Getty Imagesسنہ 1903 میں رائٹ برادران نے پہلی کامیاب پرواز کرائی تھی
سپینش رائل اکیڈمی (آر اے ای) کے مطابق پیش گوئی کرناایک عام سی بات ہے اور اس کے تحت کسی علم، تجربے،وجدان یا قیاس کے ذریعے مستقبل میں ہونے والی چیز کا اعلان کیا جاتا ہے۔
اگرچہ کسی کی عام فہم یہ کہتی ہے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے لیکن زندگی کے تمام پہلوؤں میں پیشین گوئی کسی نہ کسی حد تک ضروری ہے۔ یہ آپ کے کسی بھی فیصلے میں مستقبل کے کسی دھندلے سے تصور کی صورت میں ہی سہی کسی نہ کسی حد تک شامل ہوتی ہے۔
لیکن اپنے زمانے کے ماہر طبیعیات نیلز بوہر کا کہنا ہے کہ ’پیش گوئی کرنا بہت مشکل کام ہے، خاص طور پر اگر یہ مستقبل کے بارے میں ہو۔‘
اور جب قابل اعتماد اور بھروسہ مند لوگ کوئی اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ناکام ہو جاتے ہیں تو ہم اسے کبھی نہیں بھولتے۔ ہم عام زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے غلطیوں کی وجہ سے کچھ سبق سیکھا لیکن درحقیقت ہم اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر 120 سال قبل اکتوبر 1903 میں دنیا کے انتہائی مؤقر روزنامے نیو یارک ٹائمز کی طرف سے شائع ہونے والا ایک اداریہ حال تک گردش کرتا رہا ہے۔
اس کا عنوان ’اڑنے والی مشینیں جو نہیں اڑتیں‘ تھا اور آخری سطروں میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ: ’۔۔۔یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ فلائنگ مشین جو درحقیقت پرواز کریں گی ریاضی دانوں اور مکینکس کی مشترکہ اور مسلسل کوششوں سے 10 لاکھ سے ایک کروڑ سالوں میں تیار ہوسکتی ہے۔‘
Getty Imagesمضمون کا تراشہ
اور پھر اس اداریے کی اشاعت کے چھ ہفتے بعد ہی 17 دسمبر کو رائٹ برادران نے ہوا سے بھاری ہوائی جہاز کو فضا میں قابل عمل حد تک پرواز کروانے کا کارنامہ انجام دیا۔
سچ بات تو یہ ہے کہ مضمون کے مصنف نے ایک پرواز کی کوشش پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا، جس کا انھوں نے مشاہدہ کیا تھا اور وہ کوشش ناکام ہو گئی تھی۔
اداریہ لکھنے والا وہ شخص خواہ کتنا ہی پڑھا لکھا ہو وہ ولیم تھامسن اور لارڈ کیلون کی طرح مشہور طبیعیات دان اور موجد نہیں تھا۔
ولیم تھامسن اور لارڈ کیلون نے سنہ 1895 میں اعلان کیا تھا کہ ’ہوا سے بھاری مشینوں کا پرواز کرنا ناممکن ہے۔‘
صرف یہ ہی نہیں ایسی اور بھی بہت سی پیش گوئیاں تھیں جو الٹی پڑیں۔
درحقیقت لارڈ کیلون پیشین گوئی کے فن کی کلاسیکی مثال میں سے ایک ہے۔
سنہ 1897 میں انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’ریڈیو کا کوئی مستقبل نہیں ہے‘ اور 1900 میں انھوں نے اپنی سائنسی برادری کے لوگوں کو یقین دلایا کہ ’ایکس رے ایک دھوکہ ہے۔‘
وہ ایک ایسی انقلابی ایجاد کی دہلیز پر تھے جو ناقابل تصور ٹیکنالوجیز لانے والی تھی۔
ہم یہاں ٹیکنالوجی سے متعلق چند ایسی ہی مشہور پیش گوئیوں کا ایک مجموعہ پیش کر رہے ہیں جن کا آج ہم روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔
Getty Imagesیہ سچ ہے کہ لکڑی کا ڈبہ تو غائب ہو گیا لیکن ٹی وی جیت گیاٹی وی ایک ’لکڑی کا ڈبہ‘
سنہ 1926 میں ریڈیو کے علمبردار اور 180 سے زیادہ پیٹنٹ کے موجد لی ڈی فارسٹ نے کہا تھا کہ ’اگرچہ نظریاتی اور تکنیکی طور پر ٹیلی ویژن ممکن ہے لیکن تجارتی اور مالی طور پر اس کا منافع بخش ہونا ناممکن ہے۔‘
بہر حال دور سے تصاویر دیکھنے کے خیال کی ایک طویل تاریخ تھی جو کہ سنہ 1920 کی دہائی میں یہ ایک حقیقت بن گئی۔
