سپائنل مسکلر ایٹرافی: وہ نایاب مرض جس سے متاثرہ افراد کو دو ملین ڈالر کی دوا کی ضرورت ہے

بی بی سی اردو  |  Nov 06, 2023

اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے غفران خاندان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

سات سالہ عفان اور پانچ سالہ ارہان کو ’سپائنل مسکلر اٹرافی‘ (ایس ایم اے) نامی نایاب جینیاتی بیماری ہے جس میں پٹھے متاثر اور سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ صرف فزیوتھراپی کی مد میں خاندان کو ماہانہ 40 ہزار روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں اور ان کے بیٹوں کا مسلسل خیال رکھنا پڑتا ہے کیونکہ وہ خود سے بیٹھ سکتے ہیں نہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔

زیبا غفران کہتی ہیں کہ ’ہم اپنے بیٹوں کے لیے جینیاتی تھراپی کا علاج کروانا چاہتے ہیں لیکن ایک ڈوز ہی 2.1 ملین ڈالر کی ہے۔ ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں۔‘

’زولجینسما جین تھراپی‘ دنیا میں سب سے مہنگا علاج ہے۔ یہ ایک بار دی جاتی ہے، عام طور پر دو سال سے کم عمر بچوں کو۔ غفران خاندان کو اب کسی معجزے کی تلاش ہے۔

انڈیا میں بہت سے والدین اس نایاب مرض سے متاثرہ اپنے بچوں کے لیے زولجینسما یا ایس ایم اے کی ادویات نہیں خرید سکتے۔ انڈیا میں اس مرض سے متاثرہ افراد کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بیماری ہر 10 ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں سے ایک کو متاثر کرتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق ہر 38 میں سے ایک انڈین شہری میں ایس ایم اے کی وجہ بننے والے جینیات موجود ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مغربی دنیا میں ہر 50 میں سے ایک فرد میں یہ جینیات موجود ہوتے ہیں۔

نایاب امراض کا علاج دنیا بھر میں ہی کافی مہنگا ہے لیکن چند ملکوں میں حکومت یا انشورنس کمپنیاں خرچہ اٹھاتی ہیں۔ برطانیہ میں ایس ایم اے کی ادویات نیشنل ہیلتھ سروس کے ذریعے مہیا کی جاتی ہیں جبکہ آسٹریلیا میں مریضوں کو سستے داموں ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔

انڈیا میں ایسے مریض خیرات اور دوسروں سے مالی مدد کا سہارا لیتے ہیں لیکن اب چند مریض اور خاندان حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ان ادویات کی قیمتوں میں کمی لائی جائے۔

تقریبا 95 فیصد نایاب امراض کا کوئی منظور شدہ علاج موجود نہیں لیکن حال ہی میں ایس ایم اے اور ’دوشین مسکلر ڈسٹرافی‘ (ڈی ایم ڈی) نامی بیماری کا علاج دریافت ہوا ہے اور انڈیا میں ایسے امراض سے متاثرہ افراد چاہتے ہیں کہ ان کو بھی ان ادویات تک رسائی میسر ہونی چاہیے۔

مارچ میں ڈی ایم ڈی بیماری سے متاثرہ بچوں کے 100 والدین نے دلی میں ایک احتجاجی ریلی نکالی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ نئی ادویات ملک میں لائی جائیں اور بیماری سے متاثرہ بچوں کے لیے مفت فزیوتھراپی اور ادویات فراہم کی جائے۔

انڈیا میں نایاب امراض سے متعلق ایک پالیسی موجود ہے جس میں مالی مدد دی جاتی ہے لیکن ماہرین کے مطابق اس پالیسی کو ابھی تک درست طریقے سے لاگو نہیں کیا جا سکا۔

ایس ایم اے نامی بیماری ’ایس ایم این ون‘ جین میں نقص کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے جس سے ایک اہم پروٹین کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ مرض وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے اور مریض کو چلنے، بولنے، کھانے اور سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر شفالی گلاتی آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز دہلی میں نیورولوجسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایس ایم اے کی چار اقسام ہوتی ہیں۔

پہلی وہ جو سب سے شدید اور عام ہے جس میں علامات پیدائش یا چھ ماہ کی عمر میں سامنے آ جاتی ہیں۔ اس قسم میں بچوں کے بازو اور ٹانگیں درست طریقے سے نہیں بن پاتے اور زیادہ تر مریض دو سال کی عمر سے زیادہ نہیں جی پاتے۔

دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو تین یا 15 ماہ کی عمر میں شروع ہوتی ہے اور اس سے متاثرہ بچے بیٹھ تو سکتے ہیں لیکن کھڑے نہیں ہو پاتے اور خود چل نہیں سکتے۔

تیسری اور چوتھی قسم میں شدت کم ہوتی ہے لیکن ان میں پٹھے دھیرے دھیرے متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ فرد کی عمر کم ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر شفالی کا کہنا ہے کہ ایس ایم اے کا علاج تو نہیں ہو سکتا لیکن موجودہ ادویات بیماری کی شدت کو کم کر دیتی ہیں جس سے انسان کی عمر میں اضافہ اور زندگی کے معیار میں بہتری آ سکتی ہے۔

امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اب تک تین علاج منظور کیے ہیں:

