علاء الدین خلجی: ہندو بادشاہ کو شکست دے کر 1200 من سونا، چاندی لوٹنے سے اندھیری سُرنگ کے راز تک

بی بی سی اردو  |  Nov 02, 2023

BBC

دہلی کے سلطان علاء الدین خلجی نے اپنے دور حکومت میں مہاراشٹرا پر حملہ کیا اور دیواگیری اور اس کے اطراف کو فتح کیا۔ کہا جاتا ہے کہ دیواگیری کو فتح کرنے کے بعد سلطان علاؤالدین خلجی نے سونا، ہیرے، موتیوں سمیت بہت سی قیمتی چیزیں لوٹ لی تھیں۔

تاریخ میں علاء الدین خلجی کی بہت سی کہانیاں اور داستانیں موجود ہیں، لیکن ان سے جڑا ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا خلجی کی دیواگیری میں اتنی لوٹ کی کہانی سچ ہے یا فسانہ؟

ایک غیر معروف قلعہ جس نے قرون وسطیٰ سے مہاراشٹر کے بدلتے ہوئے چہرے کو دیکھا ہے وہ دیواگیری یا دولت آباد کا قلعہ ہے۔ اس قلعے پر کئی خاندانوں نے حکومت کی اور محمد بن تغلق نے دیواگیری کو اپنا دارالحکومت تک بنایا۔

اس قلعے پر یادیو، خلجی، تغلق، نظام شاہی، مغل، مرہٹہ اور آصف جاہی جیسی سلطنتوں کے جھنڈے مختلف اوقات میں لہرائے۔

دیواگیری قلعے کے ارد گرد تین خندقیں ہیں۔ سب کے پاس باہر امبر خندق ہے جسے نظام شاہی کے وزیر ملک امبر نے بنایا تھا اور دولت آباد شہر اس قلعہ کے اندر واقع ہے۔

200 میٹر اونچا یہ قلعہ اپنے آس پاس کی وادی اور قلعوں کی وجہ سے تقریباً ناقابل تسخیر نظر آتا ہے۔

تاہم اس قلعے کی ایک وجہ شہرت علاء الدین خلجی کا حملہ بھی ہے۔ اس حملے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ علاؤ الدین خلجی یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ اپنے چچا جلال الدین خلجی کا تختہ الٹ دیں گے لیکن اس مہم کے لیے ان کو پیسہ درکار تھا۔ اور اسی لیے انھوں نے دکن میں موجود دیواگیری کو چُنا جس کی دولت کا چرچہ ان تک پہنچ چکا تھا۔

علاء الدین خلجی کا دیواگیری پر حملہ اور لوٹ مار

مؤرخ محمد قاسم کی کتاب ’تاریخ فرشتہ‘ علاؤ الدین خلجی اور رام چندر رائے کے درمیان جنگ اور اس کے بعد دیواگیری کی لوٹ مار کی تفصیلات بیان کرتی ہے۔

یادو خاندان کے بادشاہ رام چندر رائے سنہ 1270 میں تخت پر بیٹھے تھے۔ سنہ 1296 میں علاء الدین خلجی نے اچانک حملہ کیا تو رام چندر رائے کی فوج ان کے بیٹے کی قیادت میں ایک مہم پر موجود تھی۔

رام چندر رائے نے دیواگیری کے بظاہر ناقابل تسخیر قلعے میں پناہ لی لیکن اچانک حملے کے باعث اندر خوراک اور سامان کی مقدار ذخیرہ نہیں کی جا سکی تھی۔ اس زمانے میں قلعے کے گرد وہ خندقیں موجود نہیں تھیں جو اب دکھائی دیتی ہیں۔ ادھر خلجی کی فوج نے یہ افواہ بھی پھیلا دی کہ 20،000 مزید فوجی شمال سے آ رہے ہیں۔

BBCدیوا گیری یا دولت آباد قلعہ

رام چندر رائے کے پاس اب کوئی چارہ نہیں تھا چنانچہ اس نے خلجی سے امن معاہدہ کیا اور چھ من سونا، سات من موتی، ہیرے، یاقوت، زمرد اور قیمتی پتھر، ایک ہزار من چاندی اور چار ہزار من ریشم کا کپڑا خراج کے طور پر دے دیا۔

اس ساز و سامان کا تصور تو کیا جا سکتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ ساری تفصیل صرف فرشتہ کی کتاب میں ہی موجود ہے؟

اس زمانے کے نامور مؤرخ امیر خسرو نے خلجی کے دور میں بہت کچھ لکھا۔ ان کے بعد عبدالمالک عصامی نے بھی دیواگیری پر حملے کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔ لیکن ان دونوں کی تحریروں میں مذکورہ بالا خراج کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے بہت سے مؤرخین اس تاریخ پر سوال اٹھاتے ہیں۔

تاریخ فرشتہ میں بیان کردہ تفصیلات تو 17ویں صدی میں لکھی گئیں تھیں۔ لہٰذا 13ویں صدی کے واقعات کے بارے میں اس کا کتنا حصہ تاریخی ہے اور کتنا افسانہ ہے، یہ اہم سوال ہے۔

مؤرخ ڈاکٹر برہمانند دیش پانڈے نے اپنی کتاب ’دیواگیریچے یادو‘ میں خلجی کو ملنے والی دولت کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خلجی اس خطہ میں ضرور آئے ہوں گے لیکن دیواگیری تک نہیں پہنچ سکے۔

