ایپل کو انڈیا کی سیاسی اور سماجی شخصیات کو ’حکومت کے حمایت یافتہ حملہ آوروں‘ سے خبردار کیوں کرنا پڑا؟

بی بی سی اردو  |  Nov 01, 2023

موبائل کمپنی ایپل نے انڈیا میں صحافیوں اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں سمیت ایک درجن سے زیادہ افراد کو پیغامات کے ذریعے خبردار کیا ہے کہ ’حکومت کے حمایت یافتہ حملہ آور‘ ان کے آئی فونز تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ ’حملہ آور‘ کون ہیں، حملے کس ملک سے ہوئے ہیں اور کیا وہ مبینہ متاثرین کے ڈیٹا تک رسائی یا انھیں چرانے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں۔

ان اطلاعات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انڈیا کے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اشارہ کیا کہ انڈیا میں بی جے پی کی حکومت ہی مبینہ طور پر جاسوسی میں ملوث ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی صنعت کار دوست گوتم اڈانی کے ساتھ غیر معمولی قربت سے دھیان ہٹانے کی کوشش ہے۔‘

مودی حکومت کے ایک وزیر نے ان الزامات کو ’تباہ کن سیاست‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ حکومت ’ان الزامات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیقات کرے گی۔‘

ایپل کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نے اس طرح کے نوٹیفیکیشن ایسے لوگوں کو بھیجے ہیں جن کے اکاؤنٹس تقریباً 150 ممالک میں ہیں۔

ایک بیان میں ایپل نے ان الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ حملہ آوروں کی شناخت نہیں کر سکتا ’کیونکہ اس سے حکومت کے حمایت یافتہ حملہ آوروں کو بچنے کے لیے اپنے رویے کو ڈھالنے میں مدد مل سکتی ہے اور مستقبل میں ان کے بارے میں پتا لگانا مشکل ہو سکتا ہے۔‘

ماضی میں بھی انڈین خفیہ ایجنسیوں پر مودی حکومت کے متعدد ناقدین کی مبینہ جاسوسی کے الزامات لگائے گئے ہیں اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس دوران اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویئر استعمال کیا گیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی محقق لکھیتا بنیر جی نے کہا ہے کہ ’ایپل کی جانب سے پیغامات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں ریاستی حمایت سے جاسوسی بنا روک ٹوک کی جا رہی ہے جس میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سیاست دانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا میں پہلے بھی غیر قانونی سرویلنس ہوتی رہی ہے اور جاسوسی سافٹ ویئر کو آزادی اظہار رائے کے حق کو سلب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔‘

’ایسے ماحول میں جب ریاستی اور قومی انتخابات قریب ہیں، ایپل کے پیغامات پریشان کن ہیں اور غیر قانونی جاسوسی کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشل کی جانب سے انھوں نے تمام حکومتوں پر زور دیا کہ وہ ایسے جاسوسی سافٹ ویئر کے استعمال پر پابندی لگا دیں اور انڈیا میں ایپل کے پیغامات کی تفتیش آزادانہ ذرائع سے کروائی جائے۔

Getty Imagesایپل نے کس کو خبردار کیا؟

ایپل کی وارننگ کی اطلاعات اس وقت منظر عام پر آئیں جب منگل کی صبح اپوزیشن رکن پارلیمان مہوا مترا نے ٹوئٹر پر اس کا سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’الرٹ: حکومت کے حمایت یافتہ حملہ آور کے ذریعے آپ کا فون نشانے پر ہو سکتا ہے۔‘

اس کے بعد اپوزیشن کے متعدد رہنماؤں اور صحافیوں نے بھی اعلان کیا کہ انھیں بھی ایپل کی طرف سے ایسے ہی پیغام ملے ہیں۔

https://twitter.com/revathitweets/status/1719237974926512513?s=20

حزب اختلاف کے سرکردہ رہنماؤں میں ششی تھرور، سیتارام یچوری اور اسد الدین اویسی شامل ہیں، جو کہ مختلف اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن نامی تھنک ٹینک کے صدر سمیر سرن اور دی وائر نیوز پورٹل کے ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن نے بھی ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ انھیں بھی ایپل سے یہ پیغامات ملے ہیں۔

حیدرآباد میں مقیم ایک صحافی کا کہنا تھا کہ ان کے ’فون کی بیٹری پچھلے کچھ دنوں سے بہت جلد ختم ہو رہی تھی اور فون عجیب و غریب حرکات کر رہا تھا۔ کل رات یہ پیغام موصول ہوا۔۔۔ پھر سے آپ کو یہ غیر محفوظ ہونے اور غصے کا احساس دلاتا ہے۔‘

حکومت کی ڈیٹا اور انٹرنیٹ سے متعلق پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے بانی ڈائریکٹر آپار گپتا نے روشنی ڈالی کہ ایک مختلف معاملے میں کل 81 کروڑ سے زائد انڈین شہریوں کا ذاتی ڈیٹا مبینہ طور پر لیک ہوا، ساتھ میں ایپل نے انڈین شہریوں کے خلاف حکومت کی سرپرستی میں حملوں کی اطلاع دی اور اس کے علاوہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں، جہاں مہینوں سے نسلی تششد جاری ہے، پچھلے پانچ مہینوں سے انٹرنیٹ بند ہے۔

https://twitter.com/digitaldutta/status/1719222700844187818?s=20

انھوں نے کہا کہ ’یہ سب 24 گھنٹوں میں ہوا اور یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ حالات متواتر اور مستقل ہیں۔‘