سب سے مہنگا علاج زولجینسما جین تھراپی ہے جو دو ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم کے عوض ایک بار دی جاتی ہے اور یہ نقص والے جین کو ایک فعال جین سے بدل دیتی ہے۔ ڈاکٹروں اور والدین کا کہنا ہے کہ ساڑے 17 کروڑ انڈین روپے کی قیمت میں ٹیکس شامل نہیں۔ دوا بنانے والی نوارٹس کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ وہ دوا کی قیمت پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔

سپنرازا نامی دوا کی پہلی چار خوارک کی قیمت 50 ملین روپے ہے۔ پہلی خوراک کے بعد سالانہ 30 ملین روپے کے عوض دوا ملتی ہے جو زندگی بھر لینا ہوتی ہے۔

سب سے سستی دوا رزڈیپالم ہے جو 72 لاکھ روپے کی ہے۔ انڈیا میں اس کے استعمال کی اجازت ہے اور یہاں دستیاب بھی ہے۔ یہ دوا بھی زندگی بھر لینا ہوتی ہے۔

ان میں سے کوئی بھی دوا انڈیا میں تیار نہیں ہوتی اور ان کا کوئی سستا متبادل بھی دستیاب نہیں۔

چند ماہرین فارما کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ نایاب امراض کی ادویات کی قیمت نہایت غیر مناسب ہے تاہم چند کا کہنا ہے کہ دوا بنانے والی کمپنیوں کو اربوں ڈالر تحقیق کے لیے درکار ہوتے ہیں۔

انڈیا میں کئی مریض ایس ایم اے کی دوائی تک رسائی دوا بنانے والی کمپنیوں کے پروگرامز کی مدد سے حاصل کرتے ہیں۔ ان سکیموں میں محدود مریضوں کو مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں تاہم زندگی بھر دوا کی فراہمی کی ضمانت نہیں ہوتی۔

عمر اور صحت جیسے عوامل کسی بھی مریض کو ان پروگرامز کا حصہ بننے سے روک بھی سکتے ہیں۔ زولجینسما دوا بنانے والی نوارٹس دو سال سے کم عمر بچوں کو ایک لاٹری نظام کے ذریعے دوا فراہم کرتی ہے۔

الپنا شرما ’کیور ایس ایم اے‘ نامی تنظیم کی شریک بانی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ دوا بنانے والی کمپنی سے معاہدہ کرے تاکہ سستی دوا انڈیا میں بنائی جا سکے۔

ان کی فاؤنڈیشن دوا پر لاگو 12 فیصد ٹیکس ختم کرنے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔ بی بی سی ان کی جانب سے انڈیا کی وزارت خزانہ اور وزارت صحت کو بھیجے جانے والے پیغامات کے جواب کا انتظار کر رہی ہے۔

کیور ایس ایم اے نے دلی ہائی کورٹ میں بھی ایک درخواست جمع کرا رکھی ہے۔ جولائی میں عدالت نے قومی کمیٹی برائے نایاب امراض کو ہدایت کی تھی کہ دواساز کمپنیوں سے بات کرے کہ کیا یہ ادویات سستے داموں مل سکتی ہیں۔

یہ تنظیمیں اب برازیل کی جانب امید سے دیکھ رہی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق برازیلی حکومت نے نوارٹس سے ایک خفیہ معاہدہ کیا، جس کے تحت زولجینسما دوا سستے داموں خریدی جائے گی اور مریض قسطوں میں پیسے ادا کر سکیں گے۔

تاہم اسی اخبار کے مضمون کے مطابق برازیل کی اس پالیسی نے ملک کے نظام صحت اور اس کے وسائل پر شدید دباو ڈالا ہے۔

ڈاکٹر چندرا کانت کا کہنا ہے کہ انڈیا کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہو گا۔ ’حکومت ہمیشہ اقلیت کی بجائے اکثریت کا سوچتی ہے اور یہ معاشی اعتبار سے ایک مشکل فیصلہ ہے۔‘

الپنا شرما کا کہنا ہے کہ چند مریض اور ان کے والدین ایس ایم اے کے علاج کے لیے پیسے اکھٹا کر سکتے ہیں لیکن موجودہ قیمتوں کے مطابق نہیں۔ ایسے میں ان ادویات تک رسائی کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں رکی ہوئی ہیں۔

35 سالہ ابھینند چنائی میں بائیو انفارمیٹکس کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں جن میں دو سال کی عمر ایس ایم اے کی تیسری قسم کی تشخیص ہوئی تھی۔ 12 سال کی عمر میں ان کے لیے چلنا مشکل ہو گیا اور ان کے پٹھے وقت کے ساتھ خراب ہوتے چلے گئے۔ اب وہ ویل چیئر کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کو سانس لینے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔

حال ہی میں دریافت ہونے والے علاج نے ان کو پرامید کیا۔ 2021 میں انھوں نے اتنے پیسے جمع کیے کہ وہ ایک سال کے لیے رزڈیپالم کی 30 بوتلیں خرید سکتے۔ ان کے ایک رشتہ دار نے اگلے سال کے لیے ان کی دوا کا خرچ اٹھانے کا بھی وعدہ کیا لیکن جب یہ دوا ختم ہو گی تو وہ نہیں جانتے کہ پھر وہ کیا کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی عمر کی وجہ سے ان کو کسی پروگرام کی مدد نہیں ملے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گزشتہ سات سال سے میرا تعلق ایک بہت اچھی خاتون سے ہے لیکن مجھ میں ہمت نہیں کہ میں اس سے کہوں کہ مجھ سے شادی کر لے، اس وقت تک جب تک میں زندہ رہنے کے لیے دوا حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو جاؤں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More