دیواگیری کی مشہور ’اندھیری سرنگ‘ اور اس کے افسانے

دیواگیری کے بارے میں پڑھتے ہوئے ایک اندھیری سرنگ کا خاص ذکر ملتا ہے۔

مرکزی قلعہ کے دروازے کی طرف جانے والے راستے میں ناہموار اونچائی کے سیڑھیاں ہیں، لیکن ان کی اونچائی اور شکل یکساں نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہاں زبردستی داخل ہو گا وہ ضرور گرے گا۔ اس اندھیری راہ گزر میں محافظوں کے لیے کئی چوکیاں تھیں۔

اندھیری سرنگ کے بیچ میں پتھر کی دیوار میں ایک خلا تھا، جس سے ہوا آتی تھی۔ دفاع کا ایک منصوبہ یہ تھا کہ جلتے ہوئے کوئلے کو لوہے کے پنجرے میں رکھا جائے اور اس کا دھواں اندھیرے میں پھیل جائے۔ اس دھوئیں سے نکلنا تقریباً ناممکن تھا۔ یونانی مؤرخ پولیبیئس نے لکھا ہے کہ اسی طرح کا منصوبہ 189 قبل مسیح میں رومی فوج نے امبریشیا پر قبضے کے وقت تیار کیا تھا۔

BBC

سڈنی ٹوئے نے ہندوستانی قلعوں کے بارے میں اپنی کتاب 'Strongholds of India' میں کہا ہے کہ اس سرنگ سے گزرنے کے تین راستے تھے۔ اگر کوئی شخص ایک راستے سے باہر نکلتا تو اچانک روشنی کی وجہ سے گہرے گڑھے میں گر جاتا۔ دوسرا راستہ آگے بڑی کھائی کی طرف جاتا تھا، جب کہ تیسرا راستہ قلعے کی طرف جاتا تھا۔

دیواگیری اور ملک امبر کی گہری کھائیاں

دیواگیری دراصل ایک پہاڑی قلعہ ہے اور قلعے کے دفاع کا ایک اہم حصہ اس کے اردگرد گہری کھائیاں یا خندقیں ہیں۔ اگر ہم اس کی تاریخ تلاش کرنے جائیں تو ہم نظام شاہی دور کے وزیر ملک امبر تک پہنچیں گے۔

اس کی تفصیلات پی کے گھنیکر نے اپنی کتاب ’یادوانچا دیواگیری‘ میں دی ہیں۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ کبھی ان کھائیوں پر ایک پل بنا ہوا تھا۔ اس خندق یا گڑھے کے استعمال کے بارے میں انھوں نے لکھا کہ ان میں پانی اس وقت چھوڑا جاتا تھا جب دشمن کے حملے کا خطرہ ہوتا تھا۔ پانی کی سطح بلند ہو جاتی اور پل ڈوب جاتا تو دشمن کے لیے اس کھائی کو عبور کرنا مشکل ہو جاتا۔

یاد رہے کہ ملک امبر ایک افریقی غلام تھا لیکن ہندوستان آنے کے بعد اپنی ذہانت اور مہارت کی وجہ سے نظام شاہی دور میں براہ راست وزیر کے عہدے پر فائز ہوا۔

نظام شاہی کے بانی ملک احمد نے 1490 کے آس پاس دیواگیری پر قبضہ کر لیا۔ 1636 میں اورنگ زیب نے نظام شاہی کو شکست دی اور دکن میں مغلیہ سلطنت کو مضبوط کیا۔

BBCجب دیواگیری دلی سلطنت کا دارالحکومت بنا

سلطان علاء الدین خلجی کی وفات کے بعد کچھ عرصہ دہلی میں اقتدار کی جنگ چلتی رہی۔ علاؤ الدین کا بیٹا قطب الدین مبارک سلطان بنا لیکن بعد میں سلطنت خلجی سے تغلق خاندان کے ہاتھ آئی۔

محمد بن تغلق نے اپنا دارالحکومت دہلی سے دیواگیری منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور دیواگیری کا نام بدل کر دولت آباد رکھ دیا۔

تغلق نے 1327 میں دارالحکومت کو دہلی سے دولت آباد منتقل کرنے کا حکم دیا۔ اس کے لیے زبردست تیاریاں کی گئیں اور دارالحکومت شمال سے سیدھا جنوب کی طرف آ گیا۔

دولت آباد تھوڑے عرصے کے لیے تغلق دارالحکومت رہا۔ تغلق نے 1334 میں دارالحکومت کو واپس دہلی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور طاقت کا مرکز دوبارہ شمال کی طرف منتقل ہو گیا لیکن دولت آباد اس مختصر عرصے میں جغرافیائی سیاسی اہمیت میں بڑھ گیا۔ دیواگیری اور دولت آباد کے قلعے دکن میں طاقت کے دو اہم مراکز کے طور پر پہچانے جانے لگے۔

دارلحکومت کو منتقل کرتے ہوئے تغلق نے دولت آباد اور اس کے گردونواح کو تعمیر کیا۔ تغلق دور کی تعمیرات جیسے بازار، مساجد، کنویں اور سرائے کے آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس قلعے پر ایک مسجد کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ دیواگیری پر قبضہ کرنے کے بعد علاؤ الدین کے بیٹے قطب الدین نے قلعے پر ایک مسجد تعمیر کی اور اس کا نام جامع مسجد رکھا۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی نظام حیدرآباد نے خطے پر اپنی گرفت نہیں چھوڑی۔ انڈین فوج نے حیدرآباد کو آزاد کرانے کے لیے آپریشن پولو شروع کیا اور نظام کی حکمرانی کا خاتمہ کیا۔ پھر اس قلعے کی مسجد میں ایک مورتی نصب کی گئی اور اسے بھارت ماتا مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔

یہ قلعہ قرون وسطیٰ کی تاریخ کا ایک ایسا گواہ ہے جو اب بھی فن تعمیر کی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More