سائبر سکیورٹی کے ایک اور محقق سری نواس کوڈالی کا کہنا تھا کہ ’انڈین خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی کے اختیارات کے غلط استعمال کی کوئی حد نہیں ہے۔ انڈیا میں انتخابات سے قبل ارکان پارلیمنٹ کو ’سپائی ویئر‘ سے نشانہ بنائے جانے کی خبریں حیران کن نہیں ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ نگرانی میں اصلاحات ایک انتخابی مطالبہ ہونا چاہیے ورنہ خطرہ ہے کہ ہم ایک مطلق العنان ریاست (ٹوٹیلیٹیریئن سٹیٹ) بن جائیں گے۔‘

انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حملہ آور کون ہیں، اس لیے اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا ’ہم جانتے ہیں کہ اس میں ہماری اپنی حکومت ملوث ہو سکتی ہے، لیکن اگر یہ (حملہ آور) دشمن ریاست پاکستان، چین یا (امریکہ کی) نیشنل سکیورٹی ایجنسی ہوئے، تو؟‘

اپنی پارٹی کے چند مبینہ متاثرین کا نام لیتے ہوئے کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے دفتر کے کئی لوگوں کو یہ پیغام ملا ہے۔۔۔ وہ (بی جے پی) نوجوانوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ مجرموں اور چوروں کا کام ہے۔‘

Getty Imagesماضی میں جاسوسی کی کوششیں؟

راہل گاندھی ان لیڈروں میں شامل تھے جن کے فون پر مبینہ طور پر اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویئر ’پیگاسس‘ ملا تھا۔

ان کے علاوہ کئی صحافی اور سماجی کارکنان کے فون میں بھی مبینہ طور پر یہ سافٹ ویئر ملا تھا اور انھوں نے انڈین حکومت سے اس کی تہہ تک جانے کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح کر دیں کہ اس سافٹ ویئر کو کسی بھی فون پر اس کے صارف کی اجازت کے بغیر انسٹال کیا جا سکتا تھا، اور اس میں صارف کی فون کال، کیمرہ یا نوٹس تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت تھی۔

رپورٹس کے مطابق اس سافٹ ویئر کی قیمت ہزاروں ڈالر تھی، اور اسے بنانے والی اسرائیلی کمپنی ’این ایس او‘ کے مطابق وہ اسے صرف ریاستی ایجینسیوں کو فروخت کرتی تھی۔

ایپل اور میٹا نے این ایس او کی سرگرمیوں کے خلاف امریکہ میں مقدمہ دائر کیا ہوا ہے۔

سنہ 2022 میں اس کی تفتیش کے لیے انڈیا کی سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ کمیٹی نے بتایا کہ انڈیا میں اس ’سپائی ویئر‘ کے استعمال کے بارے میں کوئی حتمی ثبوت نہیں ملے ہیں لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت نے تفتیشی پینل کے ساتھ ’تعاون نہیں کیا‘۔

حکومت کی جانب سے اس میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی ہے۔

تاہم ناقدین کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جاسوسی صرف ایک کمپنی تک محدود نہیں ہے۔ متعدد رپورٹس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ انڈیا جدید آلات کے استعمال سے ناقدین اور عام لوگوں پر جاسوسی کی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مارچ میں فنانشل ٹائمز نے انکشاف تھا کہ انڈیا تقریباً 16 ملین ڈالر کا ایک نیا سپائی ویئر معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ممکن ہے کہ اسے اگلے چند برسوں میں 120 ملین ڈالر تک لے جایا جائے۔

Getty Imagesریاستی سرپرستی میں حملہ کیا ہوتا ہے؟

حکومت کے زیر اہتمام حملے کا ہدف اکثر حکومت کی تنقید کرنے والے افراد یا ادارے ہوتے ہیں، اور اس کی حکمت عملی باقاعدگی سے وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔

اس میں سرکاری دفاتر، جوہری تنصیبات، اور فوجی اڈوں پر حملے شامل ہو سکتے ہیں لیکن اس میں اختلاف کرنے والے، سیاسی مخالفین، اور این جی او کے ساتھ ساتھ نجی کمپنیاں بھی شامل ہیں جو کہ سرکاری اداروں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

انٹرنیٹ پر گمنامی اور اس کی آسان رسائی کی وجہ سے ان حملوں کا سراغ لگانا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور ان میں ملوث گروپس کا اس سے انکار کرنا آسان ہوتا ہے۔

حکومتی سرپرستی میں ہونے والے تمام حملوں کی فہرست بنانا تو مشکل ہے لیکن حکومتیں اور ان سے جڑے گروہ اکثر مخالفین پر حملوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ بہت سے ہائی پروفائل حملوں کی ذمہ داری مبینہ طور پر چین، ایران، شمالی کوریا، روس اور امریکہ میں مقیم گروپوں سے منسوب کی گئی ہے۔

ان کے خلاف الزامات وسیع ہیں جیسے کہ 2015 میں پینٹاگون پر سائبر حملہ، کووڈ 19 سے متعلق ڈیٹا چوری، نجی کمپنیوں کے حساس ڈیٹا کی چوریاں، نیویارک کے ایک ڈیم کی ہیکنگ، یا کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیوز کو ہیک کر تباہ کرنا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More