ٹیلی ویژن کی ایجاد کا سہرا کسی ایک شخص کے سر نہیں باندھا جا سکتا اس میں بہت سے سائنسدانوں، تاجروں اور عوامی تنظیموں نے بڑی تعداد میں حصہ ڈالا تھا۔ بہرحال جب اسے پوری طرح سے مکمل کیا جا رہا تھا پریس اور عوام کے سامنے اسے پیش کیا جا رہا تھا۔
سنہ 1939 میں این وائی ٹی نے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا: ’ایکٹ-1، منظر-1‘ 30 اپریل سے گھروں کے لیے نشریات شروع ہوتی ہے۔‘ نشریاتی صحافی اورن ای ڈنلپ جونیئر دنیا کا پہلا میلہ پیش کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹیلی ویژن کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس کی سکرین کو بیٹھ کر دیکھتے رہنا ہے اور عام امریکی خاندان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ لہذا یہ کامیاب نہںی ہو گا۔‘
کچھ اسی طرح کی رائے کا اظہار سنہ 1946 میں ٹوئنٹیتھ سنچری فاکس فلم سٹوڈیو کے شریک بانی ڈیرل زانک نے کیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’ٹیلی ویژن کبھی بھی سامعین کو روک کر نہیں رکھ سکتا۔ لوگ ہر رات لکڑی کے ڈبے کو دیکھ کر بہت جلد بور ہو جائیں گے۔‘
ان کی پیشین گوئیوں کے برعکس ٹیلی ویژن بہت سے امریکیوں کی روزمرہ کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔
اور آج کل تقریباً 80 فیصد لوگ روزانہ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔
اوسطاً ایک شخص ہر ماہ تقریباً 141 گھنٹے یا سال میں 1,692 گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ فرض کریں کہ آپ کی اوسط متوقع عمر 78 سال ہے تو ٹی وی دیکھنے میں آپ کی زندگی کے تقریباً 15 سال لگ جاتے ہیں۔
اور یہ بات صرف امریکہ کے لیے ہے جہاں کے لوگوں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ان کے پاس اس کے لیے وقت نہیں۔
یہ بھی پڑھیے
جینز: دنیا بھر میں مقبول وہ منفرد کپڑا جو ناکام تجربے میں حادثاتی طور پر بنا
سیکشن 230: وہ 26 الفاظ جو انٹرنیٹ کی ایجاد کی بنیاد بنے
وہ گھریلو خاتون جنھوں نے کافی فلٹر ایجاد کیا اور کامیاب کاروباری خاتون بنیں
Getty Imagesانٹرنیٹ کا کوئی ایک موجد نہیں ہے’ایک سپرنووا‘
ٹیلی ویژن کی طرح ہی انٹرنیٹ بہت سے لوگوں کے وقت اور کام کے ساتھ معرض وجود میں آيا۔ اور پھر ورلڈ وائڈ ویب کی آمد سے یہ ہر کس و ناکس کے لیے دستیاب تھا۔
اگرچہ یہ کئی سال پہلے ہی وجود میں آ چکا تھا لیکن سنہ 1995 میں یہ زیادہ شدت سے داخل ہونا شروع ہوا، اور اس پر ردعمل ملا جلا تھا۔
ماہرین میں اس کے بارے میں شکوک و شبہات تھے۔ ان میں فلکیاتی طبیعیات کے ماہر کلفورڈ سٹول نمایاں تھے اور انھوں نے اپنی کتاب ’سلیکون سنیک آئل‘ میں اس کے متعلق پیشین گوئی کی تھی کہ:
’مجھے نہیں لگتا کہ کمپیوٹر نیٹ ورک کے پھیلنے سے ٹیلی فون ڈائریکٹریز، اخبارات، میگزین یا ویڈیو سٹورز غائب ہو جائیں گے۔ مجھے یہ بھی نہیں لگتا کہ میرا فون میرے کمپیوٹر کے ساتھ ضم ہو کر کسی قسم کی معلوماتی ڈیوائس بن جائے گا۔‘
لیکن سب سے یادگار پیشین گوئی انٹرنیٹ کے علمبردار رابرٹ میٹکلف کی طرف سے آئی جو ایتھرنیٹ ٹیکنالوجی کے ارب پتی موجد اور تھری کام کارپوریشن کے بانی ہیں۔
دسمبر سنہ 1995 میں انھوں نے انفوورلڈ نامی میگزن میں شائع ہونے والے اپنے ایک کلاسک مضمون میں لکھا:
’اب 1996 کے بارے میں تقریباً جتنی پیشین گوئیاں کی جا رہی ہیں ان کا انحصار انٹرنیٹ کی مسلسل تیز رفتار ترقی پر ہے۔ لیکن میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ انٹرنیٹ۔۔۔ جلد ہی اپنی چمک دکھا کر قابل دید سپرنووا بن جائے گا اور 1996 میں یہ تباہ کن طور پر منھ کے بل گر جائے گا۔‘
