپ کو بلاناغہ لازمی چیک کرتے تھے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کی بجلی منقطع کرنے کے بعد سے احمد کا اپنے والد اور بہن بھائیوں سے رابطہ کرنا مشکل تھا تاہم دو دن پہلے ان کی بہن والہ کا پیغام آیا تھا۔
اس میسیج میں انھیں اطلاع ملی تھی کہ ان کے گھر کو ایک بم سے نقصان پہنچا تھا۔
’گھر کے اندر کی کھڑکیاں اور دروازے سب ٹوٹ چکے تھے لیکن اہم بات یہ ہے کہ خدا نے ہمیں محفوظ رکھا ۔ ہم سب ٹھیک ہیں۔‘
احمد نے جوابا لکھا تھا ’گھر ٹھیک ہو سکتا ہے اہم بات یہ ہے کہ آپ محفوظ ہیں۔‘
والہ اور ان کے چار بچے غزہ کے وسط میں دیر البلاح میں اپنے والد کے گھر چلے گئے تاہم اس رات چار بجے جب احمد بیدار ہوئے تو فیملی گروپ میں خاموشی تھی۔ وہ کئی دوسرے لوگوں کے پیغامات دیکھ سکتے تھے، جو بھیجے گئے تھے اور پھر حذف کر دیے گئے تھے۔
انھوں نے غزہ میں ایک دوست کو فون کیا کہآخر وہاں کیا ہو رہا ہے اور پھر ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا کیونکہ ان کا خاندان مر گیا۔
’15 بچوں سمیت خاندان کے 21 لوگ مر گئے‘
جنگ کے آغاز سے احمد اور غزہ سے ان کےدیگر فلیٹ میٹ ایکقسم کی جہنم میں رہ رہے ہیں۔ ان کے فون تباہی اور موتکی خبریں دیتے ہیں۔ ہر روز انھیں بتایا جاتا ہے کہ کوئی پڑوسی، کوئی دوست، یا کوئی ایسا شخص جس کے ساتھ وہ سکول جاتے تھے، اب دنیا میں نہیں رہا۔
اس کے باوجودانھیں کبھی یقین نہیں تھا کہ جنگ براہ راست ان کے خاندان کو ختم کر دے گی۔ ان کا گھر دیر البلاح کے وسط میں ایک ایسے علاقے میں ہے جسے پہلے کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔
’میں نے سوچا تھا یہ ان کے لیے خوفناک وقت ہے لیکن وہ ٹھیک ہو جائیں گے، میں نے یہی سوچا تھا۔‘
ان کے خاندان کے مجموعی طور پر 21 افراد اس وقت مارے گئے جب ان کا گھر ایک فضائی حملے سے تباہ ہو گیا۔ اس حملے میں ان کے والد، تین بہنیں، دو بھائی اور ان کے 15 بچے ہلاک ہوئے۔
مرنے والوں کی آخری ویڈیو کال
مرنے والوں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہدکھی احمد اپنے خاندان کے ہر فرد کے نام اور عمریں یاد کرنے کی کوششمیں خود پر قابو کھو دیتے ہیں۔
بچوں میں ان کا 13 سالہ بھانجا اسلم سب سے بڑا تھا اور جسے احمد سب سے زیادہ چاہتے تھے۔
احمداس وقت ایک نوعمر لڑکے تھے جب ان کی بہن والہ کے ہاں اسلم کی پیدائش ہوئی۔ جب والہ کام پر جاتیں تو احمد کی والدہ اسلم کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور احمد اکثر اسلم کو دودھ پلانے اور کپڑے تبدیل کرنے میں مدد کرتے تھے۔
جیسے جیسے اسلم بڑا ہوا وہ احمد کو اپنا آئیڈیل بناتا گیا۔ اسلم اپنے ماموں جیسا بننا چاہتا تھا۔ احمد کہتے ہیں کہ وہ اپنی کلاس میں سب سے آگے تھا اور انگریزی میں خاص طور پر محنت کر رہا تھا تاکہ وہ بھی برطانیہ آ سکے۔
اسلم اس حملے میں اپنی چھوٹی بہنوں کے ساتھ مارے گئے۔ 10 سالہ دیما،نو سال کی طلا، پانچ سالہ نور اور دو سال کی نسمہ دنیا سے جا چکی تھیں۔
یہی نہیں بلکہ ان بچوں کے دیگر کزن جن میں 13 سالہ رجاد، 11 سالہ بکر آٹھ سالہ محمد اور بسمہ، چھ سالہ عبداللہ اور تمیم جبکہ نو سال کی سارہ سب ہی احمد کی آنکھ کا تارہ رہے تھے۔
آخری بار احمد نے بچوں سے ویڈیو کال پر بات کی تھی۔ احمد کو اپنی ملازمت پر بونس دیا گیا تھا جس کے بعد خاندانی روایت کے مطابق احمد نے تمام بچوں کواچھی سی ایک دعوت دینے کا وعدہ کیا تھا۔
