Getty Images
تین نومبر جمعے کی شب نیپال کے جاجر کوٹ میں 6.4 شدت کے زلزلے کے بعد تجزیہ کاروں کی توجہ ایک بار پھر بڑے زلزلوں کے خطرے کی طرف مبذول ہو گئی ہے جو مغربی نیپال میں برسوں سے موجود ہے۔
سائنسی مطالعات کے مطابق زلزلے کی توانائی مغربی نیپال کی سطح کے نیچے 500 سالوں سے محفوظ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ توانائی اتنی زیادہ ہے کہ یہ ریکٹر سکیل پر آٹھ یا اس سے زیادہ شدت کا زلزلہ لا سکتی ہے۔
نیپال میں جمعے کی رات 11 بج کر 47 منٹ پر 6.4 شدت کا زلزلہ آیا جس کا مرکز جاجر کوٹ کے رامیندا میں تھا۔
نیشنل سیسمولوجی سنٹر کے مطابق اُس وقت سے لے کر ہفتہ کی صبح تک چار کی شدت سے زیادہ تین جھٹکے آ چکے ہیں جبکہ 35 سے زیادہ چھوٹے جھٹکے ریکارڈ کیے گئے۔
گذشتہ چند مہینوں سے مغربی نیپال کے اضلاع میں مسلسل زلزلے آ رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جس علاقے میں 500 سال قبل شدید زلزلہ آیا تھا وہاں آٹھ یا اس سے زیادہ شدت کے طاقتور زلزلے کے آنے کا خطرہ ہے۔
Getty Images2015 میں نیپال میں زلزلے کے بعد تباہی کا منظرمغربی نیپال میں زلزلے کا خطرہ کیوں؟
نیپال کے نیشنل ارتھ کوئیک مانیٹرنگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے سینئر ڈویژنل سیسمولوجسٹ لوک وجے ادھیکاری کے مطابق مغربی نیپال میں گذشتہ چند مہینوں میں زلزلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ روزانہ چھوٹے اور بعض اوقات درمیانے درجے کے زلزلے آنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں زلزلے کا خطرہ موجود ہے۔
انھوں نے کہا ’زلزلے کی توانائی وہاں جمع ہو گئی ہے‘۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے زلزلوں کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس علاقے میں کوئی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔ ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم زلزلے کے خطرے میں ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی سطح کے نیچے موجود انڈین پلیٹ ہر سال دو سینٹی میٹر کی شرح سے شمال کی جانب یوریشین پلیٹ کی جانب بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ہمالیائی خطے میں زلزلے سے پڑنے والی دراڑیں پڑ رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق زمین کی مقناطیسی پلیٹوں کی حرکت کے باعث نیپال میں ہر سال زلزلے کی توانائی جمع ہو رہی ہے۔
لوک وجے ادھیکاری نے کہا ’جتنا زیادہ وقت گزرے گا، اتنی ہی زیادہ زلزلہ کی توانائی جمع ہوتی جائے گی۔ جتنا زیادہ دیر کوئی بڑا زلزلہ نہیں آئے گا، اس کے آنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔‘
حکام کے مطابق نیپال میں ہر روز ریکٹر سکیل پر دو سے زیادہ شدت کے تقریباً 10 زلزلے آتے ہیں۔
لیکن سن 2015 میں گورکھا کے علاقے بارپاک میں آنے والے 7.8 شدت کے زلزے کو لوگ آج بھی نہیں بھول سکتے یہ ایک بڑا سانحہ تھا جس میں نو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اب تک کی تحقیق کے مطابق اس علاقے میں اب خطرہ ہے کیونکہ گذشتہ پانچ سو سالوں میں انڈین شہر دہرادون کے مشرق میں 800 کلومیٹر کے دائرے میں کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا ہے۔
BBCکیا درمیانے درجے کے زلزلے خطرے کو کم کرتے ہیں؟
ماہر ارضیات پروفیسر ڈاکٹر وشال ناتھ اوپریتی کا خیال ہے کہ علاقے میں جمع ہونے والے زلزلے کی توانائی کی وجہ سے 1505 میں نیپال میں آنے والے بڑے زلزلے سے بھی زیادہ طاقتور زلزلے کا خطرہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس یہ جانچنے کے لیے کوئی پیمانہ نہیں ہے کہ 1505 کا زلزلہ کتنا شدید تھا۔ زلزلے کے بعد بننے والے گڑھوں کے نیچے پڑنے والی دراڑیں دیکھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ زمین 20 میٹر تک پھسل گئی تھی۔‘
اس کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ اُس وقت 8.5 سے 8.7 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔
ڈاکٹر وشال ناتھ اوپریتی نے کہا کہ اس زلزلے کی وجہ سے دہلی کے قطب مینار سے لے کر چین میں لہاسا تک نقصان پہنچا تھا۔
1934 کے زلزلے کو 1505 کے زلزلے کے بعد سب سے خوفناک زلزلہ سمجھا جاتا ہے۔اس کا مرکز چین پور، نیپال میں تھا۔ اس کی وجہ سے کھٹمنڈو سے لے کر بہار تک بڑا نقصان ہوا تھا۔