اور وہ وہیں نہیں رکے بلکہ انھوں نے کہا اگر ’سپرنووا‘ کی پیشین گوئی غلط نکلی تو انٹرنیٹ کے خاتمے کے بارے میں اپنے الفاظ واپس لے لیں گے یا کھا لیں گے۔
BBCانٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے اب بچے بچے واقف ہیں
بہر حال سنہ 1997 میں کیلیفورنیا کے سانتا کلارا میں ورلڈ وائڈ ویب پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران سٹیج پر کھڑے ہو کر مٹکاف نے تسلیم کیا کہ انٹرنیٹ کوئی سپرنووا نہیں ہے۔
چونکہ انھوں نے اپنے الفاظ کو واپس لینے کا وعدہ کیا تھا اس لیے انھوں نے انفو ورلڈ میں شائع اپنے کالم کی طرح سجا ہوا ایک بڑا کیک کھا کر اپنے الفاظ واپس لینے یا کھانے کی کوشش کی۔
لیکن سامعین نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا کہ انھیں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑا جا سکتا۔
انھیں انفوورلڈ میں شائع اپنے کالم کو پھاڑنا پڑا، اسے بلینڈر میں تھوڑے سے پانی ڈال کر گوندا گیا تاکہ وہ اسے واقعتاً کھائيں۔
بہر حال اس تماشے کے باوجود ہر کسی نے سبق نہیں سیکھا اور انٹرنیٹ کے خاتمے کی پیشین گوئی پر اصرار کیا۔
صرف ایک سال بعد مٹکاف کے نام سے منسوب ایک قانون کا حوالہ دیتے ہوئے معروف ماہر اقتصادیات پال کرگمین نے اس کے جلد خاتمے کی توقع ظاہر کی۔
انھوں نے کہا کہ ’انٹرنیٹ کی ترقی ڈرامائی طور پر سست ہو جائے گی اور مٹکاف کے قانون میں خامی واضح ہو جائے گی: زیادہ تر لوگوں کے پاس ایک دوسرے سے کہنے کو کچھ نہیں ہوگا!‘
’سنہ 2005 میں یہ واضح ہو جائے گا کہ معیشت پر انٹرنیٹ کا اثر فیکس مشین سے زیادہ نہیں رہا۔‘
نہ صرف وہ اپنی پیش گوئی میں غلط ثابت ہوئے بلکہ اس کی بنیاد پر انھوں نے ایک مضمون میں بھی لکھا جو کہ ٹیکنالوجی میگزین ریڈ ہیرنگ میں شائع ہوئی۔ اس کا عنوان تھا کہ ’زیادہ تر معاشی ماہرین کی پیشین گوئیاں غلط کیوں ہیں۔‘
اگرچہ انھیں اپنے الفاظ چبانے کی ضرورت نہیں پڑھی لیکن وہ غلط پیش گوئی کرنے والوں کی اس فہرست میں شامل ضرور ہو گئے۔
Getty Imagesسٹیو جابز نے سنہ 2007 میں ایپل کا پہلا فون جاری کیا’موبائل فون ٹیلیفون کی کبھی جگہ نہیں لے سکتا‘
اسی طرح موبائل فون کی ایجاد پر یہ بھی کہا گيا کہ ’موبائل فون کبھی بھی تار والے ٹیلی فون کی جگہ نہیں لے سکتا۔‘
اور پھر وقت کے ساتھ یہ پیش گوئی بھی غلط ثابت ہوئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سنہ 1981 میں جس شخص نے یہ بات کہی تھی وہ کوئی اور نہیں بلکہ موبائل فون کے موجد مارٹی کوپر تھے جنھوں نے سنہ 1973 میں نیویارک میں پہلی موبائل فون کال کی تھی۔
اور فون کی بات کرتے ہوئے مائکرو سافٹ کے سابق سی ای او سٹیو بالمر نے سنہ 2007 میں یو ایس اے ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آئی فونز کا اہم مارکیٹ شیئر حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘
انھوں نے زور دے کر کہا کہ ’کوئی چانس نہیں۔ وہ پیسہ کما سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ واقعی فروخت ہونے والے 1.3 بلین فونز کو دیکھیں تو ان میں سے 60، 70، 80 فیصد پر ہمارے سافٹ ویئر ہوں گے جبکہ ایپل دو سے تین فیصد حاصل کر سکتا ہے۔‘
اب جبکہ صارفین کے لیے آئی فون سب سے کامیاب ٹیکنالوجی مصنوعات ہے تو ایسا لگتا ہے اس کے بارے میں کی جانے والی پیش گوئی سب سے خراب پیش گوئی تھی۔