’ان سب بچوں نے کہا کہ وہ ساحل سمندر پر جانا چاہتے ہیں اور ایک وہاں پکنک کریں گے اور کھائیں پیئں گے، مل کرڈانس کریں گے اور لطف اندوز ہوں گے۔‘
’لہذا میں نے ان کی یہ فرمائش پوری کی۔ بچوں نے اس دن مجھے ساحل سمندر سے ویڈیو کال کی تھی اور مجھ سے بات کرنے کے لیے ہر کوئیفون پر آنا چاہ رہا تھا۔ اب ان میں سے 15 ہلاک ہو چکے ہیں۔‘
احمد کے نو بہن بھائیوں میں سے ابصرف وہ خود اور دو بہنیں زندہ رہ گئی ہیں۔ حملے کے بعد کے دنوں میں، احمد نے تین سالہ عمر سمیت ہر ایک بچے کی تصویر آن لائن پوسٹ کی، پھر انھیں اپنی زندہ بچ جانے والی بہن کا فون آیا کہ عمر زندہ ہے۔ ’یہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ تھا۔‘
جب بم گرا تو عمر اپنی ماں شمع اور والد محمد کے ساتھ بستر پر تھے۔ محمد تو مارے گئے لیکن شمع اور عمر معجزانہ طور پر بچ گئے۔
’میں ہر روز سو بار مرتا ہوں‘
واحد دوسرا شخص جسے زندہ نکالا گیا وہ احمد کی 11 سالہ بھتیجی ملاک تھیں۔ ان کے جسم کا 50 فیصد حصہ تھرڈ ڈگری جل گیا تھا۔
جب میں احمد سے ملا تو انھوں نے مجھے ہسپتال میں ملاک کی تصویر دکھائی جس کا جسم پوری طرح پٹیوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ پہلے تو میں نے اسے لڑکا سمجھا کیونکہ اس کے بال چھوٹے تھے تاہم اس کے بال آگ میں جھلس کر ختم ہو گئے تھے۔
جب یہ حملہ ہوا تو ملاک کے والد گھر میں نہیں تھے اور وہ زندہ بچ گئے لیکن ان کی بیوی اور دو دیگر بچے مارے گئے۔ جب احمد نے ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے انھیں میسج کیا تو جواب آیا۔ ’میں ایک جسم ہوں جس میںروح نہیں۔‘
اس وقت غزہ سے فون کے سگنل مکمل طور پر منقطع ہو گئے تھے کیونکہ اسرائیل نے اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا تھا۔اس لیے احمد کا کسی سے رابطہ نہیں ہو سکا۔جب دو دن بعد دوبارہ سگنل ملے تو انھیں معلوم ہوا کہ ملاک بھی دنیا سے چلی گئی ہیں۔
طبی سامان کی کمی کے باعث، جب ایک زیادہ سیریس کیس آیا تو ملاک کو آئی سی یو سے باہر لے جانا پڑا۔ وہ بہت تکلیف میں تھیں۔
ملاک کے والد نے جب اپنے تین بچوں میں سے سب سے بڑے اور آخری کو بھی دم توڑتے دیکھا تو ان کی تمام امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔
انھوں نے احمد کو بتایا کہ ’میں ہر روز سو بار مرتا ہوں۔‘
’ملبے تلے سڑنے والی لاشوں کی بدبو برداشت سے باہر ہو چکی ہے‘
ہم نے تین لوگوں سے بات کی جنھوں نے غزہ میں اپنے خاندان کے 20 سے زیادہ افراد کو کھو دیا ہے۔
ان میں سے ایک درویش المنامہ نے اپنے خاندان کے 44 افراد کو کھو دیا۔ وہایک ایسے ناقابل بیان غم سے نمٹ رہے ہیں جس کا تصور بھی محال ہے۔
یارہ شریف لندن میں ایک ماہر تعمیرات اور ماہر تعلیم ہیں۔ انھوں نے مجھے اپنی خالہ کے خاندانی گھر کی تصاویر بھیجیں جو جنگ کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔
یارا کہتی ہیں کہ ’ یہ ایک بہت خوبصورت گھر تھا۔ ایک خوبصورت حویلی جس کے بیچ میں ایک بڑا صحن تھا۔ یہ ایک خاندانی گھر تھا جہاں روایتاً بیٹے اپنے والدین کے فلیٹ کے اوپر اپنے خاندانوں کے لیے فلیٹ بناتے ہیں اور اب ایک ہی جھپٹے میں کئی نسلیں ختم ہو گئیں ہیں۔
اس حملے میں ان کے خاندان کے 20 افراد مارے گئے، یارا کی خالہ اور چچا، ان کے دو کزن اور ان کے 10 بچے، اسی گھر میں مقیمخاندان کے چھ دیگر افراد بھی جان سے گئے۔