ڈاکٹر وشال ناتھ اوپریتی نے کہا ’ایک ایسے علاقے میں جہاں خطرناک زلزلے کی قوت 500 سالوں سے جمع ہو رہی ہے، وہاں چھ، پانچ اور چار شدت کے زلزلوں کا آنا سمندر سے پانی کے چند قطروں کو نکالنے کے مترادف ہے۔‘
نیپال کے نیشنل ارتھ کوئیک مانیٹرنگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے سینئر ڈویژنل سیسمولوجسٹ لوک وجے ادھیکاری بھی کہتے ہیں کہ بڑے زلزلے کا خطرہ درمیانے یا چھوٹے زلزلے آ جانے سے کم نہیں ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک ریکٹر سکیل کا فرق طاقت میں 32 گنا ہوتا ہے،‘۔ اس کا مطلب ہے کہ 6 شدت کا زلزلہ 5 شدت کے زلزلے سے 32 گنا زیادہ طاقت خارج کرتا ہے۔ جبکہ پانچ ریکٹر سکیل کے مقابلے سات ریکٹر سکیل میں ایک ہزار گنا زیادہ طاقت خارج ہو گی۔
زلزلے سے بچاؤ کی تیاریوں پر توجہ دینا ہو گی
مغربی نیپال کے علاوہ ڈاکٹر وشال ناتھ اوپریتی نے مشرقی نیپال میں بھی بڑے زلزلے کے خطرے کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سے بچاؤ کے لیے تیاریوں پر زور دیا جانا چاہیے۔
انھوں نے کہا ’کوسی سے سکم-دارجیلنگ تک 1300 سالوں میں کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا ہے۔ ہمالیہ کی وہ جگہ جہاں اُس سال کوئی زلزلہ نہیں آیا ہو وہ بہت خطرناک ہو جاتی ہے۔‘
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1255 میں آٹھ شدت سے زیادہ کا زلزلہ آیا تھا جس کا مرکز مشرقی نیپال تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسی زلزلے میں بادشاہ ابھے ملا کی موت ہو گئی تھی۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس زلزلے نے نیپال کا ایک تہائی حصہ تباہ کر دیا تھا۔
لوک وجئے ادھیکاری نے کہا، ’اگرچہ یہ پیش گوئی کرنا ناممکن ہے کہ بڑا زلزلہ کب آئے گا، لیکن یہ وقفہ جتنا لمبا ہوگا، اتنا ہی طاقتور ہوگا،‘
ماہرین نے کن اصلاحات پر زور دیا ہے؟
آٹھ یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلے کو بڑا زلزلہ کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آٹھ یا اس سے زیادہ شدت کا زلزلہ مرکز کے ارد گرد کے علاقے کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کمزور انفراسٹرکچر کی وجہ سے زلزلوں سے جان و مال کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے اور اسے بہتر کیا جانا چاہیے۔
لوک وجے ادھیکاری نے کہا کہ جاجرکوٹ میں زلزلے سے کمزور ہو جانے والی عمارتوں کی وجہ سے کافی نقصان ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’زلزلے میں 90 فیصد سے زیادہ لوگ ہماری بنائی ہوئی عمارتوں کے گرنے سے مرتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے (تعمیری) ڈھانچے کو مضبوط نہیں کریں گے ہم کبھی بھی محفوظ نہیں ہوں گے۔‘
ایسے ممالک جہاں زلزلوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جیسے کے چلی، وہاں ایسی مضبوط عمارتیں بنائی جاتی ہیں جو زلزلوں کو برداشت کر سکیں۔
انھوں نے کہا کہ نیپال کو بھی ایسا انفراسٹرکچر بنانا چاہئے، حکومت کو کمزور مکانات کو مضبوط کرنے کی مہم شروع کرنی چاہیے اور اس بات پر زور دیا کہ حکومت اس کے لیے سبسڈی فراہم کرے۔‘
ڈاکٹر وشال ناتھ اوپریتی جیسے ماہرین کی رائے ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ زلزلے سے متعلق امدادی کاروائیوں میں مصروف سیکیورٹی اہلکاروں کی تربیت میں سرمایہ کاری کریں۔ انھوں نے نیپال حکومت سے قبل از وقت وارننگ سسٹم کے لیے بجٹ مختص کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
زلزلوں کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن حالیہ برسوں میں، زلزلے کے ابتدائی انتباہی نظام لوگوں کو تباہی سے بچانے میں مدد کر رہے ہیں۔
یونائٹڈ سٹیٹس جیولاجیکل سروے (یو ایس جی ایس) کے مطابق ابتدائی وارننگ سسٹم جیسے ’شیک الرٹ‘ زمین کی سطح کے نیچے زلزلے کی لہروں کا پتا لگانے پر فوری وارننگ جاری کر سکتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ زلزلے کے دوران سب سے پہلے ایک بہت تیز ’پی‘ (P) لہر نمودار ہوتی ہے، اس کے بعد ایک سست ’ایس‘(S) لہر آتی ہے، پھر یہ لہریں زمین کی سطح تک پہنچ جاتی ہیں۔
سینسر فوری طور پر پی لہر کا پتا لگاتے ہیں اور اس ڈیٹا کو شیک الرٹ کے سسٹم میں منتقل کرتے ہیں۔ اس کا استعمال زلزلے کے مقام اور ممکنہ شدت کا پتا لگانے اور فوری اطلاع جاری کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے اور بہت سارے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