انمیں سے کچھ لاشیں ملبے سے نکالی گئیں اور وہ وزارت صحت کی جاری کردہ فہرست میںصرف مرنے والوں کی تعداد کے طور پر سامنے آئیں۔
یارا نے ہمیں فہرست کا ایک سکرین شاٹ بھیجا جس میں ہر ایک نام کے ساتھ سرخ رنگ کے نشان تھے۔ فہرست کے دائیں جانب، ان کی عمریںلکھی تھیں جس کے مطابقسما 16، عمر 14، عبد 13، فاطمہ 10، عبیدہ سات سال، علیمان اور فاطمہ دونوں پانچ، یوسف چار اور سارہ اور انس تین سال کی تھیں۔
یارا کے دو کزن حیات ہیں، انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ غیر مصدقہاطلاعات بھی موجود تھیں کہ میڈیا سے بات کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کی بہنیں غزہ کے مختلف حصوں میں ہیں اور جنازے یا غمبانٹنے کے لیے ایک دوسرے تک نہیں پہنچ سکتیں۔ یارا کے کزن نے اپنے پیغام میں بتایا کہ’محمد، ماما اور دونوں بچے ابھی تک ملبے کے نیچے ہیں۔‘
غزہ میں کھدائی کرنے والی مشینیں چلانے کے لیے ایندھن ناکافی ہے۔
پچھلے ہفتے احمد کی سب سے بڑی بہن، جو بمباری کے وقت اپنے گھر پر تھیں،کھنڈرات بن جانے والی عمارت کو دیکھنے گئیں تاہم انھوں نے احمد کو بتایا کہ وہ زیادہ دیر نہیں ٹھہریں کیونکہ سڑنے والی لاشوں کی بدبو برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔
احمد کو اپنا کرب اور دکھ بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ رہے ہیں۔ وہ اس دکھ کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہیں جو وہ بمباری کے بعد سے محسوس کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جیسے میرا دل اب سینے میں نہیں اور رونابھی بے معنی ہے کیونکہ اس سے کچھ نہیں بدلتا۔‘
تاہم اس دکھ کے بوجھ سے وہ بے قرار ہیں۔ ’مجھے لگتا ہے کہ میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ میں رات کو سو نہیں سکتا۔ اس احساس کو روکنے کے لیے آپ کچھ نہیں کر سکتے۔‘
مرنے والوں میں احمد کا سب سے چھوٹا بھائی محمود بھی شامل ہے۔ ’وی آر ناٹ نمبرز ‘ کے نام سے این جی او میں محمود، احمد کے ساتھ ہی کام کرتے تھے۔یہ ادارہ نوجوان فلسطینیوں کو دنیا کے سامنے اپنی کہانیاں سنانے کی تربیت دیتی ہے۔
محمود کو ابھی آسٹریلیا میں ماسٹرز کرنے کے لیے سکالرشپ کی پیشکش کی گئی تھی۔ جنگ کے ایک ہفتے بعد محمود نے احمد سے کہا کہ وہ نہیں جانا چاہتے۔ وہ اس بات سے بہت خفا تھے کہ مغرب غزہ پر بمباری پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کر رہا ہے۔
انھوں نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا کہ ’میرا دل اب یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ہمارا قتل عام کیا جا رہا ہے۔‘ ایک ہفتے بعد انھیں اپنے والد کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔
اپنے والد کے بارے میں بات کرتے ہوئے، احمدنے کہا کہ وہدنیا میں سب سے مہربان آدمی تھے۔ ان کے والد نےٹیکسی چلاتے ہوئے سخت محنت کی اور گھر بنانے اور اپنے خاندان کی تعلیم کے لیے تعمیراتی کام تک کیا۔
احمد کا خیال ہےکہ اس تنازعہ کا واحد حل ایک ریاست ہے جس میں یہودی اور فلسطینی امن کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
لیکن جب احمد اپنے اکلوتے زندہ بچ جانے والے بھتیجے کے بارے میں سوچتے ہیں تو وہ بے یقینی کا شکار ہو جاتے ہیںکہ اس جنگ میں ان کے پورے خاندان کے خاتمے کے بعد اب عمر کیا اس نظریے پربھروسہ کر پائیں گے؟